کرپشن کا زہر

شاہد سردار  اتوار 8 اپريل 2018

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ غیر قانونی ذرائع سے دولت کمانا اور اس میں اضافہ کرتے چلے جانا حرف عام میں ’’کرپشن‘‘ کہلاتا ہے، اور یہ آج پورے عالمی انسانی معاشرے کو درپیش گہرے منفی مضمرات کا حامل ایک نہایت ہی سنگین مسئلہ ہے۔

حکمراں اور مقتدر طبقات اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے ٹیکس چوری، کمیشن خوری اور دوسرے مجرمانہ ہتھکنڈوں سے جس طرح اپنے ہی ملکوں میں قومی وسائل کو لوٹتے یا عالمی سطح پر قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ناجائز دولت کے انبار جمع کرتے اور پھر اس کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے جن چور دروازوں سے استفادہ کرتے ہیں پچھلے عشروں میں اس کی تفصیلات کا عیاں ہونا ایک امر محال تھا لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی نے تحقیق و تفتیش کے نت نئے راستے کھول کر اس ناممکن کو ممکن بنادیا ہے۔

اس کے نتیجے میں ایسے حیرت انگیز انکشافات سامنے آرہے ہیں جن کا تصور بھی کچھ عرصہ پہلے تک محال تھا۔ مقتدر اور طاقتور طبقات کی مالی بدعنوانیاں فی الحقیقت آج کسی خاص ملک یا علاقے کا نہیں پوری انسانی دنیا کا مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر غربت اور امارت کا فرق ہولناک حد تک بڑھ چکا ہے اور اس میں بڑی تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے۔

دراصل احتساب اور سزا کا خوف جاتا رہے تو سماج کے تار و پود بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ طاقتور کمزور سے اس کا حق ہی نہیں چھینتا، اسے دبانے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ جس سے اخلاقی و معاشرتی جرائم کو مہمیز ملتی ہے۔

سماج کو انھی قباحتوں سے بچانے کے لیے قوانین وضع کیے جاتے ہیں تاکہ کوئی بھی فرد کسی دوسرے کے لیے باعث آزار نہ بن سکے اور بدعنوانی سے قبل اس کے ذہن میں قانون کی پکڑ کا خوف ہو۔ آج پورے سماج میں ہم کرپشن کے زہر کے سرائیت کر جانے کا رونا روتے ہیں تو بلاشبہ اس کی بنیادی وجہ اس بے رحمانہ احتساب کا فقدان ہے جو معاشرے کے ہر فرد کو بدعنوانی سے روکتا ہے۔

وطن عزیز کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس کے قیام کے فوری بعد ہی ملک میں الاٹمنٹوں اور جعلی کلیموں کی صورت بدعنوانی شروع ہوگئی جو پاناما لیکس اور پیراڈائز لیکس پر آن ٹھہری ہے اور ابھی بہت سے لوگوں کا آشکار ہونا باقی ہے۔ ممتاز عالمی تجزیاتی اداروں کی تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق آج دنیا کی پچاس فیصد دولت کرہ ارض کی محض ایک فیصد آبادی کے پاس ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے آٹھ امیر ترین لوگوں کی دولت دنیا کی باقی آدھی آبادی کی دولت کے مساوی ہے۔

اس صورتحال کا بنیادی سبب پوری دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط ہے جو بجائے خود امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنانے والا نظام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دولت مند طبقات کے لیے ناجائز ذرائع سے دولت کمانے اور چور راستوں سے اسے جائز کرلینے کے دروازے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ دنیا میں روز بڑھتا ہوا دولت کا یہ تفاوت محروم طبقات میں بے چینی، نفرت اور انتقام کے جذبات کو بہت تیزی سے بڑھا رہا ہے۔

یہ حالات محروم طبقات کو انقلاب فرانس اور انقلاب روس کی طرح وسائل سے مالا مال طبقات کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ لہٰذا عالمی انسانی معاشرے کو تباہی کی راہ پر آگے بڑھنے سے بچانے کے لیے ایسے بین الاقوامی قوانین کی تشکیل اور نفاذ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے جو ناجائز دولت چھپانے اور کالے دھن کو سفید کرنے کے تمام حربوں کو ناکام بنا سکیں اور جن کی موجودگی میں ناجائز دولت کے ڈھیر لگانے والے قارونوں کے لیے کوئی محفوظ جنت بنانا قطعی محال ہوجائے۔

کرپشن پرسیپشنز (سی پی آئی) کے تازہ ترین اعداد و شمار میں پاکستان کو 180 ممالک میں 117 ویں درجے پر رکھا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں انتہائی کرپٹ 100 ممالک کی فہرست میں پاکستان کو 32 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے اور یہ کڑوی سچائی قائد اعظم کے بنائے ہوئے اس پاکستان کے لیے کتنی اذیت ناک اور ہولناک ہے جسے بے پناہ قربانیوں، جذبہ ایمانی اور صداقی جذبوں کے ساتھ دنیا کے نقشے میں اجاگر کیا گیا تھا۔

پاکستان اگر آج جس ابتری و انتشار اور سیاسی اخلاقیات کی تنزلی کا شکار ہے، وہ حد درجہ کرپشن ہی کی وجہ سے ہے اور یہ سب اس ملک کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ وطن عزیز کا یہ ایک بہت بڑا قومی المیہ ہے کہ اس میں اقربا پروری، سفارش، ناانصافی، انصاف کا عدم حصول، عام انسانوں کے ساتھ زیادتیاں، ان کی محرومیاں، لاقانونیت اور حد درجہ کرپشن ہماری قومی زندگی کے اٹوٹ انگ بن چکے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان برائیوں سے سمجھوتہ کرلیا ہے، انھیں لازم و ملزوم سمجھ لیا ہے اور ان کے تدارک کے لیے کہیں بھی کوئی منظم تحریک نظر نہیں آتی۔ قانون ساز اداروں میں اعلیٰ پوزیشن پر بیٹھنے والے خود قانون کا مذاق اپنے اعمال سے اڑا رہے ہیں اور اپنی حیثیت اور اپنی طاقت کے بل پر اڑے ہوئے ہیں۔

کاش دولت کے پلازہ تعمیر کرنے یا اس کا انبار لگانے والے یہ جان پاتے کہ انسان کا اصل سرمایہ دولت یا اس کا حصول نہیں بلکہ انسانیت ہے اور یہ سرمایہ اس وقت تمام ہوجاتا ہے جب احترام انسانیت باقی نہ رہے اور انسان کسی دوسرے کی پریشانی یا مسئلے سے پہلو تہی کرلے۔ جس طرح بیمار ہونے کی صورت میں کھانے کی لذت محسوس نہیں ہوتی اسی طرح گناہوں کی موجودگی میں عبادت اور ریاضت کی لذت محسوس نہیں ہوتی۔ اللہ ہمیں مسجدوں کی لذت عطا فرمائے اور رزق حرام سے مکمل پرہیز کی توفیق مرحمت کرے۔

یہ شکوہ یقیناً خلاف حقیقت ہے نہ بے جا کہ ہماری پوری قومی تاریخ میں اہل سیاست تو ہمیشہ احتسابی عمل سے گزرتے رہے جو بعض اوقات شفافیت اور غیر جانبداری کے تقاضوں سے بھی عاری رہا لیکن آئین شکنی کے مرتکب آمروں اور طاقتور ریاستی اداروں کے کرپشن اور دیگر معاملات کے حوالے سے مشتبہ افراد کسی قابل ذکر احتسابی عمل سے بالاتر رہے۔ اس صورتحال کا ازالہ معاشرے میں مکمل عدل کے نفاذ کے لیے ناگزیر ہے اور بلاامتیاز احتساب ہی ملک کی بقا اور سلامتی و استحکام کا ضامن ہوسکتا ہے۔

ملک کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرنے کے لیے شفاف اور بے لاگ احتساب بلاشبہ ہماری ناگزیر قومی ضرورت ہے۔ اسی سے ملک کی بقا ممکن ہے اور ملک کی بقا و خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ ہماری سیاسی قیادتیں اور ریاستی ادارے قومی اہداف و مقاصد کے حصول میں مکمل تعاون کریں۔ وقتی سیاسی مفادات کی خاطر ضمیروں کی منڈیاں سجانا کسی بھی صورت ملک کے مفاد میں نہیں، اس کے نتیجے میں اقتدار کے ایوانوں کے راستے لازماً خودغرض اور خیانت کار عناصر کے لیے ہموار ہوتے ہیں۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ آج کے مادہ پرست دور میں ہم اپنی اپنی خواہشوں کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں۔ ہر شخص کم ازکم لکھ پتی پلک جھپکتے ہی بن جانا چاہتا ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے اپنی ضروریات کا دامن بہت دراز کرلیا ہے اپنے اپنے ذرائع آمدنی کو سمجھتے ہوئے بھی بس اسی سے من برائیوں کی طرف مائل ہوا جاتا ہے لیکن ہمارے سماج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس صورتحال میں بھی رزق حلال کو واقعی عین عبادت ہی سمجھتے ہیں اور قناعت پسندی کے حصار میں مقید ہیں اور لقمہ حرام سے بھوکے رہ جانا ہی پسند کرتے ہیں، کاش ہم اور ہمارے ارباب اختیار اپنی عادت بد ترک کریں اور رزق حرام اور اپنے گناہوں سے تائب ہوجائیں کہ گناہ گار کی عاجزی عبادت گزار کے غرور سے بہتر ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔