بھارتی مسلمانوں کا کنفیوژن؟

تنویر قیصر شاہد  پير 9 اپريل 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ویسے تو یہ کہا جاتا ہے کہ بھارتی ہندوؤں میں ذات برادری کا تعصب اور اونچ نیچ کی لعنتیں بہت مضبوط اور مروّج ہیں۔ یہ برائیاں اُن بھارتی مسلمانوں میں بھی پوری طرح پائی جاتی ہیں جو خود کو اعلیٰ ذات اور اونچی برادری سے منسلک کیے ہُوئے ہیں۔

یہ حقائق بھارت کے ممتاز مسلمان محقق جناب مسعود عالم فلاحی نے اپنی تازہ معرکہ آرا کتاب’’ ہندوستان میں ذات پات اور مسلمان‘‘ میں پوری صحت اور مستند حوالوں کے ساتھ سب کے سامنے پیش کر دیئے ہیں۔ پاک و ہند کے مشہور اور معروف مسلمان علماء کے فتوؤں کے ساتھ مصنف اور محقق مسعود فلاحی(جنھوں نے پہلے باقاعدہ دینی تعلیم حاصل کی،پھرمدرسہ’’جمعیت الفلاح‘‘ سے سندِ علمیت حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈگری لی اور پھر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی  کی، اس کتاب کے موقر ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے پانچ سو سے زائد حوالے دئیے ہیں۔

یوں کہا جاسکتا ہے کہ آج بھارت کے وہ مسلمان جو زیادہ خوشحال ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور جن کے پاس اعلیٰ سرکاری عہدے ہیں، وہ اور اُن کے بچے اپنے اسٹیٹس کے ہندو لڑکوں اور لڑکیوں سے شادیاں رچانے میں کوئی عار یا قباحت نہیں سمجھ رہے۔ بھارت کے سابق مسلمان وزیر خارجہ،سلمان حیدر،ہی کی مثال لے لیجئے۔اُن کے بڑے صاحبزادے، ندیم حیدر، نے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو لڑکی سے شادی کررکھی ہے۔

اس خاتون کا نام سوہاسنی حیدر ہے۔ دلکش نقوش کی حامل یہ محترمہ بھارت کی معروف لکھاری خواتین میں سے ایک ہیں۔ وہ سفارتکاری کے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہُوئے ہمیشہ پاکستان کے خلاف زہر فشانی کرتی ہیں۔ مشہور بھارتی مسلمان(اور سابق سفارتکار) کی یہ بہو صاحبہ بھارت کی متعصب اور مسلمان دشمن سیاسی و مذہبی جماعت( بی جے پی) کے ممتاز دانشورسیاستدان، سبرامینین سوامی، کی صاحبزادی ہیں۔

یہ بات سب کے علم میں ہے کہ بھارت کے جتنے بھی مشہور ترین مسلمان اداکار اور اداکارائیں ہیں، اُن میں سے اکثر کی بیویاں اور شوہر ہندو ہیں۔عامر خان، سیف علی خان، شاہ رخ خان کی گھر والیاں سب ہندو ہیں۔ سیف علی خان کی ہمشیرہ سوہا، جو خود بھی ایک بڑی اداکارہ ہیں، نے حال ہی میں ایک ہندو لڑکے سے شادی کی ہے۔ تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ بھارتی مسلمان اشرافیہ اور دولتمند بھارتی مسلمانوں کے نزدیک اپنے مذہب کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی؟یا وہ ایک اکثریتی ہندو ملک کے سماجی جبر کا شکار ہو گئے ہیں؟

بھارتی سیاست و صحافت کا باقاعدہ مطالعہ میرا شغف ہے۔ گذشتہ روز بھارتی اخبارات کی برقی’’ورق گردانی‘‘ کرتے ہُوئے ایک عجب خبر نظر سے گزری۔ بھارت میں ٹیپو سلطان شہید کی تاریخی مسجد کے ’’شاہی امام‘‘ مولانا نورالرحمن برکاتی صاحب نے فرمایا:’’ بھارت بھر کا کوئی بھی مسلمان اگر بی جے پی یا آر ایس ایس میںشامل ہوتا ہے یا اِن جماعتوں کے لیے کام کرتا ہے تو ہم اُسے روحانی سزا بھی دیں گے، اُس کی چھترول بھی کریں گے اور اُسے دائرہ اسلام سے بھی خارج کردیں گے۔‘‘ سرخ حنائی ڈاڑھی والے حضرت مولانا برکاتی صاحب سے جب یہ پوچھا گیا کہ حضور، کیا یہ فتویٰ ہے تواُنہوں نے فرمایا:نہیں، فی الحال یہ وارننگ ہے!!

بھارت کے وہ کئی ممتاز اور معروف مسلمان سیاستدان جو پہلے ہی ’’بی جے پی‘‘ اور ’’آر ایس ایس ‘‘کے باقاعدہ رکن ہیں ،عہدیدار ہیں اور کئی ایک مرکزی اور صوبائی وزرا بھی ہیں، مولاناصاحب اُنہیں کس طرح سزا دے سکیں گے؟ بی جے پی نے تو اپنا ایک علیحدہ سیاسی ونگ (بی جے پی مینارٹی مورچہ)بنا رکھا ہے جس میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔ ’’آر ایس ایس ‘‘نے بھی’’مسلم راشٹریہ منچ‘‘کے نام سے ایک الگ وِنگ بنا رکھا ہے۔ اس کے سارے ارکان بھی بھارتی مسلمان ہیں۔

برکاتی صاحب ان سب کو دائرئہ اسلام سے کیسے خارج کر سکیں گے؟ مشہور بھارتی مسلمان ایکٹوسٹ خاتون ،آصفہ خان، تو بی جے پی کی ترجمان ہیں۔ مختار عباس نقوی بی جے پی حکومت کے مرکزی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور اور ایم جے اکبر( مشہور بھارتی مسلمان صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف ) بھی بی جے پی حکومت ہی کے مرکزی وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ ہیں۔

سید شاہنواز حسین بھی مودی جی کے معتمدین میں شمار ہوتے ہیں۔ایسے پیش منظر میں ’’محتسب‘‘ مولانا برکاتی صاحب کا احتسابی ہاتھ ان ممتاز اور موثر بھارتی مسلمانوں تک کیسے پہنچ سکے گا؟ راجیہ سبھا(بھارتی سینیٹ ) کے ایک مسلمان رکن جو مرکزی وزیر بھی ہیں کی اہلیہ ، جو معروف شاعرہ بھی ہیں، بھی ہندو ہیں(اس مسلمان وزیرکے سسر ایک کٹر ہندو لیڈر ہیں اور اُن کا نام اشوک سنگھال ہے)بی جے پی کے ایک اور بڑے مسلمان لیڈر کی اہلیہ(رینو) بھی ہندو ہیں ۔ اُن صاحب کے سسر بھی مشہور بھارتی اور اسلام دشمن ہندو لیڈر ،مرلی منوہر جوشی ،ہیں۔

یہ وہی جوشی ’’صاحب‘‘ ہیں جنھوں نے بابری مسجد شہید کرنے میں بنیادی کردار ادا کیاتھا اور جو ’’وشوا ہندو پریشد‘‘ایسی مسلمان دشمن پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے حال ہی میں جن تشدد پسند بھارتی ہندولیڈروںکے خلاف(بابری مسجد شہید کرنے کے الزام میں)دوبارہ مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے،اُن میں یہ مرلی منوہر جوشی بھی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مولانا برکاتی صاحب ان طاقتور ہندو لیڈروں کے مقتدر مسلمان دامادوں کی پٹائی کرنے میں کیسے کامیاب ہوسکیں گے؟

اِن لوگوں کی یہ طاقت ہی ہے جس کا تذکرہ بھارت ہی کے ایک اور مشہور مسلمان سیاستدان ،اعظم خان، نے ذرا دوسرے انداز سے کیا ہے۔ اعظم خان بھارتی علاقے ،رامپور، سے صوبائی اسمبلی کے منتخب رکن ہیں۔ اُنہوں نے پچھلے دنوں اُتر پردیش میں بی جے پی کے اسلام دشمن وزیر اعلیٰ، ادیتیہ ناتھ یوگی ، کو طنزیہ طور پر مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا:’’انھوں نے مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے Love Jehad ایسی اصطلاحیں گھڑی ہیں۔ ایسی اصطلاحوں کا نام لے کر ان ہندو لیڈروں کا کہنا ہے کہ بھارتی مسلمان عشق و محبت کا جہاد شروع کر کے ہندو لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں اور پھر اُنہیں اپنے دھرم میں شامل کر لیتے ہیں۔

یوں لگتاہے جیسے بھارتی مسلمان شدید قسم کے کنفیوژن یا Dilemmaکا شکار بن چکے ہیں۔ خود کو بھارت دوست ثابت کرنے کے لیے وہ پاکستان پر شدید منفی تنقید کرتے بھی سنائی اور دکھائی دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کینیڈین شہری طارق فتح کے انڈین ٹی وی ٹاک شو ’’فتح کا فتویٰ‘‘میں شریک ہونے والے کئی بھارتی مسلمان علماء کی پاکستان کے خلاف دل آزار لب کشائی۔

اِن بھارتی علماء کے اسمائے گرامی یہ ہیں:مفتی محمد فاروق قاسمی گنگوہی،آل انڈیا تنظیم الاسلام کے سیکریٹری جنر ل مولانا محمد سخی راٹھور، خواجہ غریب نواز فاؤنڈیشن کے سربراہ مولانا انصار رضا،آل انڈیا امام ایسوسی ایشن کے صدرمولانا ساجد راشدی،مولانا عتیق الرحمن،مولانا مفتی ضیائی اور ایس اے ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے چئیرمین مولانا سید صوفی فیاض علی وغیرہ۔

پچھلے دنوں بھارتی ٹاک شو’’آپ کی عدالت‘‘ میں مشہور بھارتی اسلامی درسگاہ، مدرسہ دیوبند، کے سربراہ مولانا محمود مدنی صاحب (جو جمعیت علمائے ہند کے سیکریٹری جنرل بھی ہیں) شریک ہُوئے۔

ٹی وی شو کے میزبان،رَجت شرما، کے ایک سوال پر حضرت مولانا محمود مدنی صاحب نے جہاں پاکستان پر  سخت اور دل آزار تنقید کی،وہاں’’را‘‘ اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا تخلیق کیا گیا یہ جھوٹ بھی دہرا دیا کہ ’’پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں بہت مظالم ڈھائے تھے اور بنگالی مسلمان خواتین سے بے پناہ زیادتیاں کی تھیں۔‘‘ بھارت کے نامور دیو بندی ذمے دار عالمِ دین کایہ انٹرویو،جو اب بھی یو ٹیوب پر پڑا ہے، سُن کر دلی صدمہ پہنچا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔