بھارت کے مظلوم دلت

سید عاصم محمود  منگل 10 اپريل 2018
ظالمانہ برہمنی نظام میں جکڑی ایک مجبور ومقہور قوم کی داستان ِالم۔ فوٹو: فائل

ظالمانہ برہمنی نظام میں جکڑی ایک مجبور ومقہور قوم کی داستان ِالم۔ فوٹو: فائل

ماہ اپریل کے اوائل میں لاکھوں بھارتی دلتوں کے احتجاج نے برہمنوں کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔

برہمن حکمرانوں کو اندازہ نہیں تھا کہ دلت اتنی شدت سے احتجاج کریں گے۔ بہرحال برہمنی حکومت نے حسب معمول زور زبردستی سے دلتوں کو دبانا چاہا۔ نتیجتاً سکیورٹی فورسز کی گولیوں نے گیارہ دلت نوجوانوں کی زندگی کے چراغ گل کردیئے۔

بھارتی سکیورٹی فورسز مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہیں۔ پاکستانی میڈیا بھارتی فوج کے ظلم و ستم کو نمایاں کرتا رہتا ہے۔ مگر بھارتی حکومت دلت عوام پر جو مظالم ڈھا رہی ہے، وہ عموماً پاکستانی میڈیا میں نمایاں نہیں ہوپاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھارتی مسلمانوں کی طرح کروڑوں دلت بھی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے مغرور و جابر ہندوؤں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ان کی تکالیف، پریشانیوں اور مشکلات کی داستان بڑی المناک ہے۔

دلت دراصل ہندوستان میں بستے اچھوتوں کے لیے نئی اصطلاح ہے۔ اسے اچھوتوں کے مشہور رہنما ڈاکٹر امبیدکر نے بیسویں صدی میں مشہور بنایا۔ آج بھارت میں تقریباً 30 کروڑ دلت آباد ہیں۔ ان کی بیشتر تعداد پنجاب (ریاستی آبادی کا 32 فیصد حصہ)، اترپردیش (21 فیصد)، مغربی بنگال (11 فیصد)، بہار (8 فیصد) اور تامل ناڈو (7 فیصد) کی ریاستوں میں بستی ہے۔ اچھوتوں کے نو سو ذیلی گروہ ہیں مثلاً بھنگی، دھوبی، موچی، چوہڑا، مہار، منگ وغیرہ۔

دلتوں کی اکثریت ہندو ہے۔ حقیقت میں مگر یہ برائے نام ہندو ہیں۔ وجہ یہ کہ دلتوں کو کئی مندروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ نیز وہ ایسی کئی مذہبی رسوم انجام نہیں دے سکتے جو اعلیٰ جاتی (برہمن، کھتری اور ویش) ہندوؤں سے مخصوص ہیں۔ اب تو صورتحال خاصی بہتر ہے، ماضی میں اعلیٰ جاتی ہندو دلتوں یا اچھوتوں سے جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے۔ مثلاً کسی دلت کا ہاتھ برہمن کے زیر استعمال برتن سے چھو جاتا، تو اسے بری طرح مارا پیٹا جاتا۔ پھر برتن کئی مرتبہ دھویا جاتا تاکہ اسے پاک کیا جاسکے۔

اعلیٰ جاتی ہندو صرف اپنے مفادات کی خاطر دلتوں کو قریب لائے۔ سب سے بڑا مفاد دلتوں کے ووٹ حاصل کرنا تھا۔ دلتوں سے قربت کے چلن نے 1980ء کے بعد جنم لیا جب انتہا پسند اور قوم پرست ہندوؤں نے ایک نئی سیاسی پارٹی، بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کی بنیاد رکھی۔قوم پرست ہندوؤں کی سب سے بڑی جماعت، آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) بذریعہ سیاست حکومت پانے کی کوششیں کئی برس سے کررہی تھی مگر اسے ناکامی نصیب ہوئی۔

1980ء کے بعد فیصلہ ہوا کہ اترپردیش میں آباد دلتوں کو مسلمانوں کی مخالفت کے نام پر اکٹھا کیا جائے۔ آر ایس ایس کے برہمنوں کی یہ پالیسی کامیاب رہی۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ صرف دس برس میں بی جے پی سب سے بڑی بھارتی ریاست (اترپردیش) میں اتنی مقبول ہوگئی کہ بابری مسجد شہید کرنے میں کامیاب رہی۔

اس وقت سے بی جے پی مسلم دشمن ایجنڈا اپنا کر ہر ریاست میں دلتوں سمیت ہندوؤں کے تمام گروہوں کو اپنے پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں عموماً کامیاب رہی ہے۔ 2014ء کے وفاقی الیکشن اور حالیہ ریاستی الیکشنوں میں خصوصاً ریاست اترپردیش میں دلتوں کی بیشتر تعداد نے بی جے پی کو ووٹ دیئے۔ لیکن اب دلتوں کے سامنے انتہا پسند اور قوم پرست ہندو لیڈروں کا اصل مکروہ چہرہ سامنے آرہا ہے۔

دلت خوش تھے کہ اعلیٰ جاتی ہندوؤں نے انہیں ’’ہندو قوم‘‘ میں شامل کرلیا مگر یہ محض ڈرامے بازی تھی تاکہ اقتدار حاصل کیا جاسکے۔ جب اقتدار کا ہما سر پر بیٹھ گیا تو اعلیٰ جاتی ہندو لیڈروں نے طوطے کی طرح نظریں پھیرلیں۔ دراصل یہ ہندو کسی طرح برداشت نہیں کرسکتے کہ مذہبی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی سطح پر دلت ان کے برابر یا بالمقابل آجائیں۔ صدیوں سے دلت ان کے پاؤں کی جوتی چلے آرہے ہیں۔ لہٰذا اعلیٰ جاتی ہندو دلتوں کو پہلے کی طرح ہر لحاظ سے کمتر ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے جب کوئی دلت قدیم ظالمانہ رسمیں توڑ کر آزادی و خود مختاری دکھائے، تو اکثر اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ریاست گجرات کے گاؤں تیمبی میں ایک دلت نوجوان نے گھوڑا خرید لیا تاکہ اس پر سواری کرسکے۔ گاؤں کے اعلیٰ جاتی ہندو گھوڑے کی سواری صرف اپنے لیے مخصوص سمجھتے تھے۔ چناں انہوں نے دلت نوجوان کو اپنی شان میں گستاخی کرنے کی جسارت پر قتل کردیا۔ اس قسم کا مصنوعی احساس تفاخر خصوصاً دیہی بھارت کے ہر اعلیٰ جاتی ہندو میں پایا جاتا ہے۔

دلت لیڈروں نے طویل جدوجہد کے بعد 1989ء میں بھارتی پارلیمنٹ سے ایک قانون،Scheduled Castes and the Scheduled Tribes (Prevention of Atrocities Act.) منظور کرایا۔ اس قانون کے ذریعے ہر غریب دلت کو یہ حق مل گیا کہ اگر کوئی طاقتور اعلیٰ جاتی ہندو اسے تنگ کرے، تو وہ پولیس میں اس کی رپورٹ کرسکتا ہے۔ گویا اس قانون کے ذریعے بے بس و مجبور دلتوں کو طاقتور ہندوؤں سے لڑنے کا مضبوط ہتھیار مل گیا۔ لیکن بدقسمتی سے پچھلے ماہ 20 مارچ کو بھارتی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے یہ قانون خاصی حد تک کمزور کردیا۔

اس کیس کا ماجرا یہ ہے کہ بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر کراڈ میں واقع گورنمنٹ کالج آف فارمیسی میں بھاسکر کربھری نامی دلت بطور سٹور کیپر ملازم تھا۔ اس کی خفیہ سالانہ رپورٹ میں دو افسروں نے لکھ دیا کہ وہ ایک سست اور نااہل ملازم ہے۔ 2006ء میں بھاسکر نے درج بالا قانون کے تحت دونوں افسروں پر مقدمہ قائم کردیا۔ اس نے الزام لگایا کہ دونوں افسر اعلیٰ جاتی ہندو ہیں۔ اس لیے مذہبی تعصب کی بنا پر اسے نااہل قرار دیا گیا حالانکہ وہ باصلاحیت ملازم ہے۔یہ مقدمہ دس سال تک چلتا رہا اور ریاستی محکمہ تعلیم نے اس میں کوئی دلچسپی نہ لی۔

غصے میں آکر بھاسکر کربھری نے محکمہ تعلیم کے افسروں کے خلاف بھی 2016ء میں ایف آئی آر درج کرادی۔ ان افسروں میں ڈائریکٹر ٹیکنیکل ایجوکیشن مہاراشٹر، سبھاش کاشی ناتھ مہاجن بھی شامل تھا۔ وہ ممبئی ہائی کورٹ پہنچ گیا اور استدعا کی کہ اس کا نام ایف آئی آر سے نکالا جائے۔ ہائی کورٹ نے اس کی اپیل خارج کردی۔ تب وہ بھارتی سپریم کورٹ چلاگیا۔

20 مارچ کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا۔اعلی جاتی ہندو ججوں نے قرار دیا کہ دلت درج بالا قانون سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔وہ یوں کہ اعلی جاتی ہندوؤں کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرا دیتے ہیں۔اسی لیے ججوں نے حکم دیا:’’پولیس اب دلت کی شکایت پر فوری مقدمہ درج کرنے کے بجائے ہفتہ دس دن تفتیش کرے اور مکمل ’’اطمینان ‘‘کے بعدایف آئی آر کاٹے۔نیز رپورٹ اسی وقت کاٹی جائے جب ایس پی کی تحریری اجازت مل جائے۔‘‘

بھارت میں خصوصاً دیہی پولیس اعلی جاتی ہندوؤں کی غلام ہے۔اسی لیے ایف آئی آر کاٹنے کا سارا عمل پولیس کے ہاتھوں میں دے کر بھارتی ججوں نے دلتوں کو تحفظ فراہم کرنے والا قانون بہت کمزور بنا دیا۔قابل ذکر بات یہ کہ برہنموں کی نمائندہ مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں دلتوں کے حمایتی قانون کا دفاع نہیں کیا…الٹا یہ تسلیم کر لیا کہ اس قانون کا غیر قانونی استعمال ہوتا ہے۔اس طرح برہمنی حکومت اور ججوں نے مشترکہ سازش سے دلتوں کا محافظ ایک قانون قتل کر ڈالا۔

اس سارے مذموم کھیل کا مقصد یہ تھا کہ دلتوں کو اعلی جاتی ہندوؤں کے رحم وکرم پر رکھا جائے اور وہ معاشرے میں اونچا مقام حاصل نہ کر سکیں۔دلت لیڈر یہ سازش جان گئے،اسی واسطے انھوں نے پورے بھارت میں احتجاج کا اعلان کر دیا۔حکومت کے ظلم کی وجہ سے یہ احتجاج سانحہ بن گیا۔آج کروڑوں دلت آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں کا اصل مکروہ روپ دیکھ چکے۔اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے سال کے الیکشن میں بی جے پی لاکھوں دلت ووٹوں سے محروم ہو سکتی ہے۔گویا برہمنوں کے کٹھ پتلی وزیراعظم،نریندر مودی کو اپنا اقتدار بحال رکھنے کی خاطر بہت جدوجہد کرنا ہو گی۔بھارت کا یہ رخ بہت خوفناک اورگھناؤنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔