کشمیر پاکستان کی شہ رگ

شکیل فاروقی  منگل 10 اپريل 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

بھارتی فوج نے گزشتہ یکم اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز بربریت اور بد ترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 20کشمیری نوجوانوں کو شہید اور 100 سے زائد کو زخمی کردیا ۔ اس المناک سانحے پر پوری مقبوضہ وادی میں غم وغصے کی شدید لہر دوڑ گئی اور مکمل ہڑتال کی گئی ۔ ظالم اور جابر بھارتی حکمرانوں کی طرف سے نہتے حریت پسند کشمیریوں کے خون سے آئے دن ہولی کھیلنا ایک معمول بن گیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں بسنے والے مظلوم اور نہتے مسلمانوں کا بہتا ہوا خون عالمی امن کے علم برداروں اور اقوام متحدہ کے لیے ایک سنگین اور کھلا چیلنج ہے۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر ایک عجیب بے حسی طاری ہے اور وہ اپنے مسلمان بھائیوں پر روز و شب ڈھائے جانے والے قیامت خیز مظالم کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود محض خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

ایسے گونگے کہ جیسے ان کے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔ اسے ہماری ڈپلومیسی کی ناکامی کہیے یا بھارت کی عیاری کہ عرب اور دیگر مسلم ممالک کے پاکستان سے زیادہ بھارت کے ساتھ تعلقات استوار ہوچکے ہیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ بھارت کے پردھان منتری ایک مسلم ملک میں مندر کی تعمیر کے لیے سنگ بنیاد بھی رکھ چکے ہیں۔

وائے ناکامی متاع کاررواں جاتا رہا

کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اس صورتحال پر جس کا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہے۔ دراصل مسلم امہ کی رسوائی اور جگ ہنسائی میں زیادہ تر قصور اس کے اپنے ہی رویوں کا ہے۔ مسلم ممالک اپنے مرکز سے ہٹ کر آپس کی پھوٹ کا شکار ہونے کے نتیجے میں اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ ان کی اسی دگرگوں حالت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا:

یوں تو سید بھی ہو‘ مرزا بھی ہو‘ افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟

بھارت کی بے ایمان قیادت نے روز اول سے ہی دہرا معیار مقرر کر رکھا ہے۔ اس نے حیدر آباد دکن کو یہ کہہ کر ہڑپ کر لیا کہ وہاں کی اکثریت ہندوؤں پر مشتمل ہے اس لیے اسے بھارت کا حصہ ہونا چاہیے۔ لیکن کشمیر کے بارے میں اس کا پیمانہ بالکل بدل گیا جہاں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کی بنا پر کشمیر پاکستان کو ملتا۔ لیکن بے ایمان بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے جو اس کے اپنے دعوے اور استدلال کی نفی ہے۔

یہ بھارت ہی تھا جو کشمیر کے مسئلے کو لے کر اقوام متحدہ میں لے کر گیا اور پھر استصواب رائے کی بنیاد پر اسے حل کرانے سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد سے منکر ہوگیا۔ کشمیر کے بارے میں بھارت کی پوزیشن قانونی اور اخلاقی حوالوں سے بالکل کمزور ہے اور اس کے پاس مقبوضہ کشمیر کو اپنے تسلط میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ وہ نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں سے مسلسل انحراف کر رہا ہے بلکہ آزادی کے متوالے کشمیریوں کی نسل کشی کے سنگین جرم کا ارتکاب بھی کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آئے دن قیامت صغریٰ برپا ہوتی رہتی ہے اور وہاں جنازوں پر جنازے اٹھتے رہتے ہیں۔

بھارت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کشمیر کے حوالے سے وقتاً فوقتاً نئے نئے ناٹک بھی رچاتا رہتا ہے جس میں نام نہاد الیکشن بھی شامل ہیں، لیکن اسے اپنی ہر عیاری اور مکاری میں ہمیشہ منہ کی کھانی پڑتی ہے اور آخر کار اسے رسوائی اور بدنامی کے علاوہ اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ وہ شطرنج کی بساط پر جو چال بھی چلتا ہے وہ حوصلہ مند کشمیری حریت پسندوں کے آہنی عزم کے آگے ناکام ہوجاتی ہے۔ دنیا کو دھوکا دینے کے لیے بھارت تنازع کشمیر کے حل کے حوالے سے مذاکرات کا ڈھونگ بھی رچا چکا ہے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

بھارت میں جب سے مودی سرکاری برسراقتدار آئی ہے تب سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جارحیت میں شدید اور تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جوکہ بی جے پی کی سوچ اور مسلم دشمنی کی پالیسی کی وجہ سے عین متوقع تھا۔ آر ایس ایس جیسی مسلم کش تنظیم کے بطن سے جنم لینے والی بی جے پی کا بس نہیں چلتا کہ وہ ہندوستان سے ایک ایک مسلمان کا وجود ہی مٹا دے۔ یہ اسی آر ایس ایس کی ناجائز اولاد ہے جس کے ہاتھ نہ صرف بھارت کے راشٹرپتا یعنی بابائے قوم گاندھی جی کے خون میں رنگے ہوئے ہیں بلکہ جس کے مذموم سیاسی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بی جے پی کی سرکار آج کل ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرنے میں مصروف ہے۔

ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے کے لیے ’’باپو‘‘ کے لقب سے پکارے جانے والے مہاتما گاندھی کا نام اسکولوں کی نئی درسی کتابوں سے خارج کیا جا رہا ہے تاکہ اسکول کے بچوں کو یہ معلوم ہی نہ ہوسکے کہ راشٹر پتا کا قاتل آر ایس ایس کا ایک انتہا پسند کارکن تھا جسے گاندھی جی کی مسلمانوں سے میل ملاپ کی پالیسی سخت نا پسند تھی۔ ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے حقائق کو اس حد تک جھٹلایا جا رہا ہے ہلدی گھاٹی کی جنگ میں مغل فوج سے بری طرح شکست کھا کر جنگلوں میں جاکر چھپ جانے والے میواڑ کے راجا رانا پرتاپ کو فاتح اور ہیرو قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے اسکولوں میں بچوں کو یہ جھوٹی کہانی پڑھائی جا رہی ہے کہ 1962 کی بھارت چین جنگ میں بھارت کی جیت ہوئی تھی جب کہ اصل حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

تاریخ کو مسخ کرنے کی یہ کوشش اس حد تک مضحکہ خیز ہے کہ بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی انڈین سائنس کانگریس سے خطاب کے دوران یہ بڑ بھی ہانک چکے ہیں کہ ہندو دیو مالا سے تعلق رکھنے والے ہاتھی کا سر اور سونڈھ رکھنے والے دیوتا گنیش جی قدیم ہندوستان میں کی جانے والی پلاسٹک سرجری کا ثبوت اور شاہکار تھے۔ مودی جی نے ایک ہی سانس میں اسکول کے بچوں کے سامنے یہ مضحکہ خیز انکشاف بھی کیا کہ دنیا بھر میں آب و ہوا اور ماحولیاتی تبدیلیاں رونما نہیں ہو رہی ہیں بلکہ لوگ بدل رہے ہیں۔

تاریخی بابری مسجد کو رام مندر اور تاج محل اور قطب مینار کو ہندو حکمرانوں کی تعمیر کرائی ہوئی عمارتیں قرار دینا بھی ہندو قوم پرستی کو بڑھاوا دینے کی مذموم سازش کی ہی کڑیاں ہیں۔ سب سے برا حال بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش (یوپی) کا ہے جہاں کے کٹر ہندو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ کم و بیش ایسے ہی حالات ریاست بہار کے ہیں جہاں آئے دن مسلم کش ہنگامے اور فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھارت کی جو حکومت ہندوستان کے مسلمانوں کی نسل کشی پر آمادہ ہو وہ بھلا مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے کیونکر مخلص ہوسکتی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے پاس اس کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنی آزادی کی عشروں پرانی عظیم جدوجہد جاری رکھیں اور اس بات پر پختہ یقین رکھیں کہ:

ظلم پھر ظلم ہے‘ بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے اس تاریخی قول کو کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔‘‘ تو پھر ہم اپنی شہ رگ پر اپنے ازلی دشمن بھارت کی گرفت کو بھلا کیونکر گوارا اور برداشت کرسکتے ہیں۔ چنانچہ مسئلہ کشمیر کے بنیادی فریق کی حیثیت سے پاکستان کو محض روایتی مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر بھارت کے خلاف دنیا کے گوشے گوشے میں ہر محاذ پر اپنی کوششیں تیز تر کردینی چاہئیں اور عالمی برادری کو یہ باور کرا دینا چاہیے کہ بھارت درحقیقت ایک ظالم و جابر اور انسانیت دشمن توسیع پسند ملک ہے جو نہ صرف مظلوم حریت پسند کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے بلکہ دو ایٹمی قوت کے حامل ملکوں میں تصادم کے خطرات پیدا کرکے امن عالم کے لیے بھی خطرے کے امکانات میں اضافہ کر رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔