رموز فربہی سے آگاہی

شکیل صدیقی  پير 9 اپريل 2018

نسخہ بے حد آسان اور اس پر عمل پیرا ہونا ذرا بھی دشوار نہیں۔ آج ہی آزمائیے اور چھ ماہ بعد کسی گدھے کی طرح پھول جائیے۔ ہر شخص نفع نقصان کے چکر میں مبتلا ہے، اس لیے مجھ سے فوراً ہی پوچھا جائے گا کہ موٹا ہوکر مجھے کیا ملے گا؟ فلمسٹار ننھا سے تو آپ بخوبی واقف ہوں گے؟ اسے موٹا ہوکر کیا ملتا تھا؟ فلم نہ سہی ٹیلی وژن پر تو کام مل ہی جائے گا۔ (یہ پیشکش ان لوگوں کے لیے ہے جو ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں اور کچھ نہیں کر رہے یا ان سے کچھ نہیں ہوتا، یا یہ کہ وہ بہت کچھ کر چکے ہیں اور اب کچھ نہیں کرنا چاہتے)۔

ایک معتبر تاریخ داں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی آخری ایجاد چارپائی ہے، جس کی جدید شکل بیڈ ہے۔ یقیناً آپ کے گھر بھی ہوگا۔ اسے لیٹ لیٹ کر توڑ ڈالیے۔ کھانے پینے میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ ہوسکے تو مرغن غذائیں کھائیں اور لیٹ کر ہی ہضم کریں۔ آپ جلد اپنا ہدف پورا کرلیں گے اور کسی گینڈے کی طرح پھول کر کُپّا ہوجائیں گے، انشاء اﷲ۔

آپ کھانے میں وہ کچھ کھائیں جو معالجین نے صحت مند افراد کو منع کر رکھی ہیں، یعنی نفخ اور بادی اشیا، مثلاً آلو، گوبھی، چاول وغیرہ۔ آلو مٹر، آلو بینگن اور آلو چھولے سے بھی شغف کرسکتے ہیں۔ گوشت جتنا زیادہ کھائیں گے اتنا ہی افاقہ ہوگا۔ باہر کی جتنی الم غلم چیزوں سے شغف کرسکتے ہیں، مناسب ہے۔ دورانِ فربہی آئینہ دیکھنے سے اجتناب کریں۔ اگر دیکھیں تو ناف اور زیر ناف دیکھنے سے گریز کریں۔

گھر میں اپنی اہلیہ کو بھی کھلا کھانے کی تلقین کریں، تاکہ دونوں طرف ایک سا معاملہ رہے اور نکتہ اعتراض اٹھانے والا کوئی نہ ہو۔ ویسے بھی پائے اور نہاری کھاتے ہوئے کس کا ہاتھ رکتا ہے۔ نہاری کو بستر پر لیٹ کر ہضم کریں اور اس کی چربی اپنے پیٹ میں جمع کرلیں۔ مچرب اشخاص ہی مرکز نگاہ ہوتے ہیں، لاغر اور منحنی افراد کی طرف کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔

ان اندیشوں کو اپنے قریب نہ آنے دیں کہ جب کپڑا خریدنے جائیں گے تو آپ کو نارمل سے زیادہ کپڑا لینا پڑے گا اور اس کی سلائی بھی زیادہ دینا پڑے گی۔ ایک بات اور دھیان میں رکھنا ہے کہ پتلون قمیص پہننے کے بارے میں بالکل نہ سوچیں۔ کیونکہ پتلون کی ناپ ہوتی ہے، مگر شلوار کا ازاربند ہر ناپ پر باندھا جاسکتا ہے۔

وزن بڑھنے پر کوئی معترض ہو تو آپ کی بلا سے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو وحید مراد یا ندیم نہیں بننا ہے۔ اس پر بھی کان نہ دھریں کہ گھر میں راشن کا خرچ بڑھ رہا ہے اور اہل خانہ بھوکے سو رہے ہیں۔ ہر شخص اپنی قسمت کا کھاتا ہے۔

کھیلوں میں ایسے کھیل کی طرف توجہ دیجیے، جن سے آپ کے جسم و جاں پر کوئی اثر نہ پڑے، مثلاً کیرم، لوڈو یا شطرنج، ڈرافٹ بھی اچھا کھیل ہے اور اس میں جسم کو ہلانا جلانا نہیں پڑتا۔ کرکٹ، فٹبال، ہاکی یا بیڈمنٹن کی طرف بالکل توجہ نہ دیں، یہ جسم و جاں کو جلاتے ہیں۔

فربہ شخص طاقت و توانائی کا مجموعہ ہوتا ہے، آپ کوشش کرکے فولادی سلاخوں کو موڑ سکتے، وزنی چیزوں کو تنہا اٹھا سکتے اور حلیم یا بریانی کی دیگ اکیلے پکا سکتے ہیں۔ (اکیلے ساری دیگ کھا بھی سکتے ہیں) کار خراب ہوجائے تو اسے دھکیل کر مع اہل خانہ گھر تک واپس لا سکتے ہیں۔ (آزمائش شرط ہے) گائے کو اکیلے پچھاڑ کر اسے ذبح بھی کرسکتے ہیں۔ (کھیل کھیل میں قصائی کے اخراجات بھی بچائے جاسکتے ہیں) اسلحے سے پاک لڑائی کے دوران غنیم کو زمین پر چاروں خانے چت گرا کر اس کی پیٹھ پر سوار ہوسکتے اور اس کا کچومر نکال سکتے ہیں۔ ہنگامی حالات میں ہنگاموں سے بچنے کی خاطر اہلیہ کو گود میں اٹھا کر بھاگ سکتے ہیں (واضح ہوکہ اپنی اہلیہ کو) لان سے ناپسندیدہ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پڑوسی کے لان میں پھینک سکتے ہیں۔ سر راہ تربوز اور خربوزہ لے کر اسے چھیلنے اور کاٹنے کی زحمت گوارا نہ کریں، ان پر دباؤ ڈال کر انھیں توڑا اور کھایا جاسکتا ہے۔ (پانی کی کمی ہونے پر بہت سے افراد کو تربوز سے نہاتے بھی دیکھا گیا ہے)

طاقت کا سرچشمہ آپ کے مضبوط بازو اور ٹانگیں ہیں۔ چنانچہ کسی سے نرم لہجے میں گفتگو کرنے کے بجائے اپنا لاؤڈ اسپیکر فل والیوم پر رکھیں تاکہ مخالفین پر شخصیت کا رعب پڑ سکے۔ (بھاری بھرم شخصیت، بھاری بھرکم آواز، ہر مسئلے کا حل ہیں)

دنیا طاقتور اور تندرست لوگوں سے بھری پڑی ہے اور ان کی وجہ شہرت موٹاپا اور فربہی ہے۔ مثال کے طور پر بھولو، گاما اور انوکی وغیرہ۔ ہفتے میں آپ ایک بار ریسلنگ بھی دیکھتے ہوں گے۔ ان کے سب ہی فربہ پہلوانوں کو شہرت و ناموری حاصل ہے۔ ان کی تصاویر اخبارات کی زینت بنتی ہیں اور یہ ٹیلی وژن کے اسکرینوں پر چھائے رہتے ہیں۔ آپ نے کبھی کوئی ڈیڑھ چھٹانکیہ پہلوان دنگل میں چیختا دہاڑتا نہیں دیکھا یا سنا ہوگا۔ ویسے بھی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کا کوئی نوٹس نہیں لیتا، البتہ بھونروں کو دیکھ کر سب ایک طرف ہٹ جاتے ہیں۔

پہلوانی، زور آزمائی اور پنجہ کشی میں صنف نازک ابھی پیچھے ہیں۔ عورتوں کی ریسلنگ ہمارے ہاں مقبول تو بہت ہیں، لیکن عملی طور پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ بہرحال میں مایوس نہیں ہوں۔ عامر خان کی فلم دنگل کا بزنس دیکھ کر انڈیا میں غالباً لڑکیاں میدانِ عمل میں کود پڑیں اور والدین کا نام روشن کرنے کی تدبیریں کریں۔ امید ہے کہ فیشن کے طور پر ہمارے ہاں کی خواتین بھی دنگل میں کود پڑیں گی اور مردوں (م پر زبر ہے) کے چھکے چھڑا دیں گی۔ سڑک چھاپ عاشقوں کا جنازہ نکال دیں گی۔ وہ کچھ کر ڈالیں گی جو اب تک نہیں ہوا۔

کالم مکمل ہونے والا ہے، مجھے الجھن ہورہی ہے کہ بات آپ کی سمجھ میں آئی یا نہیں۔ موٹاپے سے آپ نے یہ مطلب تو اخذ نہیں کیا کہ میں عقل کی موٹائی کی بات کر رہا ہوں؟ حاشا و کلا عقل جتنی باریک اور تیز ہوگی آپ زندگی میں کامیاب و کامران ہوں گے، ورنہ اندھے کنویں میں جا گریں گے۔ چنانچہ عقل کو ہرگز موٹا نہ ہونے دیجیے۔ اسے دھار لگاتے رہیے۔ عقل بند ہونے کے بجائے آپ کو عقل مند ہونا ہے۔ بزرگ اس سے نالاں رہتے ہیں جس کی عقل گھٹنوں میں ہوتی ہے (لازم ہے کہ آپ پابندی سے اپنے گھٹنے چیک کرتے رہیں)

اسی وقت آپ کا شمار بھی چوپایوں کے بجائے دو پایوں میں ہوگا، جب آپ تو فربہ ہوں، لیکن آپ کی عقل فربہ نہ ہو۔ ان کے مابین فرق سے تو آپ کو آگاہی ہوگی؟ ایک ناشتے میں گھاس کھاتا ہے اور دوسرا انڈا پراٹھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔