آرٹیکل سکس

جاوید چوہدری  بدھ 10 اپريل 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

چور کی دلیل نے سب کو حیران کر دیا‘ بادشاہ کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا‘ وزیر باتدبیر نے سرجھکا لیا جب کہ درباریوں کے دل دھک دھک کرنے لگے‘ چور نے کہا ’’ حضور آپ کو مجھ سے پہلے ان تمام لوگوں کے ہاتھ قلم کرنے چاہئیں جن کی سستی‘ نااہلی‘ بے وقوفی اور بے احتیاطی نے مجھے چور بنایا‘ یہ لوگ اگر اپنی چیزوں کی حفاظت کرتے‘ یہ احتیاط سے کام لیتے تو آج ملک میں کوئی چور نہ ہوتا‘‘ بادشاہ‘ وزیر باتدبیر اور درباری حیرت سے چور کی طرف دیکھنے لگے۔

آپ اگر معاشرے کو پوری طرح سمجھنا چاہیں‘ آپ اپنی کمزوریوں اور اپنی کوتاہیوں کا اندازہ لگانا چاہیں تو آپ کو ایماندار‘ نیک‘ سمجھ دار اور ذہین لوگوں کے بجائے معاشرے کے برے‘ نالائق اور بے ایمان لوگوں سے مشورہ کرنا چاہیے کیونکہ آپ کو آپ کے بارے میں‘ آپ کے محلے‘ شہر اور ملک کے بارے میں جتنی مکمل اور تفصیلی معلومات یہ لوگ دے سکتے ہیں‘ آپ کو معاشرتی مسائل کا جتنا مکمل اور زبردست حل یہ لوگ دے سکتے ہیں اتنا دنیا کے تمام دانشور‘ ذہین‘ پڑھے لکھے اور ایماندار مل کر بھی نہیں دے سکتے۔

اگر اس ملک میں کبھی کسی حکومت نے میری بات کو سنجیدہ لیا یا کسی حکمران نے مجھ سے مشورہ کیا تو میں اس سے صرف ایک درخواست کروں گا‘ میں اس سے عرض کروں گا آپ جیل میں بند مجرموں‘ سزا یافتہ بدنصیبوں اور تائب شدہ برے لوگوں کی کہانیاں بڑے پیمانے پر شایع کرا دیں‘ ان لوگوں کی زندگی پر ڈاکومنٹری فلمیں بنوائیں اور صحافیوں کو ان تک رسائی دے دیں‘ یہ کہانیاں معاشرے کو بدل دیں گی‘ ہم سب جان جائیں گے ہم میں کیا کیا خرابیاں ہیں اور ہم معاشرے کو کس طرح ٹھیک کر سکتے ہیں‘ مجرم معاشرے کے سب سے بڑے مشیر ہو سکتے ہیں‘ معاشروں کو بس ان سے کام لینا چاہیے‘ وہ چور بھی دانشور مجرم تھا۔

چنانچہ اس نے بادشاہ کو حیران کر دیا‘ چور کا کہنا تھا ’’ میں ایک معصوم اور نیک نوجوان تھا لیکن مجھے لوگوں کی بے پروائی نے مجرم بنا دیا‘‘ اس کا کہنا تھا’’ میں بچپن میں محلے میں نکلتا تھا تو میں دیکھتا تھا لوگ اپنے دروازے کھلے چھوڑ کر باہر نکل جاتے ہیں‘ عورتیں اپنے زیورات میز پر رکھ دیتی ہیں اور لوگوں کے روپوں کی تھیلیاں میزوں پر پڑی ہوتی تھیں‘ یہ کھلے دروازے ‘ یہ روپوں کی لاوارث تھیلیاں اور یہ میزوں پر پڑے زیورات مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے تھے‘ میں نے اس توجہ کا ہاتھ تھام لیا اور چھوٹی موٹی چوریاں شروع کر دیں‘ میری چوریوں پر کسی نے اعتراض نہ کیا‘ میں جن کا مال چوری کرتا تھا وہ اسے معمولی نقصان سمجھ کر خاموش ہو جاتے تھے‘ میں اپنے مال میں سے کچھ حصہ اپنے خاندان کو دے دیتا تھا۔

یہ اپنا حصہ لے کر خاموش رہتے تھے‘ میں کچھ رقم دوستوں یاروں پر خرچ کرتا تھا‘ یہ بھی خوش تھے اور میں کچھ روپے مولوی صاحب کو چندے میں دے دیتا تھا اور یہ میری سخاوت کے گن گاتے تھے‘‘ چورنے کہا ’’ میرے پاس پیسے آنے لگے تو شہر کے معززین مجھے اپنے پہلو میں جگہ دینے لگے‘ عمائدین‘ شہر کی انتظامیہ اوربادشاہ سلامت کے مصاحبین مجھے عزت دینے لگے‘ ان میں سے کوئی مجھ سے یہ نہیں پوچھتا تھا تمہارے پاس رقم کہاں سے آ رہی ہے یا تمہارا ذریعہ معاش کیا ہے؟ یہ سب خاموش تھے اور ان کی یہ خاموشی میرے حوصلے بڑھاتی چلی گئی یہاں تک کہ میں سلطنت کا سب سے بڑا چور بن گیا اور آپ نے مجھے گرفتار کر لیا‘‘ چور نے لمبی سانس لی اور آہستہ سے کہا ’’ آپ بے شک مجھے سزا دیں لیکن میری سزا سے مملکت میں چوری ختم نہیں ہوگی‘ میری جگہ کوئی دوسرا چور آ جائے گا‘ آپ اسے پکڑیں گے۔

اسے سزا دیں گے تو اس کی جگہ کوئی تیسرا چور آ جائے گا اور اس کے بعد کوئی چوتھا‘ آپ چور پکڑتے رہیں گے مگر چوری جاری رہے گی‘‘ چور نے لمبی آہ بھری اور اس کے بعد بولا ’’ آپ اگر چوری ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ مجھ سے پہلے ان تمام لوگوں کے ہاتھ کاٹ دیں جن کی غفلت‘ نااہلی اور بے احتیاطی معاشرے میں چور پیدا کر رہی ہے‘ اس کے بعد میرے ان تمام رشتے داروں اور عزیزوں کے ہاتھ کاٹ دیں جن کی خاموشی مجھ جیسے لوگوں کو چور بناتی ہے اور اس کے بعد میرے ان تمام دوستوں‘ راشی افسروں‘ نام نہاد معززین اور اپنے بے ایمان مصاحبین کے ہاتھ کاٹ دیں جو مجھ جیسے چوروں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں جو مجرموں اور چوروں کو فخر سے اپنے پہلو میں بٹھاتے ہیں اور اس کے بعد اپنے ہاتھ کٹوا دیں کیونکہ آپ نے ایسا آئین‘ ایسا قانون بنایا جو صرف چوروں کو سزا دیتا ہے‘ چوری کو نہیں‘‘ چور خاموش ہو گیا مگر بادشاہ کے چہرے پر جلال کی لکیریں چیخ رہی تھیں‘ اس نے چلا کر حکم دیا ’’ پرویز مشرف جیسے چور پر آرٹیکل سکس کی حد لگا دی جائے‘‘۔

ملزم پرویز مشرف نے قہقہہ لگایا اور بادشاہ سے عرض کیا ’’ جناب میں چور ہوں‘ میں غاصب بھی ہوں‘ میں آمر بھی ہوں اور میں نے اس ملک کا آئین بھی توڑا لیکن کیا وہ تمام لوگ میرے ساتھی‘ میرے شریک جرم نہیں ہیں جن کی نااہلی‘ نالائقی اور کرپشن میرے جیسے آمروں کو تحریک دیتی ہے‘ کیا وہ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو میرے شریک جرم نہیں ہیں جنھیں عوام نے اعتماد دیا مگر انھوں نے اقتدار میں آ کر اپنا کوئی عوامی وعدہ پورا نہیں کیا‘ کیا وہ لوگ میرے شریک کار نہیں ہیں جنہوں نے مجھے اقتدار پر قابض ہونے پر مجبور کیا‘ کیا وہ سولہ سترہ کروڑ عوام میرے شریک کار نہیں ہیں جنہوں نے میرے قبضے کے بعد مٹھائیاں تقسیم کیں‘ مبارک بادیں دیں‘ ’’ مشرف لورز‘‘ کے نام سے جماعتیں بنائیں جو مجھے یونیفارم میں دیکھ کر دیوانہ وار زندہ باد‘ پایندہ باد کے نعرے لگاتے تھے‘ جو میرے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دیتے تھے۔

کیا اس ملک کے وہ تمام سیاستدان میرے شریک جرم نہیں ہیں جو اپنی پارٹیاں چھوڑ کر میری پارٹی میں شامل ہو گئے‘ جنہوں نے میرے ساتھ سیاسی اتحاد بنائے‘ جو پورے ملک میں میرے لیے جلسے کرتے تھے‘ جنہوں نے میرے ساتھ سمجھوتے کیے اور چپ چاپ بیرون ملک بیٹھ گئے‘ جنہوں نے میرے ساتھ این آر او کیے‘ کیا وہ تمام بیورو کریٹس‘ وہ تمام ٹیکنو کریٹس اور وہ تمام جنرل میرے ساتھ شریک جرم نہیں جنہوں نے میرے قبضے کو چپ چاپ تسلیم کرلیا‘ جو میرے دست و بازو بن گئے‘ جنہوں نے اعلیٰ پوزیشنز حاصل کیں‘ مراعات لیں‘ پلاٹس لیے اور ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ نوکریاں حاصل کیں‘ کیا وہ تمام پارلیمنٹیرینز میرے شریک جرم نہیں جنہوں نے مجھے یونیفارم میں صدر تسلیم کیا‘ جنہوں نے ریفرنڈم میں میری حمایت کی‘ جو مجھے بطور صدر تسلیم کرتے رہے۔

کیا وہ جج میرے شریک جرم نہیں جنہوں نے مجھے تین سال کے لیے اس ملک کا چیف ایگزیکٹو مان لیا اور مجھے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیا‘ کیا میرے وہ ساتھی میرے شریک جرم نہیں ہیں جو مجھ سے عہدے لیتے تھے‘ جو مجھے اس ملک کا مسیحا کہتے تھے اور میری نجی محفلوں میں گانے گاتے اور ڈانس کرتے تھے‘ کیا وہ میڈیا میرا شریک جرم نہیں جو یونیفارم میں میرے انٹرویو‘ میری پریس کانفرنسیں چلاتا تھا اور مجھے جناب صدر‘ جناب صدر کہتا تھا اور کیا وہ تمام لوگ میرے شریک جرم نہیں جنہوں نے میرے ایک اشارے پر بگٹی کو قتل کر دیا اور جو لال مسجد آپریشن کو درست اور بروقت کہتے تھے اور جنہوں نے مجھے چیف جسٹس کو معزول کرنے کی سفارش کی تھی‘‘۔

ملزم پرویز مشرف نے کہا ’’ بادشاہ سلامت آپ جب تک اس ملک کے ان تمام لوگوں کو آرٹیکل سکس کے تحت سزا نہیں دیں گے جو آمروں کی آمد پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں‘ جو ہر آمر کی پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں اور آمر کے جانے کے بعد سیاسی جماعتیں انھیں واپس لے لیتی ہیں‘ جو بیورو کریٹس آمر کا دست و بازو بن جاتے ہیں اور آمر کے وہ تمام رفقاء کار جو اسے آگے بڑھنے اور اقتدار پر قابض ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں‘ بادشاہ سلامت آپ جب تک انھیں سزا نہیں دیں گے‘ اس وقت تک آمروں اور آمریت کا سلسلہ چلتا رہے گا‘ میں چلا جائوں گا‘ مجھے سزا ہو جائے گی مگر میرے بعد دوسرا آمر آئے گا اور وہ بھی یہی کرے گا‘ آپ کتنے پنڈورا باکس کھولیں گے‘ کتنی بلائوں کو سزا دیں گے اور کتنے آمروں کوغاصب قرار دیں گے‘ بادشاہ سلامت آپ دروازوں پر کنڈیاں لگانا شروع کریں‘ چوریاں خودبخود رک جائیں گی‘ آپ آمروں کے ساتھیوں کو ’’ ڈس کوالی فائی‘‘ کریں‘ آپ آمروں کو کندھوں پر اٹھانے والوں کو سزا دیں‘ آمریت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جائے گی ورنہ دوسری صورت میں آپ کتنے مشرف مارو گے‘ ہر مورچے سے مشرف نکلے گا اور لوگ ہر مشرف کو ہار پہنائیں گے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔