ملالہ؛ روشن مثال یا قابل مذمت کردار؟

انوار احمد  پير 9 اپريل 2018
ملالہ کی ابتدائی طبی امداد سے لے کر سرجری تک فوج ہی کے ڈاکٹروں نے کی تھی۔ فوٹو:انٹرنیٹ

ملالہ کی ابتدائی طبی امداد سے لے کر سرجری تک فوج ہی کے ڈاکٹروں نے کی تھی۔ فوٹو:انٹرنیٹ

سوات کی بیٹی ملالہ یوسفزئی جو گل مکئی کے قلمی نام سے بھی پہچانی گئی، آج مہذب دنیا میں ایک علم کی سفیر اور جہالت و تاریکی کے خلاف ہونے والی کوششوں کی علمبردار بن چکی ہے۔ دنیا نے اس کم سن لیکن باہمت بچی کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور اسے اعلی ترین عالمی ایوارڈ ’’نوبل انعام‘‘ اور دیگر بہت سے اعزازات سے نوازا۔ امریکا اور یورپ کے وہ رہنما اور شخصیات جو ہمارے سیاسی رہنماؤں اور حکومتی اداروں کے افراد کو دو منٹ کا وقت بھی نہیں دیتے، وہ ملالہ سے ملنا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ سوات کے چھوٹے سے گاؤں شانگلہ کی ملالہ آج ایک قدر آور شخصیت ہے جو علم کے فروغ اور جہالت کے خلاف جہاد کی سرخیل ہے۔

لیکن وہیں ہماری ’’قوم‘‘ کے رویّےاس ضمن میں بھی ہمیشہ کی طرح سب سے الگ اور سب سے جدا ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم اس اعزاز کو اپناتے اور قوم کی اس بیٹی کو سراہتے، ہم نے اسے بھی متنازعہ بنادیا اور قوم مختلف بیانیوں میں الجھ کر رہ گئی۔ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا تک، سب کے سب مکمل کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں۔ من گھڑت خبروں، فوٹو شاپ کی گئی تصویروں اور سینہ گزٹ کا ایک بازار گرم ہے۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق ان بے بنیاد اور بلا تحقیق ’’مستند خبروں‘‘ کو آگے بڑھا دیتا ہے۔

شاید ہم شدید ترین احساسِ عدم تحفظ (Insecurity) کی شکار قوم ہیں جو ہر وقت اور ہر ایشو پر کسی نادیدہ ’’سازشی نظریئے‘‘ کی بُو سونگھتی نظر آتی۔ لہذا ایک بار پھر ایسی ہی افواہیں زبان زد عام ہیں اور ملالہ کے حالیہ دورے کو ایم نئی سازش کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ ایک بار پھر وہی یہود و نصاری کی ریشہ دوانیوں کی کہانیاں سنائی جارہی ہیں جن سے ملکی سالمیت اور ان کے ایمان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

ہم عجیب لوگ ہیں کہ جن جنگجوؤں اور سفاک قاتلوں نے ہمارے لاکھوں لوگ ماردئیے اور ملک کو جہنم بنادیا، انہیں تو سہولتیں اور آسانیاں دینے اور ان کے ملک میں دفتر کھولنے پر بخوشی تیار ہیں۔ کبھی ہم اچھے طالبان اور برے طالبان کا نظریہ پیش کرتے ہیں اور ان میں فرق بتا کر انہیں معصوم ثابت کرکے ان درندوں کو کسی طرح سہولت دینا چاہتے ہیں؛ اور کبھی ہمارا ایک بااثر طبقہ طالبان کے ترجمان اور ہزاروں قتل اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث احسان اللہ احسان کےلیے بھی ایک نرم گوشہ رکھتا ہے، جو ایک قابل نفرت کردار ہے جس کی وارداتوں کی وجہ سے ملک اور اس کے باسییوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ لیکن، بوجوہ، ہم انہیں تو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح ’’معصوم اور بھٹکے ہوئے‘‘ قرار دے کر معاشرے کےلیے قابل قبول بنانے اور ان کے کریہہ جرائم تک کو معاف کردینے کے حق میں ہیں۔

مقام افسوس ہے کہ ایک معصوم بچی پر کیسے کیسے الزامات لگائے جارہے ہیں اس پر کیسی کیسی تہمتیں اور کس بری طرح اس کی شخصیت کو مسخ کیا جارہا ہے۔ ملالہ کی علم کےلیے کی گئی کوششوں کو دشمن کی ’’سازش‘‘ سے تعبیر کررہے ہیں۔ اس معصوم کو، جو آج بھی پاکستان کےلیے رورہی ہے، جس کے سر سے دوپٹہ کبھی نہیں ڈھلکا، اس کی باتوں میں معصومیت اور پاکستانیت ہے، جو پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں علم کی شمع روشن کرنا چاہتی ہے؛ لیکن ہم اسے دشمن کا ایجنٹ ثابت کرنے پر اپنی ساری توانائیاں صرف کرنے میں لگے ہیں۔

میں پوچھتا ہوں کہ جس قوم کے آدھے سے زیادہ ارکانِ اسمبلی اور بیوروکریٹس کی ایک بڑی تعداد دوہری شہریت رکھتی ہو، اسے کسی ایجنٹ کی کیا ضرورت؟ اور وہ بھی ایک کم عمر کی کمزور بچی کی، جس نے اس دور میں کہ جب ہمیں دنیا دہشت گرد اور Rogue state کے طور پر جانتی ہو۔ ملالہ نے پاکستان کو ایک روشن چہرہ دیا۔ لیکن ہم ایک احسان فراموش اور متعصب گروہ ہیں۔

آج اس ٹیکنالوجی کے دور میں کچھ چھپایا نہیں جاسکتا۔ کیا دنیا پاگل ہوگئی ہے جو اس کی اتنی پذیرائی کی جارہی ہے؟ کیوں یہ اعزاز عمران، زرداری یا نواز شریف صاحب یا کسی اور کو نہیں دیا گیا؟ شاید ہم ناشکرے اور ناقدرے لوگ ہیں جس کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔

صاحبو! ہم تقلید و توصیف کرتے ہیں خادم رضوی کی، اسامہ بن لادن، ملا عمر، مولانا طارق جمیل، حافظ سعید اور ممتاز قادری کی۔ ہمارے ہیروز ہیں غزنوی، ابدالی، غوری؛ اور وہ تمام بیرونی حملہ آور جنگجو جن کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے تھے۔ ہم کیوں ملالہ، ڈاکٹر عبدالسلام، ایدھی، فیض، منٹو، جالب، حسن ناصر اور ایسے دوسرے روشن خیال افراد کی توصیف کریں جو علم و آگہی کی بات کرتے ہیں؛ جو معاشرتی انصاف اور جبر کے خلاف آواز اٹھاتے ہوں۔ بلکہ یہ لوگ تو ہمارے نزدیک دشمن کے ایجنٹ، مذہب بیزار اور قابل گردن زنی ٹھہرے۔

اکثر اہل وطن کا خیال ہے کہ ملالہ ملک کے خلاف ہونے والی کسی گہری سازش کا حصہ ہے اور وہ کسی خفیہ ایجنڈے پر کام کررہی ہے اور اس کا یہ دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

میرا سوال ان حضرات سے یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو ہماری مایہ ناز خفیہ ایجنسیاں اور ادارے اس پر کیوں لب کشائی نہیں کرتیں اور قوم کو حقیقت حال سے آگاہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیوں حکومت نے ملالہ کو اسٹیٹ گیسٹ کا درجہ دیا اور کیوں اسے گرفتار کرکے کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا؟ کیا وہ بھی اسی ’’سازش‘‘ کا حصہ تو نہیں؟

کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ ملالہ کی ابتدائی طبی امداد سے لے کر سرجری تک فوج ہی کے ڈاکٹروں نے کی تھی اور اسے فوجی ہیلی کاپٹر میں ہسپتال لایا گیا اور فوج کے ہی ڈاکٹرز کی سفارش پر ملالہ کو ملک سے باہر علاج کےلیے بھیجا گیا تھا۔

کیا ملالہ کی ’’سرگرمیاں اور ملاقاتیں‘‘ ان حساس اداروں کی نظروں میں نہیں ہوں گی؟

آج کے دور میں فوٹو شاپ اور مختلف طریقوں سے کہانی کچھ کی کچھ بنائی جاسکتی ہے اور یہی کچھ اس معصوم بچی کے ساتھ ہورہا ہے۔ ہر شخص اپنی اپنی منطق بگھار رہا ہے اور من پسند مفروضات (Speculations) کو بغیر کسی ثبوت و تحقیق کے آگے بڑھا دیتا ہے۔ کوئی ’’محب وطن‘‘ کیوں نہیں ملالہ کے خلاف عدالت میں جاتا؟ کیوں چیف صاحب سو موٹو ایکشن نہیں لیتے؟ کیوں آرمی چیف حقیقت حال سے قوم کو آگاہ نہیں کرتے تاکہ یہ کنفیوژن ختم ہو؟

اب تو سعودیوں کا کردار اور نام نہاد اسلامی تشخص بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں کہ انہوں نے کس کے کہنے پر مسجدیں اور مدرسے قائم کیے۔ ہم کو تاریکی اور انتہا پسندی کی راہ پر ڈال کر اب وہ روشن خیالی اور جدیدیت کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔

اب ہمارے دائیں بازو کے رجعت پسند بھائی کونسا چورن بیچیں گے؟ خادمین حرمین شریفین تو آج کل امریکا میں یہودیوں کے اعلی وفد سے مل کر مذہبی ہم آہنگی اور یگانگت کی باتیں کررہے ہیں۔ شاید جلد ہی سفارتی تعلقات بھی بحال ہوجائیں۔ ویسے بیک ڈور ڈپلومیسی تو ایک عرصے سے جاری ہے۔

لیکن ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نام نہاد ’’مسلم امہ‘‘ کے سراب سے باہر آنے کو تیار نہیں۔

جیو ملالہ، سر اٹھا کے! زمانے نے تو نبیوں تک کو نہیں بخشا اور ہر اس شخص کی مخالفت کی جس نے حق کےلیے آواز اٹھائی، چاہے وہ یسوع مسیح ہوں، سرمد ہو یا پھر منصور حلاج… سب ہی بے توقیر ہوئے۔

دلیل ہے نہ کوئی جواز ان کے پاس
عجیب لوگ ہیں بس اعتراض رکھتے ہیں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔