دال روٹی کا مسئلہ…

ایم آئی خلیل  بدھ 10 اپريل 2013

انتخابات کا موسم ہے، سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں گندم کی فصل کاٹنے کے موسم کا آغاز ہو چکا ہے۔ سیاست کے میدان میں طرح طرح کی خبریں اپنا رنگ جما رہی ہیں۔ لیکن معیشت و زراعت سے متعلق کئی خبریں ایسی ہیں کہ جنھیں سن کر غریب عوام کا رنگ پھیکا پڑ رہا ہے۔ اور ان کی دال روٹی کی فکر میں مزید اضافہ ہو گیا ہے، کیونکہ بتایا جا رہا ہے کہ ملک میں دالوں کی پیداوار میں شدید کمی واقع ہو گئی ہے۔

اس کے ساتھ ہی کاشتکار بھی تشویش میں مبتلا ہیں کہ حکومت کی طرف سے گندم کی خریداری کا ہدف مکمل ہونے کے بعد یا اسی دوران انھیں اپنی فصل مڈل مین کو اونے پونے داموں فروخت کرنی ہو گی۔ اس طرح کم آمدنی کے باعث ان کا گزارا مشکل سے ہو گا۔ لہٰذا غریب کسانوں کو بھی اپنی دال روٹی کی فکر لگ گئی ہے۔ مہنگائی ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ غریب کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے عوام کی توجہ فکر معاش کی طرف زیادہ ہے لہٰذا بقول شخصے، سب بات کھوٹی، پہلے دال روٹی۔ آئیے! پہلے دال پھر روٹی کی صورت حال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش ناک صورت حال چنے کی پیداوار سے متعلق ہوئی۔

2012ء میں چنے کی پیداوار 5 لاکھ ٹن سے کم ہو کر محض ایک لاکھ ستر ہزار ٹن رہ گئی۔ ملک میں چنے کی طلب 6 لاکھ ٹن ہے۔ کسی زمانے میں چنے کی دال سستی ہوا کرتی تھی اور غریبوں کی دال روٹی کا مسئلہ حل ہو جایا کرتا تھا۔ پانچ سال قبل چنے کی دال کی قیمت 32 سے 40 روپے فی کلو رہی۔ اب اس کی قیمت سو روپے کے لگ بھگ ہے۔ مونگ کی دال اور ماش کی دال کی قیمت زیادہ ہے۔ بعض اوقات ان دالوں کی قیمت اور زندہ مرغی کی فی کلو قیمت برابر بھی ہو جاتی ہے۔ چنے کی بھرپور فصل 2008-09ء میں اٹھائی گئی تھی۔ جب 10 لاکھ 66 ہزار ہیکٹر رقبے پر یہ فصل کاشت کر کے 7 لاکھ 40 ہزار ٹن چنا حاصل کیا گیا تھا۔ اگلے سال پیداوار کم ہو کر 5 لاکھ 61 ہزار ٹن رہ گئی۔

اسی دوران چنے کی فی ہیکٹر پیداوار بھی 685 کلوگرام سے کم ہو کر 526 کلو گرام ہو گئی۔ بھارت میں دال کی فصل کی پیداوار بڑھانے پر بھرپور توجہ دی گئی اور ہم بھارت سے بھی دال درآمد کرتے ہیں۔ ملک میں دال چنا کی مانگ 6 لاکھ ٹن سے زائد ہے جب کہ چنے کی پیداوار پونے دو لاکھ ٹن تک ہے۔ درآمدی دال مزید مہنگا دستیاب ہو گی۔ مونگ کی دال کا پیداواری رقبہ پونے دو لاکھ ہیکٹر ہے۔ اور ملکی پیداوار کبھی ڈیڑھ لاکھ ٹن اور کبھی سوا لاکھ ٹن بھی رہی۔ دال مونگ 2009-10ء میں فی ہیکٹر پیداوار 716 کلوگرام تھی جو اب کم ہو کر ساڑھے چھ سو کلو گرام ہو گئی۔ ماش اور مسور کی دال کا پیداواری رقبہ بہت ہی کم ہے۔ ماش کی دال تقریباً 30 ہزار ہیکٹر رقبے پر کاشت کی جاتی ہے اور 13 یا 12 ہزار ٹن پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

مسور کی دال پر بھی یہی صورت حال گزر رہی ہے۔ کافی عرصے سے ماہرین اس بات کی طرف متوجہ کر رہے ہیں کہ ملک میں دالوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ حکومت کو ہر سال 3/4 لاکھ ٹن سے زائد دالیں درآمد کرنی پڑتی تھیں۔ پاکستان، آسٹریلیا، ترکی، بھارت، چین سے دالیں درآمد کرتا ہے۔ حکومت کو 50 ارب روپے سے زائد اس مد میں خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ موجودہ مالی سال جولائی 2012ء تا فروری 2013ء تک 3 لاکھ 52 ہزار 357 میٹرک ٹن دالیں درآمد کی گئیں جن پر اب تک 22 ارب 98 کروڑ90 لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ غریب کی دال روز پکتی ہے اور اس میں شوربہ لمبا ہوتا ہے جب کہ امیروں کے ہاں دال کبھی کبھی پکتی ہے اور اس میں مہنگے مصالحہ جات کا خرچہ لمبا ہوتا ہے۔ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ موجودہ مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں 60 ہزار 154 میٹرک ٹن مصالحہ جات کی درآمد پر 4 ارب 40 کروڑ روپے کا خرچہ آیا ہے۔

دال کی پیداوار میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ پیداواری لاگت میں کمی لائی جائے تا کہ کاشتکاروں کو کچھ بچت ہو سکے۔ گزشتہ کئی سالوں سے نہ صرف دالیں بلکہ ہر زرعی فصل کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ غریب کاشتکاروں میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ کھاد خرید سکیں۔ مہنگے بیج اور کیڑے مار ادویات کا استعمال کر سکیں۔ جب زرعی فصل تیار ہو جاتی ہے تو حکومتی سرپرستی نہ حاصل ہونے کے باعث چھوٹے کاشت کار مڈل مین کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ اور مڈل مین ایسے مواقعے سے فائدہ اٹھانا خوب جانتے ہیں وہ اپنی مرضی کی قیمت لگاتے ہیں۔ جو کاشتکار کے لیے گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔

اس طرح غریب کاشتکار بعض اوقات نقصان سے بچنے کے لیے فصل کی کاشت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مختلف علاقوں میں بارشوں کے باعث بعض جگہ گندم کی فصل کو نقصان بھی پہنچا ہے۔ 20 اپریل سے پنجاب میں گندم کی سرکاری خریداری شروع کی جا رہی ہے۔ غریب کاشتکاروں کا مطالبہ ہے کہ جتنی بھی گندم وہ فروخت کرنا چاہتے ہیں حکومت سرکاری نرخ پر گندم خریدے لیکن حکومت نے ایک ہدف مقرر کر رکھا ہے اس صورت حال میں کاشتکار ہر سال کی طرح اس سال بھی گندم مڈل مین کو فروخت کرنے پر مجبور ہوں گے اور پھر وہی اونے پونے دام۔ اور مجبور کاشتکاروں کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں گندم کی پیداوار 69 کروڑ میٹرک ٹن رہے گی۔ گزشتہ سال کی نسبت عالمی گندم کی پیداوار میں 4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی 4 فیصد اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گندم کی پیداوار کا تخمینہ 2 کروڑ 47 لاکھ ٹن ہے۔ اگرچہ امریکی محکمہ زراعت کا خیال تھا کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار 2 کروڑ 33 لاکھ ٹن رہے گی۔ لیکن اسپارکو کا دعویٰ ہے کہ 2 کروڑ 62 لاکھ ٹن پیداوار کی توقع ہے۔ جس میں سے صرف پنجاب میں متوقع پیداوار ایک کروڑ95 لاکھ 13 ہزار ٹن بتائی جا رہی ہے۔

یہاں یہ دو باتیں ان کسانوں کے لیے باعث تشویش ہیں کہ گندم کے جن کھیتوں کو بارش اور ژالہ باری کے سبب نقصان پہنچا ہے ان کا یہ نقصان پلس پیداواری لاگت میں اضافہ اب کچھ گندم کی فروخت سے وہ 1200 روپے فی من حاصل کر لیں گے۔ لیکن باقی گندم کی فروخت کے لیے وہ مڈل مین کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ صوبہ سندھ میں گندم کی پیداوار کا تخمینہ 40 لاکھ ٹن لگایا گیا ہے۔ جس کا 30 فیصد حکومت خریدے گی۔ اس طرح خیبر پختونخوا صوبہ سے 5 لاکھ ٹن اور بلوچستان سے ایک لاکھ ٹن گندم خریدی جائے گی۔

پنجاب کے 376 مراکز سے 40 لاکھ ٹن گندم خریدی جائے گی جو کہ کل پیداوار کا 20 فیصد بن رہا ہے۔ اس تناسب کو بڑھانا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت پنجاب کے پاس گندم ذخیرہ کرنے کے لیے جگہ نہ ہو۔ اس سلسلے میں برآمدات میں اضافے کے عمل کو تیز کیا جانا چاہیے۔ گزشتہ مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران 3 لاکھ تیرہ ہزار میٹرک ٹن گندم برآمد کر کے 8 کروڑ 63 لاکھ ڈالر زکا زرمبادلہ کمایا گیا تھا۔ جب کہ موجودہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران صرف ایک لاکھ انتالیس ہزار میٹرک ٹن گندم برآمد کی جا سکی ہے۔ ایران کو گندم کی برآمد میں اضافے کی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔

غریب کی دال روٹی کے مسئلے کے حل کے لیے سندھ کی نگراں حکومت کی سعی قابل تحسین ہے کہ گزشتہ دنوں آٹے کی قیمت میں دو روپے فی کلو کمی کر دی گئی۔ چند ہفتے قبل آٹا 42 روپے فی کلو یا کہیں 44 روپے فی کلو بھی دستیاب تھا۔ جب کہ چند ماہ قبل آٹا 34 روپے فی کلو بھی دستیاب تھا کہ اچانک آٹے کی قیمت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چند وسط ایشیائی ملکوں کی جانب سے وہاں گندم کی پیداوار میں کمی کے باعث وہ گندم برآمد نہیں کر رہے تھے۔

عالمی گندم کی منڈی کے سرمایہ کاروں نے گندم کی قلت کی افواہ پھیلا کر گندم کی عالمی قیمت میں اضافہ کروا دیا ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے، جس سے ایک طرف آٹے کی قیمت میں بلاوجہ اضافہ ہوا ادھر دالیں خریدنے کے لیے بھی عوام کی قوت خرید جواب دیتی رہی، یوں دال روٹی کا مسئلہ گھمبیر ہوتا چلا گیا۔ حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ عوام کے لیے سستی خوراک کی فراہمی کو یقینی بنائے، چاہے حکومت نگراں ہو یا منتخب۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔