کنٹریکٹ اور ڈپوٹیشن پر تعینات افسران فارغ، سندھ حکومت کے امور ٹھپ

اسٹاف رپورٹر  جمعرات 11 اپريل 2013
عوامی مسائل پس پشت ڈال دیے گئے،سروسز معاملات پر توجہ مرکوز،افسران کو ایک ساتھ فارغ کرنے سے بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی. فوٹو: وکی پیڈیا

عوامی مسائل پس پشت ڈال دیے گئے،سروسز معاملات پر توجہ مرکوز،افسران کو ایک ساتھ فارغ کرنے سے بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی. فوٹو: وکی پیڈیا

کراچی: سندھ حکومت کی جانب سے کنٹریکٹ اور ڈپوٹیشن پر تعینات افسران کو اچانک فارغ کیے جانے سے تمام حکومتی امور ٹھپ ہو گئے اور افسران و ملازمین میں شدید بے چینی پھیل گئی۔

اس ضمن میں تمام افسران نے عوامی مسائل کو پس پشت رکھتے ہوئے صرف سروسز معاملات پر توجہ مرکوز کردی ہے اور تفصیلات سے سروسز جنرل ایڈمنسٹریشن کو آگاہ کیا جا رہا ہے،یاد رہے کہ کنٹریکٹ پر 94 اور ڈپوٹیشن پر 155 افسران کو سپریم کورٹ کی ہدایت پر فارغ کیا گیا ہے جن میں سے بیشتر بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں میں تعینات تھے۔

جبکہ خود مختار اور نیم خود مختار ادارے بھی بحرانی کیفیت سے دو چار ہیں،دوسری جانب ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سندھ حکومت کے تمام ادارے اب او پی ایس پر تعینات افسران کی فہرستیں تیار کرنے میں مصروف ہے جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں افسران و ملازمین او پی ایس پر تعینات ہیں جبکہ محکمہ صحت ، آبپاشی و بجلی ، ورکس اینڈ سروسز، تعلیم ، زکوٰۃ اوقاف و مذہبی امور ، جنگلات و جنگلی حیات ، فشریز اینڈ لائیواسٹاک ، بلدیات ، پولیس ، جیل خانہ جات ، قانون ، خزانہ ، صنعت و کامرس ، مائینز اینڈ منرل، زراعت ، وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ ، گورنر سیکریٹریٹ ، اطلاعات و آرکائیوز ، ماحولیات و متبادل توانائی ،

ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن ، خوراک ، منصوبہ بندی و ترقیات ، سپلائی اینڈ پرائسز ، اینٹی کرپشن ، کو آپریٹو ، اسپورٹس ، یوتھ افیئرز ، سوشل ویلفیئر ، وومن ڈیولپمنٹ اور سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن سمیت دیگر محکموں میں حکومتی امور چلانے کے لیے بڑی تعداد میں او پی ایس پر افسران تعینات کیے گئے ہیں، بعض صوبائی سیکریٹریز نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈپوٹیشن اور کنٹریکٹ پر فارغ کیے جانے والے افسران کو ایک ساتھ فارغ کرنے کے بجائے افسران آہستہ آہستہ فارغ کیے جاتے تو بحرانی کیفیت پیدا نہ ہوتی تاہم ایک ساتھ افسران کے فارغ ہونے کی وجہ سے اب عوامی مسائل کے بجائے صرف سروسز معاملات پر ہی توجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔