- اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہباز گل کیس میں آئی جی کو فوری طلب کرلیا
- ٹوئٹر پر تنقید، سعودی عرب میں خاتون کو 34 سال قید کی سزا
- شہباز گل کی میڈیکل رپورٹ سامنے آگئی
- حمزہ شہباز کی لندن سے وطن واپسی مؤخر
- امریکا کا پاکستان میں سیلاب متاثرین کیلیے ایک لاکھ ڈالر امداد کا اعلان
- کراچی سے لاہور جانے والی لڑکی کے اغوا کا مقدمہ ختم کرنے درخواست مسترد
- کراچی سے حیدآباد جانے والی گاڑی سیلابی ریلے میں بہہ گئی، 7 افراد لاپتہ
- تیزگام میں مجرے پر ٹرین انتظامیہ کو شوکاز نوٹس
- بلوچستان میں سیلاب سے یکم جون تا 16اگست جاں بحق افراد کی تعداد 202ہوگئی
- حکمرانوں نے نوٹ بینک کے لئے ووٹ بینک قربان کردیا، شیخ رشید
- مینوفیکچررز پر اسپیشل انکم ٹیکس عائد کرنے پر غور
- سی پیک، اگلے مرحلے پر عملدرآمد کی تیاری شروع کردی‘ وزیراعظم
- وزیراعظم نے چین کی رضا مندی سے سی پیک اتھارٹی تحلیل کرنے کی منظوری دیدی
- الیکشن کمیشن کے کاغذوں میں عمران خان اب بھی رکن اسمبلی ہیں، چیف الیکشن کمشنر
- پاکستان سے میچ بھارت کے اعصاب پر سوار
- بابر اعظم کے سنچری مکمل نہ کرنے پر شاہد آفریدی کا اظہارِ مایوسی
- محمد حسنین کا معاملہ، آئی سی سی کی خاموشی پرشور مچنے لگا
- پاکستان اور نیدر لینڈز کے مابین دوسرا ون ڈے آج کھیلا جائے گا
- پی ایس ایل 2025؛ شیڈول براہ راست آئی پی ایل سے متصادم
- ٹیسٹ کرکٹ پاکستان کے دل سے اُترنے لگی
اب دعاؤں کی زیادہ ضرورت ہے

ایک کہاوت ہے کہ ’’جہاں بصیرت نہیں ہوتی وہاں لوگ تباہ حال ہوجاتے ہیں‘‘ اسی لیے سوچ کے پرانے طریقوں سے نجات، پرانے نمونوں سے نجات یہ سب کچھ تاریخ کے بڑے بڑے معرکوں میں شامل ہے۔ جب ہینری کسنجر سیکریٹری آف اسٹیٹ تھا وہ اپنے ماتحت اسٹاف سے یہ کہتا تھا کہ وہ اسے اپنے بہترین سفارشات پیش کریں وہ سفارشات کواپنے ہمراہ لے جاتا اور 48 گھنٹے تک اپنے پاس رکھتا تھا اور اس سوال کے ساتھ ان کو واپس کر دیتا تھا کہ ’’کیا یہ بہترین ہے جو تم کرسکتے ہو‘‘؟
اور اس کا اسٹاف جواب دیتا کہ ’’نہیں ہم اس پر مزید سوچ بچار کر سکتے ہیں ہم اسے مزید بہتر شکل دے سکتے ہیں اور ہم دیگر نعم البدل پیش کر سکتے ہیں اور اس انجام کی نشاندہی بھی کر سکتے ہیں جس سے ہم ایسی صورتحال میں بالمقابل ہونگے جب کہ لوگ ہماری سفارشات کو قبول نہ کریں گے‘‘ کسنجر جواب میں کہتا تھا ’’ٹھیک ہے آپ اس پر اپنا کا م جاری رکھیں‘‘ اب وہ دوسری مرتبہ ان سفارشات کو اس کے سامنے پیش کرتے تھے اور وہی کچھ وقوع پذیر ہوتا تھا۔
کسنجر دوبارہ ان سے دریافت کرتا تھا کہ ’’کیا یہ بہترین ہے جو تم کرسکتے ہو‘‘ اب بہت سے لوگ اپنی پیشکش کی خامیوں سے واقف ہو چکے ہوتے تھے لیکن مکمل اسٹاف ورک کا اصول ان کو یہ ذمے داری عطا کرتا تھا کہ و ہ اپنی خامیوں کی شناخت کریں اور ان کو درست کریں یا کم ازکم یہ کریں کہ اپنی خامیوں کی شناخت کریں اور ان خامیوں کے ساتھ نپٹنے کی تدابیر پیش کریں۔
کسنجرکا عملہ کچھ چھوٹی موٹی خامیوں کی نشاندہی کرتا تھا۔ کسنجر انہیں مشورہ دیتا تھا کہ واپس جاؤ اور اس پر اپنا کام جاری رکھو اسے بہتر بناؤ اسے تقویت بہم پہنچاؤ اور وہ ایسا ہی کرتے تھے اور اب وہ تیسری مرتبہ ان سفارشات کو کسنجر کے سامنے پیش کرتے تھے اور وہ تیسری مرتبہ یہ ہی کہتا تھا کہ ’’کیا یہ بہترین ہے جو تم کرسکتے ہو؟ کیا یہ تمہاری حتمی سفارشات ہیں؟ کیا ان میں مزید بہتری کا امکان ہے؟
اور وہ کہتے تھے ’’ہم ان کے بارے میں بہتر محسوس کرتے ہیں لیکن ممکن ہے کہ ہم ان کی زبان میں قدرے بہتری لا سکیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہم انہیں قدرے بہتر طور پر پیش کر سکیں‘‘ وہ ان پر اپنا کام جاری رکھتے تھے اور ایک مرتبہ پھر کسنجر کو پیش کرتے تھے اس مرتبہ وہ یہ کہتے تھے کہ ’’یہ بہترین ہے جو ہم کرسکتے ہیں ہم نے ان پر کافی زیادہ غور و خوض سر انجام دیا ہے اور ہم نے واضح طور پر متبادل بھی شناخت کیے ہیں انجام بھی شناخت کیے ہیں ہم نے اس پر روبہ عمل ہونے کی تجاویز بھی پیش کی ہیں اور اب ہم نے انہیں حتمی شکل دے دی ہے اب ہمیں یقین ہے کہ آپ انہیں مکمل اعتماد کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں‘‘ اب کسنجر جواب دیتا کہ ’’ٹھیک ہے اب میں اسے پڑھوں گا۔‘‘
پوری دنیا مکمل اسٹاف ورک پر کہ یہ ایک بہترین آئیڈیا ہے متفق ہو چکی ہے، اس کا اصول یہ ہے کہ لوگ مسئلے کے بارے میں سو چتے ہیں مسئلہ کا گہرائی میں تجزیہ سر انجام دیتے ہیں۔ کئی ایک متبادل حل تلاش کرتے ہیں اور ان کے انجام / نتائج زیر غور لاتے ہیں اور بالآخر ایک متبادل حل کی سفارش کرتے ہیں۔ یہ مہارت ملکوں اور لوگوں کو خو شحال بنا نے کے قابل بناتی ہے۔
ادھر دوسری طرف یہ دیکھنے کے لیے کہ پاکستان کیسے چل رہا ہے آپ طلسمی ٹوپی پہن کر بڑے بڑے آفسوں، ایوانوں، ہاؤسز میں گھس جائیں تو وہاں آپ کی ملاقات ایک سے ایک بڑے خوشامدی، چمچے، قصیدہ گو، پیدا گیر، کمیشن خور سے خود بخود اور بآسانی ہو جائے گی جو سب کے سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف نظر آئیں گے اور شاندار طریقے سے اپنے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہوں گے، لیکن ان جگہوں پر آپ کو ڈھونڈے سے بھی قابلیت، صلاحیت اور بصیرت نہیں ملے گی کیونکہ ان جگہوں میں ان کا داخلہ ممنوع ہے۔
اسی وجہ سے تمام خوشامدی، چمچے، قصیدہ گو، پیدا گیر اورکمیشن خور روزگار پر لگے ہوئے ہیں آپ کو ان جگہوں کی ہر جگہ سے واہ واہ، سبحان اللہ ، سر آپ جیسا نہ کوئی پہلے آیا اور نہ کوئی آیندہ آئے گا۔ سر آپ چلے گئے تو پھر ملک کیسے چلے گا، پوری دنیا میں آپ جیسا قابل، باصلاحیت انسان آج تک پیدا نہیں ہواکی آوازیں آپ کو جابجا سنائی دے رہے ہوں گی، فائلوں پر دستخط پر دستخط ہو رہے ہونگے۔
فرمائشی پروگرام جاری وساری آپ کو ملیں گے لوگ بریف کیس لیے آ اور جا رہے ہونگے، چہر ے خوشیوں سے دمک رہے ہوںگے، فون پر فون آ رہے اور جا رہے ہونگے، ملاقاتیں طے پہ طے ہو رہی ہونگی، آپ کی لاکھ کوششوں کے باوجود آپ کوکہیں بھی ملک کی ترقی، خوشحالی، استحکام اور عوام کی تکلیفیں اور دکھ اور مسائل کم کرنے کے منصوبے، اقدامات نہ تو دیکھنے کو ملیں گے اور نہ ہی سننے کو اور بچے کچے وقت میں آپ کو وہاں سب لوگ کانا پھوسی ایک دوسرے کے گلے شکوے کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف دکھائی دیں گے اور ساتھ ہی ساتھ آپ کو لوٹ مارکے نئے نئے منصوبے بنتے نظر آ رہے ہوںگے اور جب آپ وہاں سے واپس اپنے گھر جا رہے ہوں گے، تو آپ کی ملک اور قوم کے لیے فکر اور تشویش دگنی نہیں بلکہ چوگنی ہو چکی ہو گی آپ کے ذہن میں خوف کے جھکڑ بری طرح سے چلنا شروع ہو چکے ہونگے اور آپ گھر جاتے ہی دعائیں مانگنے بیٹھ جائیں گے۔
کیونکہ اس ساری صورتحال میں دعاؤں کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ہمارے کرتا دھرتا ملک و قوم کے مسائل حل کرنے کے بجائے کچھ اور ہی کرنے میں مصروف ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔