کتنے پیار سے’’خطرہ‘‘ پالا

سید بابر علی  اتوار 8 اپريل 2018
کسی کو شیر سے پیار، کوئی اژدہے پر فِدا، کسی نے پالا سانپ کسی نے مگرمچھ۔ فوٹو: فائل

کسی کو شیر سے پیار، کوئی اژدہے پر فِدا، کسی نے پالا سانپ کسی نے مگرمچھ۔ فوٹو: فائل

ہم اکثر ریئلٹی شوز یا دستاویزی فلموں میں اس قسم کے مناظر دیکھتے ہیں کہ جنگل کا بادشاہ شیر ایک پالتو بلی کی طرح اپنے مالک کے قدموں میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہا ہے یا فٹ بال کھیل رہا ہے۔ ایک بڑے نے اژدہے نے پیار کا اظہار کرنے کے لیے کسی نوجوان کی بانہوں میں کنڈلی ماری ہوئی ہے، کسی نوجوان نے درندگی کے لیے مشہور مگرمچھ کے بچے کو ہاتھوں میں تھام رکھا ہے یا کوئی نوجوان سانپ کا بوسہ لے رہا ہے۔ لیکن اب پاکستان میں یہ شوق ٹی وی اسکرین ایسے مناظر دیکھنے کی حد تک ہی محدود نہیں رہا۔

جنگلی حیات سے پیار کرنے والے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے گھر والوں کی مخالفت اور وسائل نہ ہونے کے باوجود شیر، اژدہے، مگرمچھ اور سانپ جیسے خطرناک جانوروں اور پالنے کے حوالے سے غیرروایتی جانوروں کو بڑی تعداد میں گھروں میں پالا ہوا ہے۔

یہ خطرناک اور منہگا شوق پالنے والے نوجوان نہ صرف اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ وہ جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے ہر ممکنہ سطح پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آئیے ان افراد سے ملیے جنھوں نے گھروں میں جنگل بسایا ہوا ہے۔

پاکستانی کیون رچرڈ سن
جنگلی حیات خصوصاً شیر جیسے جانوروں سے محبت کرنے والے افراد کے لیے کیون رچرڈ سن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ کھلے میدان میں جنگل کے ایک نہیں تین، تین، چار چار بادشاہوں کے مٹر گشت کرنا، اُن کے ساتھ سونا، کھیلنا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا رچرڈ سن کی وجہ شہرت ہے، لیکن شہرقائد میں بھی ایک نوجوان ایسا بھی ہے جسے پاکستانی کیون رچرڈ سن کہنا بے جا نہ ہوگا۔ جنگلی جانوروں سے محبت حَسن حُسین اور ان کے بھائی حمزہ حسین کی گھٹی میں بچپن سے پڑی ہوئی ہے۔ جنگلی جانوروں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے گھر میں افریقی نسل کے شیر پال رکھے ہیں، جب کہ اندرون سندھ واقع ان کے فارم ہائوس میں سفید شیر اور افریقی شیر بھی موجود ہیں۔ اپنے اس انوکھے مگر خطرناک شوق کے بارے میں حسن کا کہنا ہے: جنگلی جانوروں سے محبت کا عنصر تو بچپن ہی سے موجود تھا۔

اس شوق کو پورا کرنے کے لیے ہم نے میٹرک میں تحفے میں ملنے والے سونی پلے اسٹیشن کو فروخت کرکے مگرمچھ کا بچہ خریدا تھا جو ہمارا پہلا ریپٹائل (رینگنے والا جانور) تھا۔ اس حرکت پر گھر والوں نے بہت ڈانٹ ڈپٹ بھی کی تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میرا یہ شوق بڑھتا گیا۔ اس کے بعد میں نے ایک کلاسیفائیڈ ویب سائٹ کے ذریعے ’رشین سینڈ‘ نسل کا سانپ خریدا جو زہریلا نہیں ہوتا۔ اس تمام عرصے میں مجھے گھر والوں کی شدید مخالفت کا سامنا بھی رہا، لیکن بعد میں گھر والوں نے بھی میرے پالتو اژدہوں کے لیے گھر کی چھت پر ایک کمرہ مخصوص کردیا۔ حسن کا کہنا ہے کہ اس شوق کی وجہ سے مجھے بہت سے لوگوں نے دھوکا بھی دیا۔ ایک لڑکے نے مجھے غیرزہریلا بتاکر انتہائی زہریلا ’وائپر‘ سانپ منہگے داموں فروخت کردیا تھا۔ اسی طرح جب میں نے پہلی بار اژدہے درآمد کیے تو ایک صاحب کی غفلت کی وجہ سے میرے لاکھوں روپے کے اژدہے کسٹم والوں نے پکڑ کر چڑیا گھر کے حوالے کردیے جن میں سے زیادہ تر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مرچکے ہیں۔

میں نے چند سال قبل خود امریکا جاکر باب کلیر (Bob Clare) (جنگلی حیات کے مشہور امریکی ماہر، اژدہوں کے حوالے سے گینیز ورلڈ ریکارڈ ہولڈر) سے ملاقات کی اور ان سے اژدہے خرید کر پاکستان درآمد کیے۔ حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریپٹائل کو گھریلو جانوروں کے طور پر پالنے کا رجحان بہت کم ہے، اور اگر کوئی شوق کی بنا پر انہیں پالنا چاہے تو کچھ نوسرباز اُس کی لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی سستے اور زہریلے سانپ ہزاروں، لاکھوں روپے میں فروخت کردیتے ہیں، شروع میں میرے ساتھ بھی اس طرح کی کچھ دھوکے بازیاں ہوچکی ہیں۔

حسن کے بھائی حمزہ حسین نے بتایا کہ ہم نے چند سال قبل امریکی ریاست اوکلوہاما سے 16مختلف نسلوں کے اژدہے درآمد کروائے تھے، جن میں جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا اژدہا بھی شامل تھا، جس کا تعلق ہیٹ البینو ریٹی کیولیٹڈ (Het albino reticulated) نسل سے ہے، جس کی لمبائی 20 فٹ تھی۔ اس طرح پاکستان کا پہلا، دوسرا، چوتھا اور پانچواں بڑا اژدہا بھی ان دونوں بھائیوں کے پاس تھا۔ حسین کے پاس ہیٹ البینو ریٹی کیولیٹڈ، ٹائپ ٹو البینو سپر ٹائیگر ریٹی کیولیٹڈ، پرپل موٹلے ریٹی کیولیٹڈ، البینو برمیز، بال، فائر البینو ریٹک اور انڈین روک نسل کے اژدہے موجود ہیں، جو اب انہوں نے اندرون سندھ میں واقع اپنے فارم ہائوس میں رکھے ہوئے ہیں، جب کہ سمبا (گھر میں موجود شیر) کے علاوہ ایک شیر، شیرنی اور سفید شیر کے بچے بھی انہوں نے اپنے فارم میں رکھے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ شیر مجھے بچپن ہی سے بہت پسند تھا اور اسی شوق کے ہاتھوں میں نے شیر پالنا شروع کیا۔ اپنی خوںخواری کی بدولت جنگل کا بادشاہ کہلانے والے شیر کو گھر میں پالتو جانور بنا کر رکھنے والے حسن کا کہنا ہے کہ یہ کافی منہگا شوق ہے، کیوں کہ شیر کے بچے کی قیمت ہی لاکھوں روپے ہے اور اس کو گھر میں رکھنے کے لیے پرمٹ بھی ضروری ہے، جو محکمۂ جنگلی حیات کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے، جس کی سالانہ فیس دس ہزار روپے ہے۔

شیر جیسے خطرناک جانور کو پالتو بناکر گھر میں رکھنے پر گھر والوں کے اعتراضات کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں گھر والوں کی طرف سے تو کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیوں کہ گھر میں تقریباً سب لوگ ہی جنگلی جانوروں سے مانوس ہیں۔ شروع شروع میں محلے والوں کو کچھ اعتراضات تھے جواب نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شیر کو پالتو جانور کی حیثیت سے پالنے والے کچھ لوگ اُس کے دانت گھسوا دیتے ہیں، جو جنگل کے بادشاہ کے ساتھ زیادتی ہے، کیوں کہ شیر کی خوب صورتی اُس کے نوکیلے اور تیز دانتوں ہی میں ہے۔ دانت گھسوانے سے نہ صرف ان کا حُسن بلکہ قیمت بھی کم ہوجاتی ہے۔ زیادہ تر لوگ صرف شیر کے ناخن نکلوا دیتے ہیں، کیوں کہ اس کے پنجے کی گرفت بہت مضبوط ہوتی ہے اور وہ حملہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنا پنجہ ہی استعمال کرتا ہے۔

انہوں نے شیر کی دیکھ بھال کے لیے ایک مستقل ملازم بھی رکھا ہوا ہے، جس کا نام نذیر ہے۔ نذیر شروع سے ہی شیروں کی دیکھ بھال کا کام کرتا رہا ہے۔ سمبا نذیر سے بھی حسن کی طرح مانوس ہے، اٹھارہ سالہ نذیر چوبیس گھنٹے سمبا کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ شیر کی درندہ صفت فطرت کے بارے میں حمزہ حسین کا کہنا ہے کہ ’یہ بات حقیقت ہے شیر کی فطرت میں حملہ کرنا ہے، لیکن میں سمبا کو ایک درندہ نہیں اپنا چھوٹا بھائی ہی سمجھتا ہوں اور ایک بات اور بتائوں کہ یہ صرف مجھ سے ہی نہیں میرے گھر والوں سے بھی اس حد تک مانوس ہے کہ ہمیں لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ شیر ہے۔ یہ گھر میں سب سے زیادہ میری والدہ اور حسن سے مانوس ہے۔ جیسا کہ آپ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ یہ حسن کے ساتھ کس طرح کھیل رہا ہے، کبھی اس کے سر کو اپنے منہ میں رکھ رہا، کبھی اس کے اوپر لیٹ رہا ہے، اور حسن کو بھی اس سے بے انتہا محبت ہے، یہ دن میں کئی کئی گھنٹے اس کے ساتھ رہتا ہے، یہ سارا دن کُھلا گھومتا ہے صرف رات میں ہم اسے زنجیر سے باندھ دیتے ہیں۔ شیر کو گھر سے باہر نکالنے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کے پاس یا گھر سے باہر لے جانے کے لیے پہلے ہمیں محکمۂ جنگلی حیات سے ایک این او سی حاصل کرنا پڑتا ہے، جو ہمیں فی دن کے حساب سے این او سی جاری کرتے ہیں۔

جنید رفیق
اژدہے، مگرمچھ اور سانپ جیسے ریپٹائل کو پالتو جانور کے طور پر پالنے والے جنید کی عمر تو گو کہ اتنی زیادہ نہیں لیکن ان کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ جسم کے مختلف حصوں پر سانپ اور مگرمچھ کے کاٹنے کے نشانات لیے جنید عرف جمی کو دیکھ کر پہلی نظر میں تو یہ بات مبالغہ لگتی ہے کہ اتنا دھان پان سا نوجوان آٹھ، نو فٹ لمبے اژدہوں کی دیکھ بھال کرتا ہوگا۔ غیرملکی ٹی وی چینلز پر جانوروں پر بننے والی دستاویزی فلموں کو دیکھ کر جنید کو 16سال کی عمر میں ہی ریپٹائل سے ایک طرح کا عشق ہوگیا تھا۔ میٹرک میں انہوں نے پہلا سانپ خریدا، جس پر گھر والوں سے مار بھی کھانی پڑی۔

اس حوالے سے جنید کا کہنا ہے کہ میں اپنے والدین کا اکلوتا لڑکا ہوں اور اسی وجہ سے گھر والے میرے اس شوق کے سخت مخالف ہیں، لیکن اُن کی تمام تر مخالفت کے باوجود میں خود کو ِان (اژدہے، سانپ، مگر مچھ) سے دور نہیں کر پاتا۔ اپنے اس شوق کو برقرار رکھنے کے لیے مجھے سخت محنت کرنا پڑتی ہے، میں تعلیم کے معاملے میں والدین کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں دیتا۔ اس نے اپنا ہاتھ دکھایا جس پر تقریباً پانچ چھے انچ کے دو لمبے نشانات بنے ہوئے تھے۔ یہ نشانات ایک پالتو مگرمچھ سے محبت کی یادگار ہیں، جس نے اپنی فطری حیوانی جبلت سے مجبور ہوکر اپنے ہی رکھوالے کے ہاتھ کا گوشت ادھیڑ دیا تھا۔

جنید کے ہاتھوں پر کچھ اور زخموں کے نشانات بھی موجود ہیں، جو ان کے پالتو ’ریٹ اسنیک‘ کے کاٹنے سے لگے ہیں۔ جنید کا کہنا ہے کہ ریٹ اسنیک ایک خوب صورت اور غیرزہریلا سانپ ہے، لیکن یہ کاٹنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتا۔ اس کے کاٹنے سے بلیڈ کی طرح کٹ لگنے جیسی تکلیف ہوتی ہے۔ جنید کے پاس اس وقت مگرمچھ کا بچہ، ریٹ اسنیک اور اژدہے موجود ہیں۔ جنید نے بتایا کہ پاکستان میں جنگلی حیات خصوصاً ریپٹائلز پر بالکل بھی کام نہیں ہورہا۔ ان کا مستقبل میں سانپ اور اژدہوں پر تحقیقی کام کرنے کا ارادہ ہے۔ ان کی غذا کے حوالے سے جنید نے بتایا کہ ایک بڑے اژدہے کے لیے ہفتے میں ایک بڑا خرگوش یا مرغی کافی ہوتی ہے۔ یہ اپنی غذا (مرغی، خرگوش، چوہے) کو جکڑ کر سانس روک دیتا ہے اور پھر اسے چبائے بغیر ثابت نگل جاتا ہے۔

سفید چوہے اژدہے کی مرغوب غذا ہیں، میں انہیں یہ بھی کھلاتا رہتا ہوں۔ جنید کا کہنا ہے کہ میں نے اس کام کو شوق کی حد تک ہی رکھا اور مستقبل میں بھی شوق کو کاروبار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص گھر میں پالنے کی غرض سے اژدہا خریدنے کا خواہش مند ہو تو میں قیمت سے زیادہ اس بات پر توجہ دیتا ہوں کہ آیا وہ اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کر بھی سکے گا یا نہیں، سو فی صد مطمئن ہونے کے بعد ہی اژدہا یا اس کا بچہ کسی کے حوالے کرتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ میں اژدہوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کا شعور اُجاگر کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں بلامعاوضہ ورکشاپ کرتا ہوں۔ کچھ نجی ٹی وی چینلز اپنے مارننگ شوز میں اژدہے لے جانے کے لیے بھی مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔

اژدہوں کی افزائش نسل کے حوالے سے جنید کا کہنا ہے کہ ملاپ کے تین چار ماہ بعد مادہ انڈے دیتی ہے، جن کی تعداد سو تک بھی ہوسکتی ہے۔ انڈوں سے بچے نکلنے میں دو ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔ جب مادہ کھانا کم کر دے اور اس کی کھال اترنے لگے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ وہ حاملہ ہے اور پھر الٹراساؤنڈ کے بعد اس کی تصدیق کر لیتے ہیں۔

اس وقت مادہ کافی چڑچڑی ہوجاتی ہے، لہٰذا ہم اسے ہاتھ میں پکڑنے میں کافی احتیاط کرتے ہیں۔ جنگلی جانور پالنے والے دیگر افراد کی طرح جنید کا بھی یہی کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر جنگلی جانوروں اور ریپٹائل کے حقوق اور ان کے بارے میں شعور اُجاگر کرنے کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ اس شوق میں وہ حسن حسین (جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے) کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں اور اژدہوں سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات کے لیے وہ حسن ہی سے رابطہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو اژدہوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے جنید رفیق نے دو سال قبل کراچی چڑیا گھر کو ساڑھے آٹھ فٹ کے دو اژدہے بھی تحفتاً دیے، جس کے اعتراف میں کراچی چڑیا گھر کے ریپٹائل ہاؤس میں ان کے نام کا تہنیتی بورڈ بھی لگایا گیا ہے۔

٭راحیل بگل لو
شیر اور اژدہے جیسے جنگلی جانوروں کو پالنے میں میمن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے راحیل بگل لو بھی پیش پیش ہیں، انہوں نے اپنے گھر میں اژدہے اور شیر کا بچہ پال رکھا ہے۔ ساڑھے آٹھ ماہ کے سلطان (شیر کے بچے کا نام) کی دیکھ بھال راحیل ایک بالکل چھوٹے بچے کی طرح کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ شیر ہو یا بکری کسی بھی جانور کو خود سے مانوس کرنے کے لیے وقت دینا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں کاروباری مصروفیات کے با وجود دن میں دو تین گھنٹے ان کے ساتھ گزارتا ہوں۔ سلطان کو میں دو ماہ کی عمر سے پال رہا ہوں۔ اور یہ میرے لیے گھر کے ایک فرد کی طرح ہی ہے۔ راحیل سلطان کے باقاعدہ چیک اپ اور ویکسی نیشن کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ اور اس کام کے لیے انہوں بھی ایک کُل وقتی ملازم رکھا ہوا ہے، جب کہ گھر میں موجود بچے بڑے، محلے کے بچے سب کے لیے ہی سلطان حقیقت میں سلطان ہے اور راحیل کی طرف سے محلے والے بچوں کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہے، وہ جب چاہیں ان کے گھر پر آکر سلطان سے کھیل لیتے ہیں، لیکن وہ یہ سب اپنی نگرانی میں ہی کرواتے ہیں۔
شیر کے کھانے پینے کے اخراجات کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ایک بالغ شیر روزانہ تقریباً سات سے آٹھ کلو بچھیا کا گوشت کھاتا ہے، جب کہ شیر کا بچہ دن میں تقریباً تین کلو بچھیا کا گوشت کھاتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ ان کی خوراک بھی بڑھتی جاتی ہے۔ ویکسی نیشن کے حوالے سے راحیل کا کہنا ہے کہ شیر کے بچوں کی پہلی ویکسی نیشن ڈھائی ماہ، دوسری چھے ماہ اور تیسری ڈیڑھ سال کی عمر میں ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ ویکسی نیشن کا دورانیہ بھی بڑھتا رہتا ہے۔

٭مگرمچھ کا شیدائی عبدالرحمٰن
عبدالرحمٰن بھی ریپٹائل سے محبت کرتے ہیں، اور اس شوق کی نشانی ان کے گھٹنے پر موجود مگرمچھ کے کاٹنے کا نشان ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ میں نے غلطی سے مگرمچھ کی دم پکڑ لی تھی، جس پر اس نے پلٹ کر مجھے کاٹ لیا۔ عبدالرحمٰن کے گھر والے بھی کچھ عرصے قبل تک اُن کے اس شوق کے مخالف تھے، لیکن ایک بار اُن کی والدہ کو کسی سانپ نے کاٹ لیا اور انہوں نے دستاویزی فلموں میں بتائی گئی ہدایت کے مطابق اپنی والدہ کو فوری طبی امداد دی۔ اس واقعے کے بعد عبدالرحمٰن کو ریپٹائل گھر میں رکھنے کی اجازت مل گئی ہے۔ لیکن اس ’’اجازت‘‘ کی حدود گھر کی چھت پر بنے کمرے تک ہے۔ یہ اس وقت جنگلی جانوروں (چلنے اور رینگنے والے) کے تحفظ کے لیے ایک این جی او بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ ان ریپٹائلز کی خوراک کے بارے میں عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ میں مگرمچھ کو مرغی، خرگوش اور گائے کا گوشت کھلاتا ہوں۔

٭جنگلی جانوروں کو گھروں میں رکھنے کے لیے لائسنس کے حصول کا طریقۂ کار
گھروں میں خطرناک جانوروں کو پالنے کے حوالے سے محکمۂ جنگلی حیات سندھ کے اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ جنگلی جانوروں (شیر، اژدہے، مگرمچھ، سانپ) کو گھر میں رکھنے کے لیے وائلڈلائف کا لائسنس/پرمٹ لینا لازمی ہے۔ اگر ان کے بغیر کسی نے غیرقانونی طور پر سانپ، اژدہے، مگرمچھ، شیر یا اس طرح کے خطرناک جانور پال رکھے ہوں تو ہمارا محکمہ اطلاع ملنے پر فوراً کارروائی کرکے انہیں ضبط کرلیتا ہے۔ ضبط کیے جانے والا جانور اگر جنگلی ہے تو اسے جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر چڑیا گھر کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اگر کوئی جانور یا ریپٹائل (اژدہے، سانپ وغیرہ) باہر سے درآمد کروا رہا ہے تو اس کے لیے قانون الگ ہے اور اس طرح کے مقامی جانوروں کے لیے قانون الگ ہے۔ باہر سے آنے والے تمام جانور وہاں کی حکومت کے تمام قانونی تقاضے پورے کرکے آتے ہیں، تاہم انہیں پاکستان میں درآمد کرنے سے قبل ایک این او سی لینا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ لاعلمی میں یا جان بوجھ کر این او سی حاصل کیے بنا یہ جانور منگوالیتے ہیں، جو ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پکڑے جاتے ہیں۔

ہمارا محکمہ جانوروں کی سفری دستاویزات اور طبی رپورٹس کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد مالک پر معمولی جرمانہ عاید کرکے جانور اس کے حوالے کردیتا ہے۔ جنگلی جانوروں اور ریپٹائلز کے پرمٹ اور لائسنس کے حصول میں ہونے والی درپیش مشکلات کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے،’میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے محکمے میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے، کچھ لوگ یقیناً اپنے مفادات کو بھی مدِنظر رکھتے ہیں۔ تاہم ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اگر کوئی اپنے شوق یا کاروبار کے لیے لائسنس لینا چا رہا ہے تو وہ اُسے جلدازجلد فراہم کردیا جائے۔‘

لائسنس حاصل کرنے کے طریقۂ کار کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ کوئی بھی لائسنس جاری کرنے سے پہلے ہم اُس جگہ کا معائنہ کرتے ہیں جہاں اس جانور یا ریپٹائل کو رکھا جائے گا۔ معائنے میں اُس جانور کی ممکنہ رہائش کے محل وقوع، ہوا کی آمدورفت اور اس نوعیت کی اہم باتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ جانور کی رہائش اور اُس کے کھانے پینے کے حوالے سے مطمئن ہونے کے بعد محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے لائسنس جاری کردیا جاتا ہے، جس کی فیس دس ہزار روپے سالانہ ہے۔ تاہم خریدوفروخت کرنے کے لیے ٹریڈ لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔

٭مگرمچھوں سے متعلق چند توہمات اور حقائق
مگرمچھوں سے منسوب ایک کہاوت ’مگر مچھ کے آنسو بہانا‘ ہم سب کو اچھی طرح یاد ہے۔ تاہم یہ سمجھنا درست نہیں کہ انسانوں کو کھاتے ہوئے مگرمچھ کے آنسو اپنے شکار انسان کی موت پر دکھ میں بہتے ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ کھاتے ہوئے مگرمچھ کے آنسو بہتے ہیں لیکن اس کا سبب کسی قسم کا تاسف ہرگز نہیں۔ کھاتے وقت مگرمچھ کی آنکھیں پوری طرح کُھل کر پھول جاتی ہیں، ہوا عضلات میں پیدا ہونے والی خالی جگہ سے گزر کر آنسوؤں کے غدود پر دباؤ ڈالتی ہے جس کا نتیجہ مگرمچھ کے مصنوعی آنسو کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

نرم اور پائے دار ہونے کی وجہ سے مگرمچھ کی کھال کی قیمت 15ہزار ڈالر(15لاکھ پاکستانی روپے) تک ہوتی ہے۔ کچھ قبائلی معاشروں میں مگرمچھ کی کھال کو بلند مرتبے کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ نہ صرف اس جانور کی کھال بل کہ ہڈیوں کو بھی تیر، بھالے یہاں تک کہ گولیاں بنانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

مگرمچھ کی آنکھوں پر چمک دار خلیوں کی ایک تہہ چڑھی ہوتی ہے، جس کی بدولت اندھیرے میں اُس کی آنکھیں دور ہی سے چمکتی دکھائی دیتی ہیں۔ مگرمچھ کے شکار کے لیے برازیل کے شکاری انوکھا طریقہ اختیار کرتے ہوئے دور سے مگرمچھ کی آنکھوں میں کوئی نوک دار چیز گھونپ دیتے ہیں اور پھر اسے کشتی پر لاد کر زندہ مگرمچھ کی کھال اُتار لیتے ہیں۔

کئی مرتبہ مگرمچھ دریا کے کنارے منہ کھول کر لیٹے رہتے ہیں۔ یہ اُن کا جارح انداز نہیں بل کہ خود کر گرمی سے بچانے کا ایک طریقہ ہے۔ اس طرح مگرمچھ منہ سے پسینہ خارج کرتے ہیں۔

اکثر لوگ گھڑیال کو بھی مگر مچھ سمجھتے ہیں، دونوں الگ جانور ہیں۔ مگرمچھ کے نچلے جبڑے پر منہ بند ہونے کے بعد بھی چوتھا دانت واضح دکھائی دیتا ہے۔ مگرمچھ منہ میں سالٹ گلینڈ ہونے کی وجہ سے سمندری پانی میں کھڑا رہ سکتا ہے، جب کہ گھڑیال میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔

مگرمچھ کے 99 فی صد بچے پیدائش کے پہلے سال ہی بڑی مچھلیوں، چھپکلیوں اور بڑے مگرمچھوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ مگرمچھ اپنی طاقت ور دم کی بدولت 40کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیراکی اور پانی میں دو سے تین گھنٹے رہ سکتا ہے۔

دنیا کا پہلا مگرمچھ 240 ملین سال قبل ظاہر ہوا تھا۔ اس دور میں ڈائنو سارز بھی کرہ ارض پر موجود تھے۔

٭سانپوں سے متعلق توہمات اور حقائق
سانپ کا ذکر کسی بھی طرح دل چسپی سے خالی نہیں۔ سانپ کے تذکرے پر ہمارے اندر تجسس جاگ اٹھتا ہے، جب کہ بعض لوگ اس کے نام سے ہی خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ سب انہی قصّوں اور کہانیوں کی وجہ سے ہے، جو سانپوں کے بارے میں عام ہیں۔ خصوصاً ہندو مت میں سانپ سے متعلق تصورات اور عقائد کا اثر نمایاں ہے۔ سانپوں سے جُڑی اساطیر کی اثر انگیزی کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ناگ کے قتل کا انتقام لینے کے لیے ناگن کا قاتل کا تعاقب کرنا، انسانی روپ دھار لینے کی صلاحیت، سانپ کی مخصوص قسم کا نایاب اور قیمتی پتھر کی حفاظت کرنا اور طرح طرح کے افسانے، باتیں۔ اس کے ساتھ سانپ کے زہر اور ہر سانپ کے زہریلے ہونے سے متعلق بھی کئی باتیں کہی جاتی ہیں۔

بعض کہتے ہیں کہ ہر سانپ زہریلا نہیں ہوتا اور کچھ سانپ ایسے ہیں جن کے راستے سے ہٹ جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ماہرین جنگلی حیات اور محققین کہتے ہیں کہ زیادہ تر سانپ بے ضرر اور انسانوں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ دنیا بھر میں سانپوں کی تقریباً 2,800 اقسام پائی جاتی ہیں، لیکن اِن میں سے 280 نسل کے سانپ ہی زہریلے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہر سال تقریباً 25 لاکھ افراد زہریلے سانپوں کا نشانہ بنتے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

زہریلے سانپوں میں سے بعض کا زہر نہایت سریع اُلاثر ہوتا ہے اور لمحوں میں اپنے شکار کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے، جب کہ سانپوں کی بعض اقسام اپنے راستے میں آنے والے کو ڈَسنے کے بجائے خود راہِ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس بات کا دارومدار ماحول پر ہوتا ہے۔ سمندری سانپ کبھی نہیں کاٹتے، لیکن اگر کسی کو کاٹ لیں تو وہ اپنی جان سے جاسکتا ہے۔

ڈسنے اور زہر کے اثر کرنے کی رفتار انتہائی سست ہونے کی وجہ سے سمندری سانپوں کو شوقین افراد پالتے بھی ہیں۔ کئی ملکوں میں سانپ کے گوشت کو غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ زہریلے سانپوں میں ’’سنگ چور‘‘ اور ’’کوبرا‘‘ کے بعد براعظم افریقہ میں پائے جانے والے ’’مامبا‘‘ سانپ کا نمبر آتا ہے۔ عام طور پر یہ سانپ خطرے کی بُو سونگھتے ہی فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اپنے بچاؤ کے لیے ڈسنے سے گریز نہیں کرتا۔

سریع الحرکت ہونے کی وجہ سے ’’مامبا‘‘ سانپ درختوں پر بسیرا کرنے والے مینڈک، پرندوں اور دیگر حشرات کو اپنی غذا بناتے ہیں۔ یہ لمحوں میں ادھر سے ادھر ہوجاتا ہے اور اپنے شکار تک پہنچنے میں بہت تیزی دکھاتا ہے۔ زیادہ تر سپیرے کوبرا (شیش ناگ) کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سُننے کی صلاحیت سے محروم کوبرا بین کی آواز سن کر جھومنے لگتا ہے۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ کوبرا کے جھومنے کی وجہ بین کی آواز نہیں بل کہ بین بجانے والے کی حرکات و سکنات ہوتی ہیں۔

٭سانپ کے زہر کی اثرپذیری
مامبا، کوبرا اور سمندری سانپوں کا زہر دوسرے سانپوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے، یہ براہ راست انسان کے اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے اور متاثرہ شخص تھوڑی ہی دیر میں ہلاک ہوجاتا ہے۔

کچھ سانپوں کا زہر جسم کے سرخ خلیات کو تباہ کر دیتا ہے، جس سے جسم کے خلیے گلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے اندازے کے مطابق ہر سال سانپوں کے ڈسے ہوئے تین لاکھ سے زاید افراد کی جان بچانے کے لیے ان کے جسم کے متاثرہ اعضا کاٹنا پڑتے ہیں۔

٭اژدہوں سے متعلق دل چسپ حقائق
اژدہے کا شمار بڑے سانپوں میں ہوتا ہے۔ سانپوں کی دیگر اقسام کے برعکس یہ زہریلے نہیں ہوتے۔

یہ ایشیا اور افریقہ کے گرم علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ بارانی جنگلات، بڑے میدانوں اور صحراؤں میں بھی پائے جاتے ہیں۔

اژدہے اُس وقت تک انسانوں پر حملہ نہیں کرتے جب تک انہیں مشتعل نہ کیا جائے۔ اژدہے میں زہر نہیں ہوتا، یہ اپنے شکار کو اپنے عضلات سے جکڑ کر اس کا سانس روک دیتا ہے۔ اژدہا اپنے شکار کو کاٹے بنا ثابت نگلتا ہے۔ اس کا معدہ کھال اور پروں کو چھوڑ کر سب کچھ ہضم کرلیتا ہے۔ پر اور کھال فضلے کے ذریعے خارج ہوجاتی ہے۔ اژدہا اپنے شکار کو مکمل طور پر ہضم کرنے میں بہت وقت لیتا ہے، اگر شکار بڑا ہے تو اس کا معدہ ہفتوں یا مہینوں میں اسے ہضم کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اژدہے بہت کم کھاتے ہیں۔

اژدہے پانی میں تیرنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔

اژدہے عموماً اپنا مسکن ایسی جگہ پر بناتے ہیں، جہاں کا رنگ اُن کے جسم کے رنگ سے ملتا جلتا ہو۔

خوب صورت ہونے کی وجہ سے اژدہے کی کھال کو بڑے پیمانے پر فیشن انڈسٹری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پینٹ، جوتے، واسکٹ بنانے کے لیے انہیں بے دردی سے مارا جا رہا ہے۔

اژدہوں میں حرارت کو محسوس کرنے والے اعضا ہوتے ہیں، جو اسے شکار کی جگہ ڈھونڈنے میں مدد دیتے ہیں۔
اژدہا ٹھنڈے خون والا جان دار ہے لیکن یہ دھوپ کے ذریعے اپنے جسم کا درجۂ حرارت بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’ریٹی کیولیٹڈ‘ نسل کے اژدہوں کو سب سے لمبی نسل جانا جاتا ہے۔ اس نسل کے اژدہوں کی لمبائی 30فٹ تک پہنچ سکتی ہے۔ ہموار سطح پر اژدہے 1میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رینگ سکتے ہیں۔

موجود ہیں، جو ان کے پالتو ’ریٹ اسنیک‘ کے کاٹنے سے لگے ہیں۔ جنید کا کہنا ہے کہ ریٹ اسنیک ایک خوب صورت اور غیرزہریلا سانپ ہے، لیکن یہ کاٹنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتا۔ اس کے کاٹنے سے بلیڈ کی طرح کٹ لگنے جیسی تکلیف ہوتی ہے۔ جنید کے پاس اس وقت مگرمچھ کا بچہ، ریٹ اسنیک اور اژدہے موجود ہیں۔ جنید نے بتایا کہ پاکستان میں جنگلی حیات خصوصاً ریپٹائلز پر بالکل بھی کام نہیں ہورہا۔ ان کا مستقبل میں سانپ اور اژدہوں پر تحقیقی کام کرنے کا ارادہ ہے۔ ان کی غذا کے حوالے سے جنید نے بتایا کہ ایک بڑے اژدہے کے لیے ہفتے میں ایک بڑا خرگوش یا مرغی کافی ہوتی ہے۔ یہ اپنی غذا (مرغی، خرگوش، چوہے) کو جکڑ کر سانس روک دیتا ہے اور پھر اسے چبائے بغیر ثابت نگل جاتا ہے۔

سفید چوہے اژدہے کی مرغوب غذا ہیں، میں انہیں یہ بھی کھلاتا رہتا ہوں۔ جنید کا کہنا ہے کہ میں نے اس کام کو شوق کی حد تک ہی رکھا اور مستقبل میں بھی شوق کو کاروبار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص گھر میں پالنے کی غرض سے اژدہا خریدنے کا خواہش مند ہو تو میں قیمت سے زیادہ اس بات پر توجہ دیتا ہوں کہ آیا وہ اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کر بھی سکے گا یا نہیں، سو فی صد مطمئن ہونے کے بعد ہی اژدہا یا اس کا بچہ کسی کے حوالے کرتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ میں اژدہوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کا شعور اُجاگر کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں بلامعاوضہ ورکشاپ کرتا ہوں۔ کچھ نجی ٹی وی چینلز اپنے مارننگ شوز میں اژدہے لے جانے کے لیے بھی مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔

اژدہوں کی افزائش نسل کے حوالے سے جنید کا کہنا ہے کہ ملاپ کے تین چار ماہ بعد مادہ انڈے دیتی ہے، جن کی تعداد سو تک بھی ہوسکتی ہے۔ انڈوں سے بچے نکلنے میں دو ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔ جب مادہ کھانا کم کر دے اور اس کی کھال اترنے لگے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ وہ حاملہ ہے اور پھر الٹراساؤنڈ کے بعد اس کی تصدیق کر لیتے ہیں۔

اس وقت مادہ کافی چڑچڑی ہوجاتی ہے، لہٰذا ہم اسے ہاتھ میں پکڑنے میں کافی احتیاط کرتے ہیں۔ جنگلی جانور پالنے والے دیگر افراد کی طرح جنید کا بھی یہی کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر جنگلی جانوروں اور ریپٹائل کے حقوق اور ان کے بارے میں شعور اُجاگر کرنے کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ اس شوق میں وہ حسن حسین (جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے) کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں اور اژدہوں سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات کے لیے وہ حسن ہی سے رابطہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو اژدہوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے جنید رفیق نے دو سال قبل کراچی چڑیا گھر کو ساڑھے آٹھ فٹ کے دو اژدہے بھی تحفتاً دیے، جس کے اعتراف میں کراچی چڑیا گھر کے ریپٹائل ہاؤس میں ان کے نام کا تہنیتی بورڈ بھی لگایا گیا ہے۔

راحیل بگل لو
شیر اور اژدہے جیسے جنگلی جانوروں کو پالنے میں میمن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے راحیل بگل لو بھی پیش پیش ہیں، انہوں نے اپنے گھر میں اژدہے اور شیر کا بچہ پال رکھا ہے۔ ساڑھے آٹھ ماہ کے سلطان (شیر کے بچے کا نام) کی دیکھ بھال راحیل ایک بالکل چھوٹے بچے کی طرح کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ شیر ہو یا بکری کسی بھی جانور کو خود سے مانوس کرنے کے لیے وقت دینا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں کاروباری مصروفیات کے با وجود دن میں دو تین گھنٹے ان کے ساتھ گزارتا ہوں۔ سلطان کو میں دو ماہ کی عمر سے پال رہا ہوں۔ اور یہ میرے لیے گھر کے ایک فرد کی طرح ہی ہے۔ راحیل سلطان کے باقاعدہ چیک اپ اور ویکسی نیشن کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ اور اس کام کے لیے انہوں بھی ایک کُل وقتی ملازم رکھا ہوا ہے، جب کہ گھر میں موجود بچے بڑے، محلے کے بچے سب کے لیے ہی سلطان حقیقت میں سلطان ہے اور راحیل کی طرف سے محلے والے بچوں کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہے، وہ جب چاہیں ان کے گھر پر آکر سلطان سے کھیل لیتے ہیں، لیکن وہ یہ سب اپنی نگرانی میں ہی کرواتے ہیں۔

شیر کے کھانے پینے کے اخراجات کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ایک بالغ شیر روزانہ تقریباً سات سے آٹھ کلو بچھیا کا گوشت کھاتا ہے، جب کہ شیر کا بچہ دن میں تقریباً تین کلو بچھیا کا گوشت کھاتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ ان کی خوراک بھی بڑھتی جاتی ہے۔ ویکسی نیشن کے حوالے سے راحیل کا کہنا ہے کہ شیر کے بچوں کی پہلی ویکسی نیشن ڈھائی ماہ، دوسری چھے ماہ اور تیسری ڈیڑھ سال کی عمر میں ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ ویکسی نیشن کا دورانیہ بھی بڑھتا رہتا ہے۔
مگرمچھ کا شیدائی عبدالرحمٰن
عبدالرحمٰن بھی ریپٹائل سے محبت کرتے ہیں، اور اس شوق کی نشانی ان کے گھٹنے پر موجود مگرمچھ کے کاٹنے کا نشان ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ میں نے غلطی سے مگرمچھ کی دم پکڑ لی تھی، جس پر اس نے پلٹ کر مجھے کاٹ لیا۔ عبدالرحمٰن کے گھر والے بھی کچھ عرصے قبل تک اُن کے اس شوق کے مخالف تھے، لیکن ایک بار اُن کی والدہ کو کسی سانپ نے کاٹ لیا اور انہوں نے دستاویزی فلموں میں بتائی گئی ہدایت کے مطابق اپنی والدہ کو فوری طبی امداد دی۔ اس واقعے کے بعد عبدالرحمٰن کو ریپٹائل گھر میں رکھنے کی اجازت مل گئی ہے۔ لیکن اس ’’اجازت‘‘ کی حدود گھر کی چھت پر بنے کمرے تک ہے۔ یہ اس وقت جنگلی جانوروں (چلنے اور رینگنے والے) کے تحفظ کے لیے ایک این جی او بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ ان ریپٹائلز کی خوراک کے بارے میں عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ میں مگرمچھ کو مرغی، خرگوش اور گائے کا گوشت کھلاتا ہوں۔

عکاسی: راشد اجمیری

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔