عشق تماشہ

شیریں حیدر  پير 9 اپريل 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

لاہور، عسکری- 10 میں ایک خاتون نے اپنے تین بچوںکو قتل کر دیا… طریقہء واردات یہ رہا کہ اس نے ان کے منہ پر جاء نماز رکھ کر ان کی سانس بند کر کے مار دیا… ایک خبر- پہلی نظر میں ایسی خبر پڑھ کر پہلا خیال جہالت، غربت اور تنگدستی کا ہی آتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔

تفصیلات کے مطابق انیقہ نامی خاتون نے ان بچوں کو اس لیے مار دیا کہ ان کے باپ سے طلاق لینے کے بعد وہ کسی اور شخص کے ساتھ ’’مبتلا‘‘ ہوگئی، اس عشق میں جو اچھے خاصے انسان کی مت مار دیتا ہے اور چونکہ اس کے نئے معشوق کو بچوں کی ضرورت نہ تھی، بلکہ غالبا وہ اس کی راہ میں رکاوٹ تھے، ان کے اپنے باپ نے انھیں نہ اپنایا تو کوئی اور کیا اپناتا۔

سو انیقہ بی بی کے پاس اپنے محبوب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے واحد حل یہ تھا کہ ان بچوں کو قید زندگی سے آزاد کر کے، خود بھی آزادی پا جائے۔ اسنے اپنے تین بچوں کنیز فاطمہ، محمد ابراہیم اور زین العابدین کواس طرح قتل کیا کہ ایسی درندگی شاید ہت چشم فلک نے دیکھی ہو گی۔

جانے بچوں کی سانس کس طرح اور کتنی دیر میں بند ہوئی، کتنی دیر تک وہ اپنے ناتواں وجود کے ساتھ ہاتھ پاؤں مارتے رہے ہوں گے کہ وحشت کے جس سمندر میں انھیں ان کی ماںاتار رہی تھی، اس میں سے تیر نکلنے کی کوئی صورت… مگر انیقہ بی بی پر سوار عشق کے جنون نہیں بلکہ جن نے اسے وہ طاقت دے دی تھی جس سے اس نے ان ننھے بچوں پر قابو پا لیا، جنھیں اس نے چند برس قبل موت و حیات کی جنگ جیت کر جنم دیا ہو گا۔ ایک عام ماںکی طرح ان کے حوالے سے سپنے دیکھے ہوں گے۔ وہ معصوم کہ جن کے ماں باپ کے مابین کبھی محبت پروان نہ پا سکی مگر ہوس کے وحشی جذبات کا ثمر دنیا میں آ گیا، وہی ثمرانیقہ بی بی کے عشق کی راہ میں دیوار بن گیا اور بالآخر اپنے انجام کو پہنچا۔

کھاریاں کاایک نواحی گاؤں، بھدر (میراگاؤں) ، اگلے روز ٹیلی وژن پر علی الصبح خبروں میں پکارا جا رہا تھا، پہلی بار… مگر خبر کوئی اچھی نہ تھی۔ مبشر نامی ایک شخص نے اپنے گھر کے چھ ؍ سات افراد کو گولیوں سے چھلنی کرنے کے بعد خود کشی کر کے، اپنے جرم کی سزا خود ہی چن لی۔ اس کی بھابی مقدس، بیٹی مناہل، بھتیجا معاشر، بھتیجی فاطمہ مدثر، بھتیجا زین مدثر اورایک وہ بے نام کہ جسے مقدس کے بطن سے ایک ماہ کے بعد جنم لینا تھا …

مذکورہ قاتل بھی کوئی جاہل یا پاگل نہیں تھا بلکہ وہ بھی مبتلائے عشق ہو گیا تھا اور اپنی زوجیت میں دوسری بیوی کے ہوتے ہوئے، تیسری شادی کی خواہش پال بیٹھا تھا۔ گھر والوں کی طرف سے مخالفت کے باعث، اس نے یہ انتہائی اقدام اٹھایا جو رہتی نسلوں تک اس گاؤں کی تاریخ بن گیا ہے۔ ایک حساس ادارے کی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد اب وہ ایک بینک میں سیکیورٹی گارڈ کی ڈیوٹی کر رہا تھا۔

ہر روز رات کی ڈیوٹی کے بعد سویرے آٹھ بجے بینک سے نکلتا تھا، اس روز وہ مقررہ وقت سے دو گھنٹے پہلے نکلا، اسلحہ جو کہ وہ ڈیوٹی کے دوران استعمال کرنے کا اختیار رکھتا تھا ور واپسی پر جمع کروانا ہوتا تھا، اس روز وہ اسلحہ وہ اپنے ساتھ ہی لے کر آ گیا اورجس وقت گاؤں کے سارے گھروں میں ناشتہ بنانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں، اسکولوں کو جانے والے بچے تیار ہور ہے تھے، کسان کھیتوں میں جا چکے تھے، دکانیں کھل رہی تھیں، اسکول نہ جانے والے بچے ابھی تک میٹھی نیند میںتھے… گاؤں کی فضا میں وہ شور اٹھا جو کہ آج دن تک کسی نے نہیں سنا تھا۔ اس سے بہت سال قبل اسی گاؤں میں ، ایک شخص کو کم از کم پچاس گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ مبشر نامی اس ماہر نشانہ باز نے ہر گولی سے ایک شکار کیا اور بالآخر خود کا خاتمہ کر کے ہر مقدمے، ہر سوال جواب، ہر لعن طعن سے نجات پا گیا۔

ہم ڈرامے دیکھتے ہیں، فلمیں بھی اور اخبارات بھی پڑھتے ہیں، بہت سے واقعات کو جان کر دماغ اور دل پر دنوں تک اثرات رہتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ کیا واقعی اس دنیا میں ایسا کچھ ہوتا ہے جیسا کہ ڈراموںمیں دکھایا جاتا ہے اور عموما جواب یہی ہوتا ہے کہ نہیں… ایسا نہیں ہے، ڈرامہ بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا نام ہے۔ ڈرامے میں ڈرامے کا عنصر نہ ہو تو اسے ڈرامہ کون کہے۔

ان دونوں واقعات نے بری طرح میرے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، میں تو ہمیشہ سے محبت اور عشق کو اور ہی طرح جانتی تھی، مجبت کرنے والوں کے دل تو نرم ہوتے ہیں اور عشق کی انتہا کو پہنچ جانے والے تو پا لینے اور کھو لینے کے فرق سے بھی بے نیاز۔ یہ کیسا جذبہء محبت ہے جو ان دونوں واقعات اور اسی نوعیت کے دیگر واقعات کے پس منظر میں کارفرما ہوتا ہے؟ اسے محبت تو نہیں کہا جا سکتا، عشق بھی نہیں، عشق تو محبت کے جذبات کی معراج کو کہتے ہیں۔ ہم تو وہ عاشق اور محب بنے پھرتے ہیں جن کی کوئی اخلاقیات ہیں نہ اقدار۔ گھٹیا، سستا، مطلبی، بازاری اور کمینہ عشق۔ کیونکہ ہم ہمیشہ سے سنتے اور کتابوں میں پڑھتے آتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے، عشق انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے، عشق نہ پچھے ذات، عشق نے نکما کر دیا…

سچا عشق تو ہوتا ہی اس ذات با صفات سے ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں… عشق کی انتہا پر پہنچ کر انسان نبی یا ولی کہلاتا ہے… صوفی کہلاتا ہے۔ عشق کو سمجھ لینے والا اور اس کا پرچار کرنے والاشمس تبریز کہلاتا ہے، عشق میں محرومی ہی اس کا اصل نچوڑ ہے، تشنگی اور خلش عشق کا وہ میو ہ ہے جس کی لذت سے ہر کوئی آشنا نہیں ہوسکتا، اس سے آشنا ہونے والا رومی بن جاتا ہے۔ فرہاد، رانجھا، مہینوال، مجنوں، پنوں، مرزا اور مرادکے نام سے جانا جاتا ہے اور امر ہو جاتا ہے۔

عشق حقیقی کے بعد مجازی عشق بھی وہ لوگ کر گئے کہ جن کے نام داستانیں بن کر تاریخ میں رقم ہو گئے۔ کوئی کچے گھڑے پر تیر کر دریا پار کرتے ہوئے ڈوب گئی، کسی نے صحراؤں کی خاک چھانی، کسی کو اپنے محبوب کے لیے دودھ کی نہر کھود نے کا مرحلہ درپیش ہوا، کوئی عشق میںدیوانہ ہو کر مجنوں کہلایا، مگردیوانگی کی انتہا پر بھی پہنچ کر، فرزانگی کے مراحل طے کرتے ہوئے بھی اور عشق میں ناکام ہو کر بھی… کسی نے کسی انسان تو کجا، کسی بے زبان جانور تک کی جان نہ لی۔

اب تو سب تو دھوکا ہے، عشق اور محبت کے نام پر ڈھونگ ہیں۔ اب محبت اپنی ذات کے سوا کسی اور سے کم ہی ہوتی ہے۔

جسے دیکھو عاشقی کا چولا پہنے نظر آتا ہے، گلی گلی ایسے عاشقوں کی قطاریں ہیں… جو صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ عشق سفلہ ہو جائے تو انسان کے نفس کو لالچی کتا بنا دیتا ہے، وہ اپنی ہڈی چھوڑ کر دوسرے کی طرف لپکتا ہے… جب کتا ہی بننا ٹھہرا تو وہ کتا بننے میںکیا حرج ہے جو مالک کا وفادار ہوتا ہے، مالک کی خوشبو سونگھ کر ہی اپنے وجود کو اس کے قدموںمیں ڈھیر کردیتا ہے، جس در سے ایک بار محبت اور ہڈی یا روٹی کا ٹکڑا مل گیا، مرتے دم تک اسی در کی غلامی کرتا ہے۔

یہ کیا عشق ہوا کہ جو انسان سے عقل چھین لے، اس سے رشتوں کی پہچان اور حرمت، حلال اور حرام کی تمیز اور جائز اور نا جائز کی تفریق چھین لے؟ گناہ اور ثواب کے مابین جو سرحد ہے، اسے وہ پھلانگ لے، حواس پر ہوس اس طرح طاری ہو جائے کہ حواس کھو بیٹھے۔ ایک انسان کی محبت پر انسان کتنے ہی انسانوں کی صرف محبت ہی نہیں بلکہ جانیں بھی قربان کر دے۔ کیا یہ عشق یا محبت کہلانے کے قابل ہے؟

کیسا عشق ہے یہ کہ جو انسان کو مبشر رفیق انیقہ بی بی جیسی سفاکی کا ہدیہ دیتاہے؟ اپنی اولاد کہ جس کی خوشی کی خاطر انسان جیتاہے، وہ اولاد اپنے ہاتھوں سے ختم کرنے والا انسان تو کیا، کوئی جانور بھی نہیں ہو سکتا۔ جانور بھی اپنی اولاد اور نسل کی بقا کی خاطر خود سے زیادہ طاقتور جانور سے بھڑ جاتا ہے، ہر عفریت کا مقابلہ کرتا ہے، اپنی جان گنوا کر بھی اپنے بچے کی جان بچاتا ہے، مگر ہم انسان جانے کس جنگل کے باسی ہیں کہ ہماری سوچ جانوروں سے بھی بد تر ہو گئی ہے !!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔