حال دل

نصرت جاوید  بدھ 10 اپريل 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

آصف علی زرداری صاحب کو میں بہت برسوں سے جانتا ہوں۔ میری عدم موجودگی میں بھی وہ اکثر مجھے اپنے ذاتی دوستوں میں شمار کرتے پائے گئے ہیں۔  لیکن میں بڑی دیانت داری سے اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ صحافی اور سیاستدان اپنے اپنے شعبے سے مخلص ہوں تو ایک دوسرے کے دوست ہوہی نہیں سکتے۔ اس موضوع پر مزید بحث میں اُلجھنے کے بجائے سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ میری زرداری صاحب سے کافی شناسائی کے ساتھ ساتھ بہت بے تکلفی بھی ہے۔

ان کی سیاست کو اچھا یا بُرا ثابت کرنے میں وقت ضایع کرنے کے بجائے میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ بطور صحافی میں نے جب بھی اکیلے میں ان سے کوئی سوال پوچھا تو انھوں نے اس کا بے ساختہ جواب دیا۔ مختلف امور کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے انھوں نے کبھی مجھے یہ بھی نہ کہا کہ میری اور ان کے درمیان گفتگو آف دی ریکارڈ رہنا چاہیے۔ سچی بات ہے ان کا یہ رویہ میرے اندر کے رپورٹر کے لیے رحمت کے بجائے زحمت کا باعث ہی رہا۔ چونکہ وہ اپنے دل کی بات بڑے ہی کھرے انداز میں کر رہے ہوتے اس لیے میں اس اُلجھن میں مبتلا ہوجاتا کہ ان کی کہی باتوں میں سے کون سی بات خبر کی صورت میں لکھی جاسکتی ہے یا ان کا کالموں میں ذکر کردینا مناسب ہوگا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک موت کے بعد یہی آصف علی زرداری بہت محتاط ہونا شروع ہوگئے۔  اکیلے میں ملاقاتوں کے درمیان آف دی ریکارڈ رکھنے کا وعدہ کرنے پر بھی آسان سوالوں کے جواب میں خاموش رہنا شروع ہوگئے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد میں بھی اپنے بہت سارے صحافی دوستوں کی طرح یہ جاننے کو مرا جارہا تھا کہ وہ چوہدری احمد مختار،شاہ محمود قریشی اور یوسف رضا گیلانی میں سے کسے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کریں گے۔ کم از کم دو ملاقاتوں میں بڑے اصرار کے ساتھ ان سے اس سوال کا جواب مانگا۔ موصوف آنکھوں میں شرارت لاکر بڑی سنجیدگی سے پوچھنا شروع ہوجاتے کہ تمہارے اپنے خیال میں ان تینوں میں سے کون بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔ میں ان کے اس رویے سے چڑ کر پکار اُٹھتا کہ میں ایک صحافی ہوں۔ ان کا سیاسی مشیر نہیں۔ انھیں جو کرنا ہے کریں۔ بس اپنے پسندیدہ امیدوار کا نام بتادیں۔

ایوانِ صدر پہنچ جانے کے بعد تو وہ بالکل ہی محتاط ہوگئے۔ کم از کم مجھے انھوں نے یہ تو کبھی نہ بتایا کہ یوسف رضا گیلانی ان کی ترجیح ہیں۔ مگر جنرل مشرف کے جانے سے دو روز پہلے یہ ضرور بتادیا کہ وہ اس کے استعفیٰ کا انتظار کررہے ہیں۔ میں نے ایک دو دوستوں سے آصف علی زرداری کا نام لیے بغیر مشرف کے استعفیٰ والے امکان کا ذکر کیا تو انھوں نے میری بھد اُڑائی۔ شدت سے یاد دلایا کہ وہ امریکا کے لاڈلے ہیں اور یہ کہ این آر او وغیرہ تو انھیں صدارت میں برقرار رکھنے کے لیے کروایا گیا تھا۔

مشرف کے جانے کے بعد نئے صدر آصف زرداری ہوں گے۔ یہ خبر بھی مجھے ایک سفارتی تقریب میں ایک غیر ملکی نے بتائی تھی۔ مجھے یقین نہ آیا۔ میں نے آصف علی زرداری سے پوچھ لیا تو ترنت بولے کہ تمہاری نظر میں اس عہدے کے لیے کون مناسب ہوسکتا ہے۔ میں دوبارہ چڑگیا۔ مگر ان کے صدر بننے کے امکان والی بات مجھے ایک انتہائی تگڑے امریکی سفارتکار نے بتائی تھی ۔بعدازاں ایک عرب ملک کے سفیر نے اس کی تائید کردی۔ لہٰذا میں بڑی ڈھٹائی سے لکھتا اور کہتا رہا کہ جنرل مشرف کے استعفیٰ کے بعد آصف علی زرداری ایوان ِصدر چلے جائیں گے۔

ان کے صدر بن جانے کے بعد بھی میری ان سے کافی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ کم از کم پانچ ملاقاتوں میں میرے اور ان کے علاوہ کوئی تیسرا نہ تھا۔ آج تک حسرت رہی کہ ان ملاقاتوں سے کوئی خبر مل سکے۔ رپورٹر کو بہرحال ڈھیٹ ہونا چاہیے۔ اسی لیے باز نہیں آتا۔ ان سے ملاقاتوں میں سوال کرتا رہتا ہوں۔ اسی عادت کی بنا پر آصف زرداری نے نواز شریف کے ساتھ رائے ونڈ جاکر بطور صدر پاکستان جو ملاقات کی تھی اس کے دوسرے روز ان سے اکیلے میں ہونے والی اپنی ملاقات میں بار بار پوچھتا رہا کہ ان کی نواز شریف صاحب سے کیا باتیں ہوئیں۔ وہ حسبِ معمول غچہ دیتے رہے۔

میں بھی ڈٹا رہا۔بالآخر انھوں نے مجھے یاددلایا کہ اس ملاقات کے دوران انھوں نے سندھی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ نواز شریف نے جب ان سے گلہ کیا کہ صدر زرداری نے مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر کیوں رخصت کیا تو انھوں نے جواباً اپنے سرکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھی ہونے کے ناتے وہ خود کو اس ضمن میں بہت کمزور محسوس کرتے ہیں۔ ویسے بھی ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو تک پیپلز پارٹی نے اپنے بہت لوگ مروا لیے۔ اب مزید لاشیں دینے کی ہمت نہیں رہی۔ یہ بات کرتے ہوئے بقول آصف علی زرداری انھوں نے نواز شریف صاحب کو یہ بھی کہا کہ بطور ایک مقبول رہ نما کے جب وہ ایک دن اقتدار میں آئیں تو جنرل مشرف کا حساب لے سکتے ہیں۔

آصف علی زرداری کی جماعت اب اقتدار میں نہیں رہی۔ 11مئی کو نئے انتخابات ہونا ہیں۔ زیادہ تر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ آیندہ حکومت پاکستان مسلم لیگ بنائے گی اور نواز شریف اس کے وزیر اعظم ہوں گے۔ مگر نواز شریف صاحب تو آج کل مشرف کا ذکر ہی نہیں کررہے۔ حالانکہ وہ اب پاکستان واپس آچکے ہیں اور سپریم کورٹ نے ان سے پوچھ لیا ہے کہ کیوںنہ ان کے 3نومبر 2007ء کے اقدامات کی وجہ سے سابقہ صدر کے خلاف جو آرمی کے سربراہ بھی رہے ہیں غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ احمد رضا قصوری نے سماعت کے پہلے روز کچھ باتیں عدالت کے سامنے رکھیں تو مجھے صدر آصف علی زرداری کی نواز شریف سے یہ غالباً آخری ملاقات بہت یاد آئی اور اس میں ہونے والی باتیں بھی۔ بس غالب کا ایک شعر سناکر اپنے دل کا حال بتانا چاہوں گا۔ؔ

تو اور آرائشِ خمِ کاکل

میں اور اندیشہ ہائے دورودراز

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔