بس ایک ہی آدمی

طارق محمود میاں  بدھ 10 اپريل 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

آخری نشانہ بازی چالو ہے۔ بڑھ بڑھ کے ایک دوسرے پر وار ہو رہے ہیں لیکن افسوس کہ کچھ بھی نیا دکھائی نہیں دے رہا۔ سارے ہتھیار پرانے اور کند ہیں۔ زنگ، دیمک، پھپھوندی اور کائی۔ روایت بھی وہیں، اختراع بھی وہیں اور تبدیلی بھی اسی جگہ پر کھڑی ہے جہاں سے روانہ ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے آپ تھوڑی دیر کے بعد مجھ پر جانبداری کا الزام دھر دیں لیکن میں حقیقت سے نظریں کیوں چراؤں۔ آئیے! اس صورت حال کو ایک اور طریقے سے دیکھتے ہیں۔

آج شام میں آفس سے لوٹا تو دیکھا کہ بڑے بھائی صاحب، جناب طاہر میاں، نوجوانوں کو ایک داستان سنا رہے ہیں اور سب بڑے انہماک سے گوش بر آواز ہیں۔ انھوں نے ’’آئی بی اے‘‘ سے 1972ء میں مارکیٹنگ میں ایم بی اے کیا تھا اور گفتگو کا آغاز اسی حوالے سے تھا سنیے!

جب ہم لوگ مارکیٹنگ کے طالب علم تھے تو اسی زمانے میں ایک انتہائی دلچسپ تشہیری مہم کا آغاز ہوا۔ یہ ایک ایسی تشہیری جنگ تھی جو دنیا کے دو مشہور ترین کولا ڈرنکس کے درمیان لڑی گئی۔ ایسی دلچسپ کہ انھوں نے اسے کسی لڑائی سے زیادہ آرٹ کا درجہ دے دیا تھا۔ اور یہ کیسی مزے کی بات ہے کہ محض سادہ پانی کو کاربونیٹ کر کے اور اس میں چینی، سبزیوں کا ست اور کیفین ملا کے صرف مارکیٹنگ کے بل بوتے پر مشروبات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا گیا۔ سب سے پہلا ’’کولا‘‘ 1886ء میں ایک کیمیا دان نے اپنے گھر میں ایجاد کیا تھا۔ وہ اسے دواؤں کی ایک دکان پر فاؤنٹین ڈرنک کے طور پر 5 سینیٹ فی گلاس کے حساب سے فروخت کرتا تھا۔ آج یہی مشروب ہر روز پوری دنیا میں کئی ارب کی تعداد میں فروخت ہوتا ہے۔

مدتوں یہی ’’کولا‘‘ اکیلا دنیا پر راج کرتا رہا۔ پھر 1940ء میں دوسرا بڑا کولا نمودار ہوا اور یوں دنیا کی سب سے بڑی اور لمبی تشہیری جنگ کا آغاز ہو گیا۔ نغمے اور جگل تیار ہوئے اور نئے نئے سلوگن تراشے گئے۔ یہ جنگ آج بھی جاری ہے۔ مجھے خاص طور پر جس جنگ کا ذکر کرنا ہے وہ 1970ء کی دہائی میں اس وقت نئے جوش اور جذبے کے ساتھ شروع ہوئی تھی جب نسبتاً چھوٹے کولا نے پرانے ’’کولا‘‘ پر براہ راست حملہ شروع کر دیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ پرانا مشروب چھوڑ کے لوگ اب تیزی سے اس کی طرف آ رہے ہیں۔ لوگوں کا رجحان بدل رہا ہے وہ اب اسے ترجیح دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ پرانے ’’کولا‘‘ نے اس حملے کا کوئی جواب نہیں دیا۔

یہ دیکھ کے سبھی کی ہمت بڑھ گئی۔ اس عرصے میں جو چھوٹے موٹے دیگر مشروبات میدان میں آئے تھے وہ بھی بڑھ چڑھ کے حملہ آور ہو گئے۔ پھر انھوں نے باقاعدہ اعداد و شمار دینا شروع کر دیے کہ اس ہفتے اتنے لوگ پرانا ’’کولا‘‘ ترک کر کے ہماری طرف آ گئے ہیں اور ہمارے خریداروں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے۔ ایسے دعووں سے یوں لگتا ہے تھا کہ جیسے پرانے ’’کولا‘‘ کا راج ختم ہوا اور نئے مشروبات ہر طرف چھا گئے ہیں۔

پھر کوئی ایک ماہ کے بعد پرانے اور اصلی ’’کولا‘‘ کی طرف سے ایک دھماکہ دار جواب آیا۔ اس نے کہا “It’s the real thing”۔ ہاں اصلی چیز بس ہم ہی ہیں۔ ’’نیا کولا‘‘ کہتا ہے کہ پرانے کولا کے اتنے خریدار ہماری طرف آ گئے ہیں۔ ’’یہ کولا‘‘ کہتا ہے کہ اتنے خریدار پرانا کولا چھوڑ کے ہمیں پسند کرتے ہیں۔ ’’وہ کولا‘‘ کہتا ہے کہ پرانا کولا ترک کر کے اب ہزارہا لوگ ہمارا ڈرنک خریدتے ہیں۔ ’’فلاں کولا‘‘ کہتا ہے کہ ہمارا ذائقہ پرانے کولا سے بہتر ہے۔

ہر کوئی ’’پرانے کولا‘‘ کا ذکر کرتا ہے، ہر کوئی ’’پرانے کولا‘‘ سے مقابلہ کرتا ہے، ہر کوئی پرانے کولا کے بارے میں ہی سوچتا ہے، پھر اصلی چیز کیا ہوئی؟ ’’پراناکولا‘‘۔”it’s the real thing”۔

یوں اصلی کولا نے بہت دنوں تک یک طرفہ حملے اطمینان سے برداشت کرنے کے بعد ایک ہی جوابی وار سے یہ جنگ جیت لی۔ اس عرصے میں مخالفین کا کتنا ’’اسلحہ‘‘ برباد ہوا ہو گا اس کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اسی سے ملتا جلتا منظر ہمارے پاکستان کے سیاسی افق پر بھی دکھائی دیتا ہے۔ پرویز مشرف جیسا ہارا ہوا جواری سب سے ہاتھ ملانے کو تیار ہے پر اس قابل رحم حالت میں بھی اس کا اصلی ہدف نواز شریف ہے۔

کینیڈا سے آنے والے قادری کا ٹارگٹ بھی ایک ہی شخص تھا۔ اس نے سب سے ہاتھ ملایا اور ڈرامہ رچایا تا کہ اس شخص کو زچ کیا جا سکے۔ اب بھی اسی تاک میں ہے۔

گجرات کے چوہدری اس ملک کو اس شخص سے محفوظ رکھنے کے لیے کسی اور جرنیل کو بھی دس بار وردی میں منتخب کروانے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔

نگراں حکومتیں مسلم لیگ (ن) کی مرضی کی نہ بن سکیں لیکن سرحد کے مولانا صاحب ان میں کوئی خرابی دیکھتے ہیں تو اس کا ذمے دار اسی ایک شخص کو ٹھہراتے ہیں۔

میرے شہر والوں کو اس کے سر پر بال اگانے پر اعتراض ہے۔

نوڈیرو میں تقریریں ہوتی ہیں تو نشانے پر وہی شخص ہوتا ہے۔

لال ٹوپی والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں اگر کوئی طالبان کا سرغنہ ہے تو وہ وہی ہے۔

میڈیا اور سوشل میڈیا میں ایک ہجوم ہے جو گھٹیا سے گھٹیا تر طریقہ استعمال کر کے کردار کشی کر رہا ہے۔

اور تو اور ہمارے بزرگ کرکٹر عمران خان اپوزیشن میں رہنے والے اس شخص کو ساری خرابیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں اور انھی سے اقتدار کی بھیک بھی مانگتے ہیں۔ ’’میاں جی ہن جان دیو، تے ساڈی واری آن دیو۔‘‘

تازہ واردات یہ ہوئی کہ نگراں وزیر داخلہ نے اس شخص کی تعریف میں ایک مرا مرا سا بیان دیا اور درجنوں کے کلیجے ہل گئے۔ سیاپوں کا ایک سلسلہ ہے جو تھمنے میں نہیں آ رہا۔

اعتراضات، سوالات اور تحفظات میرے دل میں بھی ہیں لیکن اوپر دکھائی دینے والی صورت حال میں اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں ہے کہ ہماری موجودہ سیاست کا محور کون ہے۔ بس ایک ہی اصلی آدمی۔۔۔۔ ہر کوئی اسی کی بات کرتا ہے۔ اسی سے آگے بڑھنے کی کوشش میں ہے۔ وہی معیار کی علامت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔