جنات کی شرارتیں

سردار قریشی  بدھ 11 اپريل 2018

نوجوانی میں گھر کے علاوہ ہم اگرکسی دوسری جگہ پائے جاتے تھے تو وہ رئیس میر محمد کی اوطاق تھی جسے ہم امتحان کے دنوں میں تیاری کے لیے اور چھٹیوں میں گپ شپ کرنے اور تفریح کی غرض سے استعمال کیا کرتے تھے۔ رات کے کھانے کے بعد ہم تین چار دوست ایک ایک کرکے وہاں پہنچنا شروع ہوتے اور دس بجے تک محفل برخواست کر کے سونے کے لیے اپنے اپنے گھر لوٹ جاتے کہ اس زمانے میں یہ آدھی رات کا وقت کہلاتا تھا۔

ہمارا زیادہ تر وقت باتوں اور ہنسی مذاق میں گزرتا تاہم کبھی کبھار تاش کے پتوں سے بھی دل بہلا لیا کرتے تھے۔ چار ہوتے تو پیس کوٹ اور دو ہوتے تو رمی کھیلتے، مقصد صرف وقت گزاری ہوتا۔ جوا یا شرط لگا کر کھیلنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کیونکہ ایک تو ہم میں سے کسی کے پاس بھی پیسے نہیں ہوتے تھے، دوسرے رئیس میر محمد نے پہلے دن سے وارننگ دے رکھی تھی کہ اگر ہم نے کبھی بھول کر بھی ایسی غلطی کی تو کھیلنا تو دورکی بات وہ ہمیں اوطاق پر آنے بھی نہیں دیں گے۔

یہی وہ جگہ تھی جہاں زندگی میں پہلی اور آخری بار ہمارا جنوں سے واسطہ پڑا۔ رئیس میر محمد پتے کی بیڑی بندھوا کر بیچنے کا کاروبارکرتے تھے اور شاہی بازار کی موچی گلی والے چوک میں ان کی دکان ہوا کرتی تھی۔ اچھے وقتوں میں ان کے کئی کاریگر اسی اوطاق میں بیٹھ کر بیڑی باندھا کرتے تھے۔ اْن میں سے ایک سے ہم نے سنا تھا کہ اوطاق میں جن ہیں جو رات کو وہاں سونے والوں کو تنگ کرتے ہیں لیکن یقین نہیں آتا تھا، سمجھتے تھے وہ ہمیں ڈرانے کے لیے ایسی باتیں کرتا ہے ۔ پھر جب ہم نے خود وہاں جنوں کی موجودگی کا مشاہدہ کیا تو پتہ چلا سچ کہتا تھا۔

اوطاق کے عقب میں باقر شاہ کا مزار اور چند قبور پر مشتمل میروں کا مخصوص قبرستان جب کہ داہنے ہاتھ پر ٹاؤن کمیٹی کے سیکریٹری وکیوکا گھر ہوا کرتا تھا۔ وہ ضلع سانگھڑ کے شہر ٹنڈو آدم کا رہائشی تھا جو ہمارے ٹنڈو غلام علی سے نسبتاً بڑا شہر تھا اسی لیے اس کا شمار شہری لوگوں میں ہوتا تھا جب کہ ہمارا ماحول گاؤں دیہات والا تھا، اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی، دو نوں میاں بیوی ایک شیرخوار بچے کے ساتھ رہتے تھے، اوسط درجے کا دوکمروں کا رئیس کی اوطاق جتنا ہی گھر تھا۔ ایک رات جب ہم حسب معمول بیٹھے تاش کھیل رہے تھے، ان کے گھر سے چیخنے چلانے کی آوازیں سن کر چونکے۔کوئی عورت ہذیانی انداز میں چیخے جارہی تھی کہ کوئی اس کا بچہ اٹھا کر لے گیا ہے، وہ اسے مار ڈالے گا، کوئی ہے جو میری مدد کرے اور میرے شوہرکو خبرکرے وغیرہ۔ اس کی چیخ و پکار سن کر ہم سب پریشان ہوگئے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ یہ کیا ہوگیا۔

اس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھ پاتے، رئیس میر محمد اس کے پاس پہنچ چکے تھے اور اسے تسلیاں دے رہے تھے کہ بچہ کہیں نہیں گیا، ابھی مل جائے گا، وہ رونا دھونا اور چیخنا چلانا بند کرے تاکہ وہ سکون اور یکسوئی سے بچے کو تلاش کر سکیں۔ خاتون چپ ہوئیں تو انھوں نے وہیں سے مجھے اور اقبال کو آواز دیکر سیڑھی لانے کو کہا جو اوطاق میں مغربی دیوار کے ساتھ کھڑی رہتی تھی۔ ہم وہ لے کر پہنچے تو انھوں نے اسے چھت سے لگانے کو کہا اور خود گھر کے کمروں میں چارپائیوں اور بکسوں کے نیچے جھانک جھانک کر بچے کو تلاش کرتے رہے۔ جونہی وہ خالی ہاتھ باہر صحن میں آئے جہاں ہم کھڑے تھے، خاتون نے دوبارہ رونا اور چیخنا چلانا شروع کر دیا۔

بیچارے رئیس میر محمد کی حالت قابل دید تھی، وہ بھاگ بھاگ کر کبھی باورچی خانے میں جاتے تو کبھی غسل خانے اور بیت الخلاء میں جھانک کر دیکھتے، ساتھ ہی خاتون کو تسلی بھی دیتے جاتے کہ بس دو منٹ ٹھہرجاؤ، بچہ ابھی تمہاری گود میں ہوگا۔ پھر جب انھوں نے سارا گھر چھان مارا اور بچہ نہیں ملا تو ٹیبل پر پڑی ہوئی لالٹین اٹھاکر صحن میں آئے اور سیڑھی چڑھ کر چھت پر پہنچ گئے، ابھی دو منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ کمبل میں لپٹے اورگہری نیند سوئے ہوئے بچے کوگود میں لیے چھت کی منڈیر پر آئے اور خاتون کو مخاطب کرکے بولے ’’میں نہ کہتا تھا بچہ کہیں نہیں گیا، یہیں گھر میں کہیں ہوگا، تم یونہی رو رو کے ہلکان ہورہی ہو۔‘‘ پھر وہ اسی طرح بچے کو کاندھے سے لگائے سیڑھی اتر کر نیچے آئے اور اسے ماں کے حوالے کرکے کچھ کہے سنے بغیر خاموشی سے باہر نکل گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے ہم بھی سیڑھی اٹھا کر اوطاق میں پہنچے لیکن وہ ہمیں ابھی آیا کہہ کرگھر چلے گئے۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمارے سوالات سے بچنے کے لیے انھوں نے ایسا کیا تھا۔ کئی دن تک ہم ان سے پوچھنے کی کوشش کرتے رہے کہ شیر خوار بچہ چھت پر کیسے پہنچ گیا لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتے اور کہتے تم لوگوں کے لیے اتنا جان لینا کافی ہے کہ بچہ مل گیا۔

آخر ایک دن موقع پاکر ، جب اوطاق میں ان کے اور میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، میرے بیحد اصرار پر انھوں نے بتایا کہ پڑوسیوں کے بچے کھیلنے کے لیے ان کا بچہ اٹھا کر لے گئے تھے جو میں جاکر ان سے لے آیا ، بس اتنی سی بات تھی۔ پڑوسیوں سے ان کی مراد ’’جن‘‘ تھے جو اوطاق اورآس پاس کے گھروں میں آزادانہ کارروائیاں کرتے رہتے تھے۔

اسی طرح ایک بار جب میں اوطاق کے بڑے کمرے میں بیٹھا اسکول کا ہوم ورک کر رہا تھا، مجھے پیاس محسوس ہوئی۔ اوطاق کے دالان میں گھڑمچی پر بھرے ہوئے مٹکے دھرے رہتے تھے، پانی پی کر واپس آیا اور کام کرنے بیٹھا تو فونٹین پین غائب جو میں کاپی میں رکھ کر گیا تھا، اوطاق میں میرے سوا کوئی تھا بھی نہیں کہ اس پر چھپانے یا چرانے کا شک جاتا۔ چارپائیوں کے نیچے، کونوں کھدروں اور دیوار میں لگی چھوٹی الماری میں سب جگہ دیکھا ، باہر جاکر پانی سے بھرے مٹکوں میں ہاتھ تک ڈال کر دیکھ لیا مگر پین نہیں ملا۔ ابھی بہت کام باقی تھا اور میرے پاس دوسرا پین بھی نہیں تھا ، سوچ رہا تھا کیسے ہوگا کہ اتنے میں رئیس میر محمد اپنے دونوں بچوں کے ساتھ بازار جاتے ہوئے وہاں سے گزرے اور دروازہ کھلا دیکھ کر اندر آگئے۔

مجھے پریشان دیکھ کر وجہ پوچھی اور میرے بتانے پر کندھے اچکا کر اطمینان سے بولے ابھی مل جائے گا تمہارا پین، کہاں جائے گا، ابھی ڈھونڈ کردیتا ہوں۔ یہ کہہ کر انھوں نے الماری سے چابی نکال کر کمرے سے ملحق اسٹور روم کا دروازہ کھولا جس میں بستر، بکس اور دوسرا کاٹھ کباڑ بھرا تھا۔ اب جو انھوں نے ایک بڑے بکسے کے نیچے ٹٹولا تو میرا پین ان کے ہاتھ میں تھا۔ پوچھا یہی ہے تمہارا پین اور مجھے حیرانی سے اثبات میں گردن ہلاتے دیکھ کر بولے ’’اس میں بھلا حیران ہونے کی کیا بات ہے، تمہارے اٹھ کے باہر جاتے وقت یہ نیچے گرا ہوگا اور پھر رڑھکتا ہوا دروازے کے نیچے سے اسٹور میں چلا گیا ہوگا۔‘‘

اس واقعے کے بعد میں کچھ دن اوطاق کی طرف ہم دوستوں میں سے کسی کا بھی جانا نہیں ہوا، ایک دن جب میں ان کی دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا انھوں نے مجھے آواز دیکر بلایا، پوچھا طبیعت تو ٹھیک ہے نا، آج کل تم لوگ اوطاق پر نہیں آتے، پھر خود ہی وضاحتیں دینے لگے کہ اوطاق میں اور اس کے آس پاس جنوں کا بسیرا ضرور ہے لیکن وہ بالکل بے ضرر ہیں اورکسی کو نقصان نہیں پہنچاتے، البتہ ان کے بچے چھوٹی موٹی شرارتیں کرتے رہتے ہیں، جن سے گھبرانے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کورائیوں کے محلے کی مسجد، جو اس زمانے میں ویران و غیر آبا د تھی، اور علی محمد شاہ کے اوتارے کے لیے بھی مشہور تھا کہ ان میں جنات کا بسیرا ہے لیکن ذاتی طور پر ہمارا ان سے کبھی واسطہ نہیں پڑا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔