سعودی عرب میں تبدیلی کی لہر

مقتدا منصور  پير 9 اپريل 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم پڑھنے سے دل چراتے ہیں۔ صرف سنی سنائی پر یقین کرلیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں عالمی اور قومی حقائق کے بارے میں واجبی سی آگہی ہوتی ہے۔ جو کچھ اِدھراُدھر سے مل گیا، اس پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیا۔ جب کہ معاملات ومسائل خواہ وہ مقامی ہوں کہ قومی، علاقائی ہوں کہ بین الاقوامی، ان کی جڑیں تاریخ میں کیے گئے فیصلوں اور اقدامات میں پیوست ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ معاملات ومسائل کا باریک بینی سے تقابلی جائزہ نہیں لیتے، وہ ہوش کے بجائے جوش کا شکار ہوکر وہ کچھ کر گزرتے ہیں، جس کا نقصان خود انھیں اور ان کے معاشرے کو پہنچتا ہے۔

اس وقت دنیا کے چند مسلم ممالک بالخصوص پاکستان میں معصوم دل مسلمان سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کے بعض اقدامات اور واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے حالیہ انٹرویو کی وجہ سے خاصے  دل گرفتہ اور پریشان ہیں۔ ان کا معاملہ بالکل ان کمیونسٹ بنیاد پرستوں جیسا ہے، جو 1993ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد شدید Depression کا شکار ہوگئے تھے۔ جس طرح وہ یہ بھول گئے تھے کہ انسانی سماج تسلسل کے ساتھ ارتقائی عمل میں رہتا ہے اور تاریخ جامد نہیں ہوتی۔ اسی طرح سادہ لوح مسلمان بھی شاید یہ نہیں جانتے کہ ریاستیں عقیدے، لسان، قوم اور قبائلی شناخت کو اپنے مخصوص مفادات کے لیے جب چاہتی ہیں استعمال کرتی ہیں اور جب چاہتی ہیں، ان سے صرف نظر کرلیتی ہیں۔

لہٰذا سعودی ولی عہد اور حقیقی حکمران شہزادہ محمد کے اقدامات کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اپنے علم اور سیاسی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے بعض ایسے اقدامات کیے ہیں، جنھوں نے قدامت پرست حلقوں کو اچنبھے میں مبتلا کردیا ہے۔ حالانکہ یہ دنیا کی واحد پشتینی حکمرانی کو بچانے کی آخری کوشش ہے۔ خواتین کو اکیلے ڈرائیونگ اور کاروبار کرنے کی اجازت اور مختلف انتظامی شعبہ جات میں تقرریوں کے علاوہ ملک بھر میں سینماگھروں کی تعمیر اور ساحلی علاقوں میں کیسینوز کھولنا وغیرہ دراصل حکمرانی میں پائے جانے والے جمود اور خرابیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔

چند روز قبل انھوں نے واشنگٹن پوسٹ کو جو انٹرویو دیا ہے، اس میں وہ مزید کئی قدم آگے بڑھتے نظر آئے ہیں۔ کیونکہ اس انٹرویو میں انھوں نے دو امور کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔ اول، وہ اپنے ملک میں سخت گیر بنیادپرست یا قدامت پسند مذہبی بندشوں کو ڈھیلا کرکے ملک میں عقیدے کی اعتدال پسندی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ دوئم، یہودیوں کو اپنے مادر وطن میں رہنے کا حق حاصل ہے۔ یہ دونوں بیانات اگر ایک طرف صحتمند فکری رجحان کو ظاہر کررہے ہیں، تو دوسری طرف ایران پر ان کی شدید تنقید اور رویہ، امت مسلمہ کے درمیان ایک نئی سرد جنگ شروع کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

اس لیے عرض ہے کہ کسی بھی دور میں ہونے والے اقدامات کو عقیدے یا قومی ولسانی نکتہ نظرسے دیکھنے کے بجائے اس دور کے معروضی سیاسی حالات اور تبدیل ہوتی عالمی سیاست کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو عمیق مطالعہ کی متقاضی ہوتی ہے۔ مگر ہم مطالعہ سے صرف نظر کرتے ہیں، اس لیے جنم لینے والے نئے معاملات ومسائل کا غیر جذباتی طور پر صحیح ادراک نہیں کرپاتے اور ہمیشہ غلط تصورات کا شکار رہتے ہیں۔

آئیے اپنی گفتگو کو بیسویں صدی کے اوائل سے شروع کرتے ہیں، جو عالمی سیاسی منظرنامہ میں ایک اہم موڑ (Turning Point)کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دور میں برطانیہ ایک بڑی عالمی طاقت ہے، جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ جرمنی کے ساتھ تعلقات میں بدترین کشیدگی آچکی ہے اور کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔ ترکی یورپ کے دہانے پر موجود ایک بڑی سلطنت (عثمانیہ) کا مرکز ہے، جس کا پھیلائو مشرق وسطیٰ سے مغربی افریقہ تک ہے۔ مگر عثمانیہ سلطنت روبہ زوال ہے۔

یورپ میں ہونے والی صنعتی معاشرت کے اثرات حکمرانوں کی نااہلی کے سبب اس تک نہیں پہنچ رہے۔ اسے یورپ کا مرد بیمار قرار دیا جارہا ہے۔ برطانوی سائنسدانوں کے تجربات بتا رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ (شمال مغربی افریقہ تک) میں زیر زمین ایسا مادہ موجود ہے، جسے آنے والے وقتوں میں سستے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاسکے گا۔ برطانوی یہودیوں کی تنظیم Zionist Federation of Britain برطانوی حکومت پر مسلسل دبائو ڈال رہی ہے کہ انھیں ان کا آبائی وطن واپس دلایا جائے۔ یہ مختصر منظرنامہ ہے بیسویں صدی کی پہلی ڈیڑھ دہائی کا۔

پہلی عالمی جنگ میں عثمانیہ سلطنت نے جرمنی کا ساتھ دیا۔ جس کی وجہ سے برطانیہ کو اس خطے میں ریشہ دوانیاں کرنے کا موقع مل گیا۔ برطانیہ نے ایک طرف انتہائی منظم انداز میں عرب دنیا میں عرب نیشنلزم کو فروغ دیا۔ اس مقصد کے لیے حجاز کے حکمران حسین بن علی کو خصوصی طور پر استعمال کیا۔ جنھوں نے جنگ میں ترکی کی شکست کے بعد سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرکے 1916ء میں حجاز مقدس پر اپنی حکمرانی کا اعلان کردیا۔ جو 1925ء تک بلاشرکت غیرے حجاز کے حکمران رہے۔ ساتھ ہی مختلف قبائل نے بھی آزادی کا اعلان کردیا۔ یوں پورا مشرق وسطیٰ چھوٹی بڑی امارتوں میں منقسم ہو گیا۔ دوسری طرف برطانوی سیکریٹری آف اسٹیٹ آرتھر بالفور نے برطانوی یہودیوں کی تنظیم کے سربراہ لارڈ روتھ چائلڈ کو ایک خط کے ذریعہ اسرائیلی ریاست کے قیام کی یقین دہانی کرا دی۔

اب آل سعود کی طرف آتے ہیں۔ یہ جنوب مشرقی عربستان میں نجد کے اطراف میں صدیوں سے آباد ایک قبیلہ رہا ہے۔ اس کے ایک سردار محمد ابن سعود نے نجد کے ایک عالم عبدالوہاب النجدی سے 18 ویں صدی میں تحریری معاہدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد اسلام کا سلفی طرز حیات پورے عربستان میں نافذ کریں گے۔ یوں عبدالوہاب کی حمایت اور تعاون سے آل سعود کی پہلی ریاست 1744 میں نجد کے اطراف میں قائم ہوئی۔ انھوں نے کئی بار حجاز مقدس پر حملے بھی کیے، جس میں انھیں کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ 1902ء کے آنے تک جنوب مشرقی عربستان کا بڑا حصہ ان کے زیراثر آچکا تھا۔

حسین بن علی نے جب فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کو قبول کرنے سے انکار کیا، تو برطانیہ نے آل سعود سے رابطہ کیا۔ شاہ عبدالعزیز نے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کو اس شرط پر قبول کیا کہ پورے جزیرہ نما پر ان کا حق حکمرانی تسلیم کیا جائے۔ لہٰذا حکومت برطانیہ نے حجاز پر ان کے قبضے میں ہر ممکن مدد کی۔ جب کہ عثمانیہ سلطنت کے خلاف بغاوت میں نمایاں کردار ادا کرنے پر شریف مکہ کے دو بیٹوں فیصل اول کو سلطنت عثمانیہ کے تین صوبوں بغداد، بصرہ اور موصل پر مشتمل ریاست عراق کے نام سے قائم کرکے دی۔ جب کہ دوسرے بیٹے عبداللہ کو دریائے اردن کے کنارے فلسطین اور شام کے مختلف علاقہ جات پر مبنی نئی ریاست قائم کرکے دی۔

جب یورپی یہودی فلسطین میں بڑی تعداد میں املاک خرید کر وہاں آباد ہوگئے اور علاقے کی سیاسی وحدانیت ختم ہوگئی، تو برطانیہ کو اپنے مشن کی کامیابی کا یقین ہوگیا۔ لہٰذا اس نے دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ کے بعد 14 مئی 1948ء کو اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔ چونکہ فلسطینی مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے مسلمان اس ریاست کے قیام کی مخالفت میں کمربستہ ہوگئے۔ جس کی وجہ سے سعودی حکمرانوں کو برطانیہ سے کیا گیا اپنا معاہدہ پس پشت ڈالتے ہوئے مسلمانوں کی اکثریت کا ساتھ دینا پڑا۔

لیکن اب جب کہ عالمی منظرنامہ خاصی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوچکا ہے، سعودی حکمران اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ دنیا میں موجود ان کی واحد پشتینی بادشاہت کا قائم رہنا اب مشکل ہوتا جارہا ہے۔ لہٰذا محسوس ہورہا ہے کہ شاہی خاندان یہ سمجھ چکا ہے کہ جاری طرز حکمرانی کو تبدیل اور سابقہ ادوار میں کیے گئے سخت گیر اقدامات میں نرمی نہیں لائے بغیر سعودی ریاست کو بچانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ طے کیا گیا ہے کہ عوام کے کئی دہائیوں سے سلب کردہ ان گنت حقوق میں سے چند ایک تک ان کی رسائی کو ممکن بنادیا جائے۔ اس لیے سعودی حکمرانوں کے اقدامات کو عقیدے کی عینک سے دیکھنے کے بجائے معروضی عالمی منظرنامہ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔