عوام کو صاف پانی اور دوا بھی میسر نہیں، ارکان پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے، ترقیاتی فنڈز کس قانون کے تحت دیے جاتے ہیں؟ چیف جسٹس

مانیٹرنگ ڈیسک / نمائندہ ایکسپریس  جمعرات 11 اپريل 2013
این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو اتنا پیسہ ملا وہ کہاں گیا؟ معاملہ نیب کو بھجوایا جانا چاہیے تھا،صوبے کو دانستہ پسماندہ رکھا گیا، عدالت عظمیٰ، فنڈز کا ریکارڈ اور کرپشن کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی رپورٹ طلب کرلی گئی۔ فوٹو: فائل

این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو اتنا پیسہ ملا وہ کہاں گیا؟ معاملہ نیب کو بھجوایا جانا چاہیے تھا،صوبے کو دانستہ پسماندہ رکھا گیا، عدالت عظمیٰ، فنڈز کا ریکارڈ اور کرپشن کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی رپورٹ طلب کرلی گئی۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ عوامی نمائندوں کا کام قانون سازی کرنا ہے، انھیں ترقیاتی فنڈز کس قانون کے تحت دیے جاتے ہیں۔

این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو اتنا پیسہ ملا وہ کہاں گیا، عوام کو پینے کا پانی اور بخارکی دوائی تک دستیاب نہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں3 رکنی بنچ نے بلوچستان کو نیشنل فنانس کمیشن اور دیگر ذرائع سے ہونے والی آمدن، خرچ کا میزانیہ اور گزشتہ 5 سال کے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کی تفصیلات کا ریکارڈ طلب کر لیا، عدالت نے بڑے پیمانے پر کرپشن کا معاملہ نیب کو نہ بھجوانے کا بھی نوٹس لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ چیف سیکریٹری کی جانب سے معاملہ نیب کو ریفر کرنا چاہیے تھا۔

صوبے کی ترقی کیلیے اربوں روپے جاری ہوئے لیکن عوام کی فلاح کا کوئی کام نہیں ہوا، آج بھی بچے اور خواتین میلوں دور سے سر پر مٹکے لاد کر پانی لانے پر مجبور ہیں، بلوچستان پسماندہ نہیں اس کو دانستہ پسماندہ رکھا گیا ہے، یہ وسائل کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے، اگر ترقیاتی فنڈز صحیح خرچ ہوتے تو یہ سب سے ترقی یافتہ صوبہ ہوتا، یہی حالت پورے ملک کی ہے، پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان پسماندہ ہے، یہ پسماندہ ہے نہیں بلکہ رکھا گیا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو اتنا پیسہ ملا وہ کہاں گیا۔

عوام کو پینے کا پانی اور بخارکی دوائی تک دستیاب نہیں، جن کے پیر میں جوتا تک نہیں ہوتا انہیں حکومتی منصوبوں سے کیا لینا، منتخب نمائندوں کا کام قانون سازی کرنا ہے لیکن یہاں وہ گلیاں اور نالیاں بناتے ہیں، قانون انھیں ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ قومی مفاد یہ ہے کہ کسی منتخب رکن کو ترقیاتی فنڈ نہ دیا جائے، وہ اپنے علاقوں میں عوامی فلاح کے لیے منصوبوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں، خود سکیمیں نہیں چلا سکتے۔ صوبائی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 156 عوامی نمائندوںکو اسکی اجازت دیتا ہے، جسٹس عظمت سعید نے کہا انھیں منصوبوں کے تعین کا اختیار دیا گیا ہے۔ عدالت میں بلوچستان حکومت کی جانب سے صوبے میں ترقیاتی منصوبوں اور ان کیلیے جاری کیے گئے فنڈز کی رپورٹ پیش کی گئی۔ خواجہ حارث نے کہاکہ رپورٹ 25فیصد ترقیاتی منصوبوں سے متعلق ہے۔

درخواست گزار کے وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ ان ترقیاتی اسکیموں میں اربوں روپے خرد برد کیے گئے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ ہر رکن اسمبلی کو 25کروڑ کے فنڈز دیے گئے اور جو ترقی ہوئی وہ سب کو معلوم ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ فنڈز براہ راست نہیں دیے جاتے بلکہ ارکان کی جانب سے اپنے علاقوں کیلیے سفارش کی گئی سکیموں کا جائزہ لینے کے بعد رقم کا اجراء ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ارکان اسمبلی کیلئے ترقیاتی اسکیموں کا اجراء کب شروع ہوا اور یہ کس قانون کے تحت ہے؟ آئینی و قانونی پوزیشن واضح کریں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا منتخب نمائندوں کو فنڈز دینے کی روایت ضیاء الحق دور سے شروع ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ رپورٹ میں کرپشن کی تصدیق کی گئی ہے، اگلی حکومت آنے سے پہلے ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ ان افراد کی فہرست پیش کی جائے جن کیخلاف ترقیاتی اسکیموں میں کرپشن کے مقدمات درج کیے گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔