سائنس اور فکشن

نسیم انجم  اتوار 8 اپريل 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

سائنس و ادب کے حوالے سے ہمارے ملک میں گراں قدر خدمات انجام دی گئیں، یہ کام تخلیق کاروں اور قلم کاروں کی محنت اور وطن عزیز سے محبت کی بدولت بڑی خیر و خوبی کے ساتھ انجام پارہا ہے، ایسے ہی محب وطن اور انسانی اقدار کو فروغ دینے والوں میں قمر النسا قمر اور ڈاکٹر معین الدین احمد کا نام بھی نمایاں اور شہرت و نیک نامی کا حامل ہے۔

ڈاکٹر معین الدین احمد نے ملکی مسائل اور انھیں حل کرنے کے حوالے سے اپنی معلومات اور قابلیت کی بنا پر معلومات فراہم کیں، اسی قبیل کی ان کی ایک کتاب ’’سایہ ذوالجلال‘‘ بھی ہے اور جس کتاب پر انھیں ایوارڈ سے نوازا گیا اس کا نام ہے “The Science of Tree Ring: “Dendrochronology” اس کتاب کے تعارف سے قبل قمرالنسا قمر کی سیاسی بصیرت اور تخلیقی صلاحیت کے حوالے سے بات کریں گے، عرفان عابدی کی کتاب ’’انسانوں کی تازہ فصل‘‘ پر خامہ فرسائی بھی ضروری خیال کرتی ہوں۔

محترمہ قمر النسا قمر کا بنیادی حوالہ انسانیت کی خدمت ہے، انھوں نے وسیع پیمانے پر انسانیت کی خدمت کی ہے، ادارہ ’’تنظیم فلاح خواتین ‘‘ کی بانی ہیں، اس ادارے میں غریب و مستحق خواتین کو گھریلو دستکاری اور آئی ٹی کی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ یہ غیر تعلیم یافتہ یا کم پڑھی لکھی خواتین اپنے گھر کے معاشی معاملات میں مددگار ثابت ہوسکیں، ان کا سیاست میں بھی گہرا عمل دخل رہا ہے، وہ قومی اسمبلی کی ممبر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہیں، انھوں نے اسی حوالے سے سعودی عرب، فرانس، امریکا، لندن کے دورے کیے۔ ملکی اور غیر ملکی دوروں کا مقصد وطن عزیز کے پریشان اور مسائل میں گھرے افراد کی مدد کرنا تھی۔

تھوڑا عرصہ گزرا ہے جب ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’انکشاف‘‘ شایع ہوا اور اس کی شاندار اور یادگار تقریب کا انعقاد النساء کلب میں کیا گیا، اس تقریب رونمائی میں اہم ترین شخصیات نے شرکت کی اور داد و تحسین کے خوش رنگ پھول نچھاور کیے گئے راقم الحروف کا شمار بھی مقررین میں تھا۔’’انکشاف کے کئی افسانے ایسے ہیں جو متاثر کن اور فنی لحاظ سے قابل توجہ ہیں، میں نے ایک ہی نشست میں ان افسانوں کا مطالعہ کیا، ’’بلاعنوان‘‘، ’’سراب‘‘ اور ’’انکشاف‘‘ جیسے افسانے قاری کی توجہ مبذول کرالیتے ہیں اور ایک سحر زدہ فضا جنم لیتی ہے۔

افسانہ ’’بلاعنوان‘‘ میں بدلتے رویوں کی عکاسی بہت خوبصورتی کے ساتھ کی گئی ہے، جھوٹ، منافقت ، لالچ اور حسد کے گرد گھومتا ہے ’’سراب‘‘ بھی طبقاتی کشمکش، امارت اور غربت کی گود میں پروان چڑھنے والی کہانی ہے جس میں افسانوی رنگ بھی ہے اور سماج کی زبوں حالی کا نقشہ بھی عیاں ہوگیا ہے، سچائی کے خمیر سے گندھی ہوئی یہ کہانیاں ہمارے اپنے معاشرے کی ہیں۔

جبر و تشدد، منافقت اور رشتوں، ناتوں کی بیخ کنی نے معاشرے میں ایک حبس پیدا کردیا ہے، جہاں جینا محال ہے، سانس لینا مشکل ہے، مصنفہ نے کھٹی میٹھی یادوں اور زمانے کی تلخیوں کو افسانوں کے سانچے میں نفاست اور خوبصورتی کے ساتھ ڈھالا ہے۔قمر النسا قمر بہت ساری خوبیوں کی مالک ہیں وہ رشتے، ناتوں کے نبھانے کے فن سے بہت اچھی طرح واقف ہیں، بے حد منکسر المزاج اور اخلاقی طور پر مالا مال ہیں۔

ڈاکٹر معین الدین احمد شعبہ نباتیات وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ہیں، ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب The Science of Tree Rings: “Dendrochronology” سائنس کی ایک نئی شاخ کے بارے میں ہے، پاکستان میں اس مضمون کا تعارف نہ ہونے کے برابر تھا، پاکستان کی کسی یونیورسٹی یا کالج میں شامل نصاب نہیں تھی۔

ڈاکٹر معین نے پہلی مرتبہ اس مضمون کا تعارف کروایا، طلبا کو اس کی تعلیم دی اور اعلیٰ تحقیقی کام بھی کروایا، پاکستان میں اب یہ نیا نویلا مضمون بلوچستان یونیورسٹی، اردو یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان، جی سی یونیورسٹی لاہور، انٹرنیشنل قراقرم یونیورسٹی، گلگت، سوات یونیورسٹی اور مالا کنڈ یونیورسٹی تک اس کی تعلیم جاری ہے۔ کل اس کے طالبعلم انگلیوں پر گنے جاتے تھے لیکن آج حالات مختلف ہیں۔

یہ مضمون درختوں میں پائے جانے والے سالانہ حلقوں کے بارے میں بحث کرتا ہے۔ پہلے اس کے ذریعے درختوں کی عمر معلوم کی جاتی تھی، مگر اب گزشتہ چالیس سال میں ان حلقوں کی مدد سے ماضی میں ہونیوالے واقعات کا بالکل ٹھیک ٹھیک اور کیلنڈر کے سال کے مطابق تاریخ کا معلوم کیا جاسکتا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں یہ علم آتش فشاں، زلزلوں، موسموں کا حال، گلیشیئرز، دریاؤں کے بہاؤ، آثار قدیمہ، سطح سمندر کی بلندی، جنگل کی آگ اور حشرات الارض کے حملوں وغیرہ کی تحقیق میں مدد گار ہے۔

پاکستانی علاقے اس مضمون کی تحقیق کے لیے انتہائی سودمند اور موزوں ہیں۔ چونکہ قدرت نے پاکستان کو ان ذخائر سے مالا مال کیا ہوا ہے، یہاں جھیلیں، سمندر، پہاڑ، برف پوش وادیاں، گلیشیئرز کثرت سے ہیں یہ علاقے زلزلوں کی زد میں رہتے ہیں، اس قسم کی مشکلات سے بچنے میں یہ مضمون بے حد اہمیت کا حامل ہے۔

پروفیسر معین الدین احمد پہلے ایشیائی مصنف ہیں جنھوں نے سائنس کے اس نئے مضمون میں آسان انگریزی کتاب تحریر کی۔ مذکورہ کتاب میں ڈاکٹر صاحب اور ان کے شاگردوں کے حوالے موجود ہیں، جنھوں نے ان کی نگرانی میں تحقیقی کام کیا، اس میں وہ تمام معلومات فراہم کی گئی ہیں جو کسی گریجویٹ طالب علم کے لیے ضروری ہیں، اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ سنگلاخ پہاڑوں میں کس طرح کام کیا جاتا ہے اور اعداد و شمار اور نمونے حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے۔

تجربہ گاہ میں تفصیلی مطالعے کے لیے ان نمونوں کی تیاری، اعداد و شمار کا کمپیوٹر کے ذریعے تجزیہ کرنا اس کے علاوہ پاکستان میں اب تک جو تحقیقی کام ہوا ہے اس کے بارے میں بتانا اس طرح کے اہم امور پر بحث کی گئی ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے یہ کتاب اپنے ذاتی خرچ سے چھپوائی، اس کی وجہ ہمارے ملک میں قابل اور مخلص لوگوں کی قدر بالکل نہیں ہے، اسی لیے مصنف کو خود ہی سارے کام نمٹانے اور مفت میں بطور تحفہ کتابوں کی تقسیم کرنا پڑتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ’’دی سائنس آف ٹری ڈینڈرو کرولوجی‘‘ مختلف یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں تحفتاً پیش کی تاکہ اس نئے مضمون کے بارے میں اساتذہ اور طلبا واقف ہوسکیں۔ کتاب کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے 2013-14 ء کی بہترین کتاب کے ایوارڈ سے نوازا۔

حال ہی میں مجھے علی عرفان عابدی کا افسانہ مجموعہ ’’انسانوں کی تازہ فصل‘‘ اور ان کی آیندہ شایع ہونے والی کتاب کے افسانے موصول ہوئے، اس سے قبل علی عرفان عابدی کے افسانوں کی کتاب ’’دل زمین‘‘ اشاعت کے مرحلے سے گزر چکی ہے۔ ’’دل زمین‘‘ کے افسانوں اور موجودہ دور میں لکھے گئے افسانوں کا اگر موازنہ کیا جائے تو حیرت انگیز طور پر خوشگوار تبدیلی اور نمایاں فرق نظر آتا ہے۔

علی عرفان عابدی نے فن افسانہ نگاری میں اچھی خاصی ترقی کرلی ہے، ان ذاتی تجربات اور مشاہدات کی آنچ نے ان کے افسانوں کو حرارت بخشی ہے۔ قاری افسانوں کی تازگی اور کردار نگاری سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا ہے، اس کی وجہ انھوں نے معاشرے کو کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اپنے اردگرد کے حالات و واقعات، سماجی تلخیوں اور ناانصافیوں کا احساس کرکے افسانے کشید کیے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مصنف کے افسانے معاشرتی حقائق سے مزین اور روشن نظر آتے ہیں۔ جو مجھے مسودہ دیا گیا تھا، اس کا پہلا افسانہ بعنوان ’’نالے کا کیڑا‘‘ ہے، یہ بھی اتفاق ہے کہ میں نے مطالعہ کی ابتدا پہلے ہی افسانے سے کی، بنت اور ٹریٹمنٹ اعتبار سے ’’نالے کا کیڑا‘‘ ایک شاندار افسانہ ہے۔

کرداروں نے مکالموں کی ادائیگی میں جو زبان بولی ہے اس کا تاثر افسانے کو دلچسپ اور موثر بنا دیتا ہے۔ ساتھ ہی افسانے کی کامیابی میں یہ خوبی اضافے کا باعث بنتی ہے۔ عرفان عابدی نے مختصر افسانے بھی لکھے ہیں اور طویل بھی لیکن ان کا ہر افسانہ افسانے کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ وسیع ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔