مجرموں کی بہار آئی ہوئی ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 11 اپريل 2018

وارنر رہر ڈ نے کہا تھا ’’سچائیاں آپ کو بالآخر آزاد کردیں گی لیکن یہ پہلے آپ کو جی بھر کر تڑپائیں گی‘‘ اور مہاتما بدھ نے کہا ہے ’’تمام انسانی دکھ سچائیوں کا سامنا نہ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں‘‘ آجکل ہمارے ملک میں ہر طرف مجرموں کی بہار آئی ہوئی ہے، آپ کو باآسانی اور وافر مقدار میں ہر جگہ ہر قسم کے مجرم دستیاب ہیں۔ ہر مجرم حسب اوقات اپنے اپنے کرتب اور کارستانی دکھانے میں مصروف اور مگن ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر مجرم ہر موقعے کو آخری موقع جانتے اور سمجھتے ہوئے اپنا کام کر رہا ہے۔ انسانوں کی یہ نایاب قسم آپ کو بازاروں، دفاتر، ایوانوں، گلیوں، محلوں، عبادت گاہوں میں جا بجا اور خود بخود دیکھنا نصیب ہوجاتی ہے۔

ان مجرموں کو ملک بھر میں کسی سے بھی اور کسی بھی قسم کا خطرہ نہ تو لاحق ہے اور نہ ہی آیندہ لا حق ہونے کا کوئی خطرہ ہے۔ ان کی بے فکری کا یہ عالم فکروں اور اندیشوں سے دیکھا نہیں جا رہا ہے اور ان کو فکر ہو توکس بات کی ہو جب آپ ملک بھر سے سچ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کا قتل عام شروع کردیں گے اور ہر سچ کی ننگی اور ادھڑی ہوئی لاش کے چاروں طرف کھڑے ہوکر قہقہے لگا رہے ہونگے اور باقی زندہ بچے سچ آپ سے چھپتے پھررہے ہونگے تو اس سے مختلف نتیجہ جونکلا ہے کوئی دوسرا نکل بھی کیسے سکتا تھا۔ اس وقت حد ہو جاتی ہے جب مجرم سرے عام سچ کو ننگی ننگی گالیاں دیتے پھر رہے ہوتے ہیں۔

ہمارے سارے دکھوں نے اسی سچ کی لاشوں اور بے حرمتی کی کوکھ سے جنم لیا ہے پھر ان ہی دکھوں کو ہم نے بچوں کی طرح پال پوس کر بڑا کیا، اب جب ان دکھوں نے ہم پر اور ہمارے گھروں پر قبضہ کرلیا ہے اور ہمیں اپنے آپ سے اور اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا ہے تو پھر رونا کس بات کا دہائیاں کس لیے گریہ اور آہ و زاریاں کیوں۔ کیا آپ نے کبھی اس بات پر غورکیا ہے کہ کسی جگہ سچ کا آزادانہ قتل کیوں کر ممکن ہوتا ہے۔

آئیں! آزادانہ سچ کے قتل کے محرکات اور پس منظر کو سمجھنے کی مل کر کوشش کرتے ہیں۔ روجر شیم نے ملکہ ایلزبتھ کے دربار میں جولوگوں کا چلن تھا، ان باتوں کو اس طرح نظم کیا ہے۔ ’’مکاری، جھوٹ، خوشامد، دیدہ دلیری یہ چار طریقے ہیں جن سے لوگ با توقیر ہوسکتے ہیں اگر تجھے ان میں سے کوئی نہیں آتا تو چل دے اورگھر بیٹھ ۔‘‘ جب ان چار چلنوںکا کسی دربار یا ایوان یا پھر ملک میں غلبہ ہوجاتا ہے تو پھر آپ کو ، سچ کو،کسی بھی وقت اورکسی بھی جگہ آزادنہ قتل کرنے کی اجازت حاصل ہوجاتی ہے ۔ شیکسپیئر کے ڈرامے ’’اوتھیلو (1604) میں ایاگو، برائی، جھوٹ اور سازش کا نمایندہ ہے اور فتح مند رہتا ہے۔

ڈیسڈیمونا، نیکی، ایمانداری اور وفا ہے اور وہ قتل ہوجاتی ہے۔ شیکسپیئرکے دوسرے ڈرامے ’’میکبتھ میں قاتل زندگی پر بے رحم فیصلہ دیتا ہے کہ ’’ناتواں شمع بجھ گئی، زندگی محض ایک گریزاں سایہ ہے، ایک لاچار سازندہ، جو منڈپ پر اپنا مقررہ وقت پورا کرتا ہے اور پھرکبھی بھی اس کی آواز نہیں آتی، یہ ایک کہانی ہے جو کسی احمق نے سنائی آواز اور غیض و غضب سے بھرپور، جس کا کوئی بھی مطلب نہیں‘‘ کیا زندگی کے متعلق کوئی اس سے زیادہ ترش رائے دی جا سکتی ہے۔؟ ہاں ایتھنز کے ٹیمون کو یاد کریں جو کبھی ایک ایتھنی لکھ پتی ہوا کرتا تھا اور ہر وقت خوشامدی دوستوں میں گھرا رہتا دولت کھو جانے پر اس نے دیکھا کہ دوست رات بھر میں غائب ہوگئے وہ تہذیب کی گرد اپنے پیروں سے چھٹک کرایک جنگل کی کنج تنہائی میں چلا جاتا اور وہاں امید کرتا ہے کہ ’’نا مہربان ترین درندے بھی نوع انسانی کی نسبت زیادہ مہربان ہوں گے‘‘ وہ خواہش کرتا ہے کہ کاش السی ایک کتا ہوتا تاکہ میں تمہیں کچھ پیار کرسکتا وہ جڑیں کھا کرگزارہ کرتا ہے وہ مٹی کھودتا ہے اور سونا پاتا ہے دوست دوبارہ آجاتے ہیں وہ طعن وتشنیع کے ساتھ انھیں بھگا دیتا ہے لیکن جب فاحشائیں آتی ہیں تو اس شرط پر انھیں سارا سونا دے دیتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مردوں کو جنسی بیماریاں لگائیں گی۔

نفرت کے سرور میں وہ فطرت کو حکم دیتا ہے کہ انسانوں کی نسل کشی روک دے اور امید کرتا ہے کہ وحشی درندے تیزی سے تعداد میں بڑھ کر انسانی نسل کا صفایا کردیں گے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر اِیاگوہمیشہ فتح مند رہتا ہے اور ہر ڈیسڈ یمونا ہمیشہ قتل ہوجاتی ہے۔ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر اور اپنے ساتھ بد ترین سلوک پرکچھ نہیں بلکہ کروڑوں انسان ایتھنز کے ٹیمون نہیں بن چکے ہیں کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ وہ سب کے سب بوائلر نہیں بن گئے ہیں۔کھولتے، ابلتے بوائلر جو سب کچھ جلانے پرتلے بیٹھے ہیں جو ہر مکار جھوٹے ، خوشامدی اوردیدہ دلیر اور ہر ایا گو کو بھسم نہیں کرنا چاہتے ہیں کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ وہ ہر مجرم اور سچ کے قاتلوں کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ۔

پہلے چینی فلسفی لاوزے جو روسو اور تھا مس جیفر سن سے کوئی 2300سال پہلے گزرا ہے کہتا ہے ’’فطرت میں تمام چیزیں خاموشی سے کام کرتی ہیں وہ ہست ہوتی اورکچھ بھی حاصل نہیں کرتیں وہ کوئی بھی دعویٰ کیے بغیر اپنا فریضہ سر انجام دیتی ہیں تمام چیزیں ایک ہی انداز میں کام کرتی ہیں اور پھر ہم انھیں منتشر ہوتے دیکھتے ہیں ہر چیز اپنے عروج کو پہنچنے کے بعد ماخذ میں لوٹ جا تی ہے، اپنے ماخذکی جانب واپسی کا مطلب قسمت کا لکھا پورا کرنا ہے یہ الٹا بہاؤ ایک ابدی قانون ہے جان لو کہ دانش ہی قانون ہے‘‘ ایوانوں میں بیٹھے زمینی خداؤں اور میرے ملک کے مجرمو یاد رکھو، الٹا بہاؤ، ایک ابدی قانون ہے جلد ہی تمہاری زندگیوں کی رات ہوجائے گی اور جب رات ہوگئی تو تمہارے گرد جمع یہ سارے مکار، جھوٹے ، خوشامدیوں میں سے تم ایک کو بھی اپنے پاس نہیں پاؤ گے اور تمہیں اپنے سارے اعمالوں کا حساب کہیں نہ کہیں تو ضرور دیناہی ہے تم یہاں تو سزا سے ضرور بچ سکتے ہو لیکن وہاں کوئی بھی جی کوئی بھی سزا سے نہیں بچ پائے گا ۔

عظیم ادیب و طنزنگار ایراسمس کے تصوراتی مکالمے میں پیٹر (پطرس) جولئیس کو بہشت میں جانے سے روکتا ہے، پطرس: مجھے کچھ قریب ہونے دو … پادری والا چولا، لیکن اس کے نیچے خونیں زدہ ،آنکھیں وحشی، بولنے میں برا، پیشانی پہ بل، جسم گناہوں میں لتھڑا ہوا، سانس شراب سے لبریز، صحت بدکاری کے باعث تباہ، چاہے تم کتنا بھی ڈرا دھمکا لو میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیا ہو تم جولئیس ہو جہنم سے واپس آیا ہوا شہنشاہ، جولئیس: تو کیا تم پھاٹک نہیں کھولوگے؟ پطرس: بہت جلد لیکن کسی تمہارے جیسے شخص کے لیے نہیں۔ اگر تمہارے پاس کچھ وقت ہو تو خدارا شہنشاہ جولئیس کی کہانی ضرور پڑھ لینا۔ جب تم جولئیس کی کہانی پڑھ رہے ہوگے تو ہوسکتا ہے کہ تمہاری ملاقات خود سے بھی ہوجائے۔ یاد رکھنا جو لئیس جیسے انسانوں کے لیے کبھی بھی بہشت کے دروازے نہیں کھلیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔