نئے گلوکاروں کے پاس متعارف ہونے کے مواقع نہیں

قیصر افتخار  منگل 10 اپريل 2018
موسیقی کی ترویج کے لیے ایک بھی ٹی وی چینل کام نہیں کررہا‘ معروف گلوکار نعیم عباس روفی سے بات چیت۔ فوٹو: فائل

موسیقی کی ترویج کے لیے ایک بھی ٹی وی چینل کام نہیں کررہا‘ معروف گلوکار نعیم عباس روفی سے بات چیت۔ فوٹو: فائل

فن موسیقی میں پاکستان کا نام ہمیشہ ہی سنہرے حروف سے لکھا جائے گا کیونکہ بے پناہ مسائل سے دوچاراس ملک کے فنکاروں نے اپنی صلاحیتوں کے بل پرایسے کارنامے انجام دیئے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں کہ ان پررشک آتا ہے۔

استاد نصرت فتح علیخاں مرحوم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ انہوں نے جس طرح سے اپنے میوزک کے ذریعے پوری دنیا کوپاکستان کی جانب متوجہ کیا، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ یہ ان کا فن ہی ہے جوآج بھی بہت سے نوجوانوں کیلئے مشعل راہ بنا ہوا ہے۔

آج بھی بہت سے نوجوان گلوکاران کے گائے گیت گا کرعوام میں بے حد مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے، بلکہ یہ توان کے زندگی سے ہی جاری ہے۔ ایسے ہی گلوکاروں میں ایک نام کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکارنعیم عباس روفی کا بھی ہے۔ جن کی گائیکی سے استاد نصرت فتح علی خاں کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ وہ جس شدت، چاہت اوراحترام سے استادنصرت فتح علی خاں کے گیت ، غزلیں اورقوالیاں پیش کرتے ہیںِ، اس پرسننے والے جھومتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ نعیم عباس روفی کی شکل میں آج بھی نصرت فتح علیخاں کا فن زندہ ہے۔ ایک طرف توانہیں موسیقی کی تمام باریکیوں سے آشنائی ہے اورپھرآواز کے اتارچڑھاؤ کے ساتھ ساتھ سُروں سے کھیلنے کے فن پربھی انہیں خوب مہارت حاصل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھرمیں جب نعیم عباس روفی اپنے اس بینڈ کے ہمراہ پرفارم کرنے کیلئے جاتے ہیں ، جوپہلے استاد نصرت فتح علیخاں کے ساتھ پرفارم کرتا تھا، توشائقین کی بڑی تعداد نعیم عباس روفی کوہی ان کا جاں نشین سمجھتی ہے۔ گزشتہ دنوں نعیم عباس روفی لاہورمیں تھے اس دوران انہوں نے ’’ایکسپریس‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے میوزک، سیاست اورملکی حالات کے حوالے سے دلچسپ گفتگوکی، جوقارئین کی نذرہے۔

نعیم عباس روفی کا کہناہے کہ شوبزانڈسٹری کو مارنے والے ہمارے ملک کے سیاستدان ہیں۔ موجودہ دورمیں جب پاکستانی چینلز کی بھرمارہے لیکن پرائم ٹائم میں انٹرٹینمنٹ کا کوئی پروگرام ٹیلی کاسٹ نہیں ہوتا۔ شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک سیاسی تجزیے جاری رہتے ہیں۔

پہلے مجھ سمیت ملک کی اکثریت کوصرف صدر اوروزیراعظم کے نام پتہ ہوتے تھے یا پھربہت کم تعداد میں وزراء اعلیٰ کے بارے میں جانتے تھے مگر آج توچینلز پر وفاقی اورصوبائی وزراء کے علاوہ مشیران اوردیگررہنما ایسی بحث ومباحثہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن پروگرام کے اختتام پرکوئی حل بھی نہیں ملتا۔اب تودل چاہتا ہے کہ ہم لوگ سیاست کریں اورسیاستدان ٹی وی چینلز پرایکٹنگ۔ جہاں تک میری بات ہے تومجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ، کبھی سیاست کی جانب آنے کا خیال بھی نہیں آیا۔

ہمارے لئے اس سے بڑا کوئی لمحہ فکریہ نہیں ہوسکتا کہ صرف ایک ہی پروگرام ’کوک سٹوڈیو‘ہے، جوصرف اورصرف میوزک کے حوالے سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان میں میوزک انڈسٹری کی ترقی تودوربحالی بھی ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے تومیوزک سے وابستہ لوگوں کی اکثریت پڑوسی ملک جانے کوترجیح دیتے ہیں۔

ان کویہ بات سمجھ آچکی ہے کہ جب کسی سنگرپرپڑوسی ملک کی چھاپ لگتی ہے تواس کے فن کویہاں سراہا جاتاہے، وگرنہ وہ جتنا بھی ٹیلنٹڈ ہوجائے اس کا گانا سننا توایک طرف اس کی کوئی بات تک سننا گوارا نہیں کرتا۔ اس وقت دیکھا جائے تو میوزک کا کوئی ایسا چینل نہیں ہے کہ جہاں پرسینئراورنوجوان گلوکاراپنا کام پیش کرسکیں، لائیوشوزکا انعقاد نہیں کیا جا رہا۔ آج کے دورمیں اچھے سے اچھا گلوکار موجود ہے لیکن اس کے پاس ایسے پلیٹ فارم نہیں ہیں کہ وہ اپنا کام متعارف کرواسکے۔

انہوں نے کہا کہ میوزک کے شعبے میں ایک دورایسا بھی آیا تھا کہ جب بہت سے لوگ اس پروفیشن میں آئے اورتھوڑا سا نام بنانے کے بعدوہ کسی دوسرے شعبے میں جاگھسے۔ انہوں نے میوزک کے شعبے میں جونام بنایا اس کی بیس پرانہوں نے فرنچائزبنا لی ہیں اوراب وہ کسی اور انداز سے نوٹ کما رہے ہیں۔ کیونکہ وہ لوگ اس پروفیشن کوصرف استعمال کرنے کیلئے آئے تھے۔

دیکھ لیجئے کسی نے ہسپتال بنایا اورکسی نے سکول بنانے کوترجیح دی، کوئی سیاست کرنے لگا اورکوئی این جی اوچلا رہا ہے۔ یہ سب جعلی لوگ تھے ، انہیں پتہ تھا کہ اس شعبے میں ان کا سکوپ بس اتنا ہی ہے۔ جواچھے تھے وہ اسی شعبے سے وابستہ رہیں گے اورحالات جیسے بھی ہوجائیں وہ گاتے ہی دکھائی دینگے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کا مقصد صرف ایک ہی تھا اور وہ میوزک کرنے کیلئے آئے ہیں اورآخری دم تک میوزک ہی کرتے رہیں گے۔

نعیم عباس روفی نے کہا کہ مجھے میرے ملک پاکستان نے اتنا کچھ دیا کہ مجھے ضرورت نہیں کہ میں اپنے فن کوبالی وڈ تک لے کرجاؤں۔ میرے پاس آج جوعزت، شہرت اور مقام ہے، وہ پاکستان کی بدولت ہے، جس پرمجھے بہت فخر ہے۔ اس لئے مجھے نہ پہلے کبھی یہ خیال آیا کہ بالی وڈ میں جاؤں اورنہ ہی مستقبل میں کوئی جانے کا ارادہ ہے۔ جہاں تک بات

راحت فتح علی خاں اورعاطف اسلم کی ہے توان کودنیا بھرمیں بطوربالی وڈ سنگرجانا اورپسند کیا جاتا ہے۔ اگرہم ان کے دنیا بھرمیں ہونے والے شوز کا جائزہ لیں تووہ صرف اورصرف بھارتی پروموٹرزارینج کرتے ہیں۔ ان شوزمیں ویسے توبڑی تعداد میں پاکستانی کمیونٹی شرکت کرتی ہے لیکن جب ہم اپنے ملک کے فنکاروں کے ساتھ پروگرام کرنے کیلئے باہرجاتے ہیں تووہ لوگ گھروں سے باہر ہی نہیں نکلتے۔

اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پروموٹرزکوشوزکا انعقاد نہیں آتا۔ حالانکہ بھارتی پروموٹرزکودنیا بھرمیں شوبیچنے کا اندازہم نے ہی سیکھایا۔ عُمرشریف واحد آرٹسٹ تھے ، جن کے ساتھ جب ہم شو کیلئے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اوردیگرمقامات پرجاتے توہزاروں کی تعداد میں لوگ وہاں پہنچتے۔ لیکن آج اس انداز میں بھارتی پروموٹرز شوکررہے ہیں اورخوب پیسہ کمارہے ہیں۔

پاکستانی فلم میں میوزک کے بحران کی وجہ بتاتے ہوئے نعیم عباس روفی نے کہا کہ ہمارے پاس ایک میوزک ڈائریکٹرجب ہٹ ہوتا ہے توسب پروڈیوسراس سے کام کرانے کوترجیح دیتے ہیں۔ جبکہ بھارت میں کسی ایک میوزک ڈائریکٹرکونہیں بلکہ دوسرے میوزک کمپوزرز سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ یہ توسوچنے اورسمجھنے کی بات ہے کہ ایک میوزک کمپوزر

ہرطرح کا میوزک ترتیب نہیں دے سکتا۔ جب ایک میوزک ڈائریکٹرپر ایک ساتھ پانچ سے سات فلموں کا میوزک بنانے کی ذمہ داری آن پڑے تووہ کسی ایک سے بھی انصاف نہیں کرپاتا۔اس کے علاوہ موجودہ دورمیں ریہرسلزکروانے کا رواج بھی ختم ہوچکا ہے۔ یہی نہیں لابی سسٹم بھی اپنے عروج پرہے۔ جومیوزک ڈائریکٹر ہٹ ہوجاتا ہے پھروہ اپنی ٹیم کے علاوہ کسی دوسرے سے کام نہیں لیتا۔ حالانکہ ہرگیت کوہرکوئی نہیں گاپاتا۔ اس بات کا اگرتھوڑا ساخیال رکھا جائے تومختلف آوازاوراندازوالے سنگرزبھی پاکستانی میوزک کوآگے بڑھانے میں مددگارثابت ہوسکتے۔

انہوں نے آخرمیں بتایا کہ بالی وڈ اورپاکستانی میوزک میں فرق کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت میں میوزک پرکسی قسم کی پابندی نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں بہت سی چیزوںکو مدنظررکھتے ہوئے میوزک ترتیب دیا جاتاہے۔ یہ واضح فرق ہے جس کی وجہ سے بالی وڈ ہم سے بہت آگے جا چکا ہے۔ مگراس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ ہمارے پاس ٹیلنٹ نہیں ہے۔ دیکھاجائے تووسائل اورپابندیوں کے باوجود ہمارے ملک کے گلوکاروں، سازندوں، میوزک ڈائریکٹراورتکنیکی عملے نے اپنی ایک منفردشناخت بنائی ہے جس پرہم سب کوفخرکرنا چاہئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔