انجام گلستان کیا ہوگا؟

رئیس فاطمہ  بدھ 10 اپريل 2013

سیاسی دنگل کا اکھاڑہ تو واقعی سج گیا ہے۔ پہلوان اکھاڑے میں اترنے سے پہلے تمام داؤ پیچ اور مخالف کو پٹخنی دینے کے خفیہ گر اپنے اپنے اکھاڑے کے مالکان سے سیکھ رہے ہیں۔ عام کشتی کے اکھاڑوں اور ان سیاسی اکھاڑوں میں ایک بات مشترک ہے۔ وہ یہ کہ اصلی کشتی کے اکھاڑوں میں جیت کے لیے پہلوان دودھ، شہد، بادام، اصلی گھی، چاروں مغز، گوشت، مچھلی، مرغی اور انڈے وافر مقدار میں اپنے معدوں میں انڈیلتے ہیں۔ لیکن سیاسی اکھاڑوں میں جیت کے لیے جیب میں صرف مال ہونا ضروری ہے تاکہ منہ مانگی قیمت پر پارٹی ٹکٹ حاصل کیا جاسکے۔

ہمارے ہاں احمقوں کی جنت میں گم رہنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ متعدد بار کے آزمودہ لوگ نئے حربوں، نئے نعروں اور نئے نئے ’’نسخوں‘‘ کے ساتھ میدان میں کود رہے ہیں۔ جو پہلے کچھ نہ کرسکے وہ اب کیا کریں گے؟ جنہوں نے ڈالر کو 100 روپے تک پہنچایا وہ اب اسے 200 روپے تک پہنچائیں گے، جنہوں نے ملی بھگت سے پٹرول کمپنیوں اور سی این جی مالکان کو نفع پہنچایا وہ اب بھی یہی کریں گے۔

اگر اندرونی ذرایع کی خبر صحیح ہے کہ سفید محل میں رہنے والوں نے صوبوں اور مرکز میں اپنی مرضی کے کارندے بٹھالیے ہیں تو یہ بھی سچ ہوگا کہ اب الیکشن کے بعد لوگ اجتماعی خودکشیاں کریں گے، کیونکہ آٹا، چاول، گوشت، تیل، گھی، دالیں، دودھ، دہی، سبزیاں، پھل، ٹماٹر، ڈبل روٹی، تندوری روٹی، بیسن، چنے، کپڑا، کراکری، فرنیچر، غرضیکہ ضروریات زندگی سے متعلق ہر شے اتنی مہنگی ہوجائے گی کہ صرف بالائی طبقہ ہی کی پہنچ میں ہوگی۔ لوگ مرنے سے پہلے وصیت کرجائیں گے کہ انھیں عام استعمال شدہ کپڑوں میں ہی دفنایا جائے۔ دکھ ہوتا ہے اس رویے پر کہ جنھیں زندگی میں کبھی نیا لباس میسر نہ ہوا ہو۔ انھیں کورے کفن میں دفنایا جاتا ہے جو یا تو مٹی میں مل جاتا ہے یا پھر کفن چور کے بچوں کے کپڑوں کے کام آتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی پیٹ بھرا انسان کفن کی چوری نہیں کرسکتا۔ بھوک یہ کام کرواتی ہے۔

ابھی میں نے دنگل سجنے کی بات کی ہے۔ اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن کے خبرنامے آج کل بڑا دلچسپ مواد فراہم کر رہے ہیں۔ جعلی ڈگریوں کے حوالے سے جو خبریں آچکی ہیں اور آتی رہیں گی وہ الم ناک  ہیں اور شرم ناک بھی۔  برسوں پہلے خواجہ معین الدین نے ایک ڈرامہ لکھا تھا ’’تعلیم بالغان‘‘۔۔۔۔جس میں ایک کردار (جسے سبحانی بایونس نے نہایت خوبی سے ادا کیا تھا) وزیر تعلیم کو ’’زیرتعلیم‘‘ لکھتا ہے۔

ہماری وفاقی حکومت بھی شاید کسی نادانی میں ایک ’’زیرتعلیم‘‘ کو وفاقی وزیر تعلیم بناتی رہی ہے۔ ڈگریوں کا پنڈورا بکس کھلنے سے یہ بھی پتہ چلا کہ بہت سے لوگ پیدا بعد میں ہوئے اور میٹرک پہلے کرلیا۔ ہمیشہ سے یہی سنا تھا کہ شریف اور خاندانی آدمی میں شرم ہوتی ہے۔ اس کا جھوٹ کھل جائے تو وہ کسی سے آنکھ نہیں ملاسکتا۔ لیکن کیا دور آگیا ہے کہ جعلی ڈگری ثابت ہونے کے باوجود کس ڈھٹائی سے اس کے خلاف اپیل کی جارہی ہے۔ گویا ان کی چوری پکڑنا جرم ٹھہرا۔۔۔۔

البتہ تمام تر خرابیوں کے باوجود الیکشن کمیشن جس طرح امیدواروں کے کاغذات، اثاثوں اور ڈگریوں کی جانچ پڑتال کر رہا ہے۔ جس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان سوموٹو ایکشن لے رہا ہے، فیصلے سنا رہا ہے اس سے کسی حد تک مایوسی چھٹتی نظر آرہی ہے۔ لیکن جس طرحبعض افراد ان فیصلوں کو دل سے تسلیم نہیں کر رہے وہ کافی پریشان کن ہے۔   الیکشن کمیشن کے احکامات پر عملدرآمد ہوجائے تو صورت حال کافی بہتر ہوجائے گی ۔ خاص طور پر وہ امیدوار جنہوں نے بینکوں کے قرضے واپس نہیں کیے اور معاف کروالیے۔ وہ جن کے اثاثوں کی مالیت ان کی آمدنی سے کئی ہزار گنا زیادہ ہے۔

وہ جنہوں نے دوسروں کی زمینوں پر بڑے بڑے سیاست دانوں، بیوروکریٹس کی مدد سے قبضہ کیا، جعلی ڈگریاں حاصل کیں، ان سب کو نااہل قرار دے دینا چاہیے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جس سیاسی یا مذہبی جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو جن کے پاس جعلی ڈگریاں ہیں  اس جماعت کو تو الیکشن ہی سے باہر کردینا چاہیے۔ لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ اس معاملے میں سیاسی جماعتوں کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں ہے۔گزشتہ سالوں میں اسمبلیوں، وزیروں اور حاکموں کی جو کارکردگی رہی ہے اس نے بتادیا ہے کہ آج کے دور میں شرافت اور سچائی سب سے بڑا جرم ہے۔ چور، اچکے، رسہ گیر، زمینوں پر قبضے کرنے والے، بینکوں کو لوٹنے والے، عورتوں کو زندہ دفن کرنے والے، بچیوں کے اسکول بم سے اڑانے والے یہی آیندہ بھی اس ملک پر حکومت کرتے رہیں گے۔  انھوں نے اپنی اپنی اولاد کی نئی کھیپ تیار کرلی ہے۔

الیکشن کے دنگل کے ساتھ ہی ایک نیلام گھر بھی سج گیا ہے۔ جہاں موسمی پرندوں نے خود کو خریداری کے لیے پیش کردیا ہے۔  جو اپنی پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانے والوں کو تو ’’لوٹا‘‘ کہتے ہیں، لیکن جو اپنی پرانی پارٹی چھوڑ کر ان کی پارٹی میں آتا ہے۔ اسے یہ فوراً ٹکٹ دے کر سر پر بٹھا لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دھوکے باز سیاست دانوں کے برے دن آگئے ہیں۔ کاش! یہ سچ ہو۔ لیکن گزشتہ کئی سال سے جس طرح سپریم کورٹ کے فیصلوں کو دل سے ماننے سے انکار کیا جا رہا ہے، جس طرح بعض اداروں کے سربرآوردہ لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے اس سے کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ رشوت خور اور ٹیکس چور دوبارہ اقتدار میں نہیں آئیں گے؟

ایک عام آدمی قطار میں لگ کر یوٹیلٹی کے بل جمع کراتا ہے، پھر بھی آٹھ آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا عذاب سہتا ہے۔ سی این جی کی بندش کی بناء پر رکشہ اور ٹیکسی والوں کو تین گنا زیادہ کرایہ دیتا ہے یا پھر بسوں اور ویگنوں میں جانوروں کی طرح بھر کر سفر کرنے پر مجبور ہوتا ہے، لیکن یہ خاندانی جاگیردار، وڈیرے، سردار اور سرمایہ دار اپنے اپنے فارم ہاؤسز، ٹیوب ویل اور کھیتوں کے لیے پانی، بجلی بے دھڑک استعمال کرتے ہیں اور ایک پائی بل جمع نہیں کراتے۔  خاندانی آدمی کے پاس جتنا زیادہ پیسہ آتا ہے، اتنا ہی وہ سخی ہوجاتا ہے۔ پھل دار درخت کی طرح جھک جاتا ہے۔ لیکن کسی غلط طریقے سے دولت مند بننے والا سب سے پہلے شراب اور عورت کی طرف بڑھتا ہے، کئی کئی داشتائیں رکھتا ہے ۔

اور آخر میں ایک بات سینئر کالم نگار ایاز امیر کے کالم کے حوالے سے۔ اگر انھوں نے اردشیر کاؤس جی کے حوالے سے یہ کہا کہ کاؤس جی نے انھیں مغربی مشروب کے ذائقے اور ذوق لطیف سے آگاہ کیا، تو کیا غلط ہے۔ ایاز امیر صاحب میں غالب کی طرح اتنی اخلاقی جرأت تھی کہ انھوں نے تحریر میں کہیں ڈنڈی نہیں ماری، کہیں غلط بیانی نہیں کی، لیکن  ان بڑے لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنی نجی محفلوں کے علاوہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں، گیسٹ ہاؤسز میں، جم خانوں میں، کلبوں میں، ہر جگہ شراب اور بے ہودہ رقص کی محفلیں سجاتے ہیں اور اسے اپنی ثقافت کا نام بھی دیتے ہیں۔ ان بہروپیوں کی پکڑ اس لیے نہیں کہ وہ برملا اس کا اعتراف نہیں کرتے ہر وقت خود کو ’’پاکباز مسلمان‘‘ ثابت کرنے کے لیے ہر جگہ لوگ خرید رکھے ہیں۔

ایاز امیر صاحب! آپ کیا پاکستانی معاشرے سے واقف نہیں ہیں جو سچ لکھ گئے۔ آپ تو جانتے ہیں بہت اچھی طرح کہ ایک زمانے میں (ن) لیگ نے جس طرح عمران خان کی کردار کشی کی مہم چلانے کے لیے ان کی ذاتی زندگی کو اچھالا تھا اور اس کی تشہیر پر ہر سطح پر خوب پیسہ خرچ کیا تھا۔ خود آپ کے مخالفین بھی آپ کی کمزوریاں ڈھونڈیں گے۔ انھیں اور کچھ نہ ملا تو ایک ہلکی پھلکی ملاقات کی تفصیل کو گردن زدنی قرار دے دیا۔ ریٹرننگ افسر  شاید بہت معصوم ہیں۔ انھیں پتہ ہی نہیں کہ بے شک شراب اسلام میں حرام ہے۔ لیکن مختلف اداروں میں ہر جگہ اس کی کتنی پابندی کی جاتی ہے۔ ایاز امیر صاحب! یہ سماج جھوٹوں کو تاج پہناتا ہے اور سچوں کو سولی پر لٹکادیتا ہے۔ آیندہ احتیاط کیجیے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔