سیاسی منظر نامے میں الیکشن کا رنگ

ایڈیٹوریل  پير 9 اپريل 2018
ابھی الیکشن تک پہنچنے کی راہ میں کئی رکاوٹیں موجود ہیں جن میں انتخابی حلقہ بندیاں اور نگران حکومتوں کا قیام سرفہرست ہے۔ فوٹو: فائل

ابھی الیکشن تک پہنچنے کی راہ میں کئی رکاوٹیں موجود ہیں جن میں انتخابی حلقہ بندیاں اور نگران حکومتوں کا قیام سرفہرست ہے۔ فوٹو: فائل

ملک کے سیاسی منظرنامے میں الیکشن کا رنگ نمایاں ہو گیا ہے اور ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں الیکشن کو سامنے رکھ کر ہی اپنی حکمت عملی ترتیب دے رہی اور اپنے حریفوں پر تابڑ توڑ حملے بھی کر رہی ہیں۔گو ابھی الیکشن تک پہنچنے کی راہ میں کئی رکاوٹیں موجود ہیں جن میں انتخابی حلقہ بندیاں اور نگران حکومتوں کا قیام سرفہرست ہے‘حکمران جماعت نے اس پر مشاورت بھی شروع کردی ہے۔

ادھر حکمران جماعت کی مشکلات میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ ایک جانب حکمران جماعت کے اہم رہنماؤں پر مقدمات کی فائلیں کھل رہی ہیں تو دوسری جانب پنجاب حکومت  کے اہم ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت کے حوالے سے بھی سوالات پیدا ہو رہے ہیں جس سے اس کی گورننس میں موجود خامیاں سامنے آ رہی ہیں‘بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق جوڈیشل ایکٹو ازم بھی زوروں پر ہے،حکومتی اداروں کی روایتی تساہل پسندی اور عوامی مسائل سے گریز کی پالیسی بھی تنقید کی زد میں ہے۔بے لگام بیوروکریسی پر بھی ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔

سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پر پاناما کیس کے حوالے سے جاری کارروائی بھی آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہے، اس اہم ترین مقدمے کا فیصلہ بھی الیکشن سے پہلے ہی آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے بعض رہنما اور ارکان اسمبلی دوسری سیاسی جماعتوں میں جا رہے ہیں‘ گزشتہ روز تھرپارکر سندھ سے اقلیتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمار مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے‘ انھوں نے اسلام آباد میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی موجودگی میں تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔

اسی روز سانگھڑ سندھ سے مسلم لیگ ن کے ایک اور اقلیتی رکن اسمبلی بھاون داس نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے نواب شاہ میں آصف علی زرداری کی موجودگی میں اپنی شمولیت کا اعلان کیا۔ کئی اور لوگوں کے نام بھی گردش کر رہے ہیں کہ وہ بھی مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں گے۔یوں مسلم لیگ ن خاصی مشکل میں نظر آرہی ہے، الیکشن سے پہلے اس کے لیے سیاسی فضا ناسازگار ہوتی جا رہی ہے۔

بہرحال سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مشکل اور گھمبیر صورتحال سے نمٹنے اور اپنے ارکان کو قابو میں رکھنے کے لیے مسلم لیگ ن کے رہنما کیا حکمت عملی اختیارکرتے ہیں،اس بار انتخابات میں مقابلہ انتہائی سخت ہو گا اور ماضی کی طرح بھاری مینڈیٹ لینا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔

پاکستان کی یہ ہے وہ سیاسی تصویر جس میں ابھی مزید رنگ بھرے جا رہے ہیں۔سیاسی اور موسمی پرندوں کی اڑان جاری رہے گی۔ پاکستان کی سیاست کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں سیاسی موقع پرستوں کو عزت دی جاتی ہے۔ آج مسلم لیگ ن چھوڑنے والوں کو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی قیادت خوش آمدید کہہ رہی ہے حالانکہ حکومت کے آخری ایام میں اسے چھوڑنے والوں پر ابن الوقت سیاستدان ہونے کی پھبتی کسی جاتی ہے۔

اصولی طور پر تو ایسے لوگ کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کا کوئی سیاسی نظریہ ہوتا ہے ، یہ لوگ جمہوری عمل کی مضبوطی کا باعث بننے کے بجائے اس کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں‘ جو سیاسی جماعتیں آج سیاسی موقع پرستوں کو عزت دے رہی ہیں‘ کل مشکل وقت میں یہ انھیں بھی چھوڑنے میں دیر نہیں کریں گے۔ اس پہلو کو ضرور مدنظر رکھا جانا چاہیے۔

غیرجمہوری قوتوں کے مفادات کے لیے کام کرنے والے موقع پرست سیاستدان ہی اصل میں جمہوریت کی ناکامی کے ذمے دار ہیں، بدقسمتی سے یہ عنصر تمام سیاسی جماعتوں میں موجود ہے ، آج ملک کی مین اسٹریم سیاسی جماعتیں بڑی خوش دلی سے اس سیاسی برائی کو اپنے دامن میں جگہ دے رہی ہیں۔ بہرحال ہر سیاسی جماعت اپنی پالیسی اختیار کرنے  میں آزاد ہے۔

ملک میں سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے‘ حکمران جماعت بھی آئندہ الیکشن میں اپنی کامیابی کی دعویدار ہے اور وہ اپنی صفیں درست کررہی ہے، جمہوریت میں ہر سیاسی جماعت کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے لیے سیاسی جدوجہد کرے۔

اگر کوئی سیاسی جماعت کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ سیاسی اتحاد بناتی ہے تو یہ بھی اس کا حق ہے اور اگر کوئی سیاسی لیڈر اپنی جماعت کو چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو یہ بھی اس کا سیاسی و آئینی حق ہے لیکن ملک کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ لیڈر شپ کو سیاسی موقع پرستی اور سیاسی بالغ نظری میں فرق ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور پر الیکشن لڑتی ہیں، جوڑ توڑ یا موقع پرستی جمہوری کلچر کی نشانی نہیں ہوتی۔

اس وقت پاکستان کے ارد گرد کے حالات ساز گار نہیں ہیں‘ پاکستان کے لیے پہلے صرف مشرقی سرحد پر خطرات بیان کیے جاتے تھے لیکن اب شمال مغربی سرحد پر بھی خطرات امڈ آئے ہیں۔ افغانستان کی حکومت کا پاکستان کے بارے میں نظریہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

افغانستان کے حوالے سے ماضی اور حال دونوں خوش کن نہیں رہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے ڈانڈے افغانستان سے ہی ملتے ہیں جس کے ثبوت پاکستان پیش کر چکا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے اور اس پر بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان  افغان سرحد پر باڑھ لگا رہا ہے لیکن افغانستان کی حکومت اس پر خوش نہیں ہے اور اس نے اس حوالے سے کبھی پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔

تحریک طالبان پاکستان کے بھگوڑے دہشت گرد بھی افغانستان میں پناہ گزین ہیں اور وہ وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کو کنٹرول کرتے ہیں لیکن افغان حکومت نے ان کی سرکوبی کے لیے کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد بھی پاکستان میں موجود ہے۔

پاکستان آج تک ان مہاجرین کو واپس نہیں بھیج سکا حالانکہ یہ لوگ پاکستان کے لیے بہت سے مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔ غور کیا جائے تو پاکستان میں افغانوں کے علاوہ وسط ایشیائی، بہاری‘ بنگالی اور افریقی ملکوں کے باشندے بھی بھاری تعداد میں موجود ہیں۔

پاکستان کی افغانستان اور ایران سے ملحق سرحدیں غیر محفوظ ہیں اور یہاں سے لوگوں کی بلاروک ٹوک آمدورفت جاری ہے۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان غیر ملکیوں کے لیے کھلا ملک ہے اور یہاں ہر کوئی بلا روک ٹوک آ جا رہا ہے۔ یہ تو شمال مغربی سرحدوں کا حال ہے‘ اگر مشرق کی جانب آئیں تو بھارت مقبوضہ کشمیر پر قابض ہے اور وہ آئے دن کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے۔

افغانستان اور بھارت ایک دوسرے کے اتحادی بن چکے ہیں جب کہ امریکا ان کی سرپرستی کر رہا ہے۔پاکستان کے خلاف بھارت افغان گٹھ جوڑ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ کی نشاندہی کر رہا ہے۔ یہ ہیں وہ حالات جو پاکستان کو درپیش ہیں‘ ایسے حالات میں پاکستان کو ایک مستحکم سیاسی حکومت کی ضرورت ہے‘ ایک ایسی حکومت جسے اس ملک کے عوام کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہو‘ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کسی کے حق میں نہیں ہے۔

اس لیے ملک کی سیاسی لیڈر شپ کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کو گرانے کے لیے ایسے حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں جس سے سیاسی ابتری میں اضافہ ہو کیونکہ سیاسی انتشار کسی سیاسی جماعت کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔