یہ خاموشی کیوں!

نصرت جاوید  جمعرات 11 اپريل 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں حکمرانوں پر جتنی بے رحمانہ تنقید گزشتہ چھ برسوں سے ہو رہی ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ نجی شعبے میں ٹیلی وژن قائم ہونے سے پہلے وزارتِ اطلاعات سے ایک درمیانے درجے کے افسر کا فون آ جانا ہی کسی ناپسندیدہ رپورٹر کو اس کی اوقات میں رکھنے کے لیے کافی ہوا کرتا تھا اور میں بدنصیب اکثر اس کا نشانہ بنتا رہا۔

آج کے دنوں میں ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ میں اپنی تذلیل اور بے روزگاری کے ان دنوں کو بڑے رشک سے یاد کرنا شروع ہو گیا ہوں۔ میرے رشک کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت طے کر بیٹھی ہے کہ اب ہمارے ملک میں صحافی کو پورا سچ بولنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی اور بطور ایک پیشہ ور اور کل وقتی صحافی میں اس تاثر کا اثبات نہیں کر سکتا۔

ہمارا میڈیا یقیناً بڑا مستعد اور بیباک ہو گیا ہے۔ مگر اس کی تمام تر قوت و صلاحیت صرف ان لوگوں کو رگیدنے پر مرکوز رہتی ہے جو منتخب ایوان تک پہنچنے کے لیے خلقِ خدا کے ووٹوں پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ جسے ’’مستقل‘‘ انتظامیہ یا حکومت کہا جاتا ہے نام نہاد آزادی اظہار کے اس دور میں پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور اور ہماری دسترس سے باہر ہو گئی ہے۔

اس انتظامیہ کے ساتھ ہی ساتھ ایک ادارہ عدلیہ کا بھی ہے۔ یقیناً جسٹس افتخار چوہدری کی صورت میں ہمیں ایک ایسی شخصیت ملی جس نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے وقار اور اعتبار میں بے تحاشہ اضافہ کیا۔ عام انسانوں کا عدلیہ سے واسطہ نچلی سطح کی عدالتوں میں پڑتا ہے۔ وہاں جو کچھ ہوتا ہے، اس پر ہمارے مستعد میڈیا نے کبھی غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔

آیندہ انتخابات کے لیے کاغذاتِ نامزدگی کی پڑتال کرتے ہوئے ہمارے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں نے ریٹرننگ افسروں کی صورت میں 62/63 کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے انھوں نے 24/7 چینلوں کے لیے صرف Infotainment Segments بنوائے ہیں۔ ہمیں ان سے حظ اٹھانے سے فرصت ملے تو ذرا یہ بھی سوچ لیں کہ ایک خاتون امیدوار کو اپنا چہرہ کھول کر کمرے میں موجود تمام لوگوں کو دکھا کر یہ ثابت کرنے پر مجبور کرنے والا کہ اس کی عمر 35 سال ہے یا نہیں کس Calibre کا افسر ہو گا۔

اس جیسے افسروں کی رعونت اور رویے نے ہائیکورٹ کو بھی پریشان کر دیا اور وہ یہ حکم دینے پر مجبور ہو گئی کہ کاغذاتِ نامزدگی لے کر آنے والوں کی تذلیل کرنے والے سوالات نہ کیے جائیں۔ پاکستان کے سارے شہری مگر کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں کراتے۔ ان کے ساتھ روزمرہ کے امور میں ایسے با اختیار لوگوں کی طرف سے جو رویہ اختیار کیا جاتا ہے اس کی نشاندہی کیسے ممکن ہے تا کہ نچلی سطح سے بالا عدالتوں میں موجود افراد اس کی بہتری کے کچھ اقدامات لے سکیں۔

میڈیا نے مگر یہ فرض کر لیا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد ان کا نچلی سطح کی عدالتوں میں موجود حالات پر نگاہ رکھنا ضروری نہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ضلعی سطح کا صحافی جرأت کر بھی لے تو اس کے ادارے کے لیے ساتھ دینا مشکل ہو گا۔ ضلعی سطح کا رپورٹر جس ادارے کے لیے کام کرتا ہے اس کا مدیر ہرگز یہ نہیں چاہیے گا کہ اسے ہر دوسرے روز پاکستان کے مختلف قصبوں میں توہینِ عدالت کے جرم کا دفاع کرنے کے لیے پیش ہونا پڑے۔

کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران جو تماشے ہوئے انھوں نے کم از کم مجھے اس سوال پر از سر نو غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیوں ہمارے ملک میں گزشتہ چند برسوں سے کسی شہر میں وکلا کسی نہ کسی مجسٹریٹ یا سیشن جج کو اس کے کمرے میں بند کر دیتے ہیں اور ہم ایسے واقعات کو بس ’’وکلا گردی‘‘ کے ایک اور شاہکار کی صورت رپورٹ کرنے کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں۔

بات پورا سچ کہنے اور جاننے کی ہو رہی ہے تو جان کی امان پاتے ہوئے آپ کو یہ بات بھی یاد دلا دوں کہ 2008ء میں قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بننے کے بعد چوہدری نثار علی خان جیسے دبنگ قائد حزب اختلاف نے باقاعدہ ایک خط کے ذریعے سپریم کورٹ سے یہ استدعا کی کہ اس کے رجسٹرار ان کی کمیٹی کے روبرو اپنے ادارے کے بجٹ کا حساب پیش کریں۔ چوہدری صاحب کی اس استدعا کو عدالت کی آزادی میں مداخلت کے نام پر رد کر دیا گیا۔ معاملہ مگر ختم نہ ہوا۔ چوہدری صاحب نے دوبارہ اس امر پر اصرار کیا۔ ان کے اس منصب سے استعفیٰ دینے کے بعد ندیم افضل چن نے بھی اس معاملے کو بڑی شدومد سے اٹھایا۔ کوئی مثبت نتیجہ بر آمد نہ ہوا۔

ہمارے ہاں لوگوں کو یاد ہی نہیں رہتا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ایوانوں کا ریاست کے دوسرے اداروں پر بالادستی کا تصور بنیادی طور پر No Taxation without Representation کے نعرے سے شروع ہوا تھا۔ اس نعرے کا اصل مقصد یہ تھا کہ ایک شہری اپنی ریاست کو جو کچھ ٹیکس کی صورت میں ادا کرتا ہے اس رقم کو کس طرح خرچ کیا گیا اس کا حساب کتاب اس کے منتخب نمایندے ٹھوک بجا کر کیا کریں۔ دُنیا بھر کے جمہوری ممالک میں پبلک اکائونٹس کمیٹی اسی مقصد کے لیے بنائی جاتی ہے۔

جس ملک میں یہ کمیٹی فعال ہو وہاں احتساب کرانے کے نام پر علیحدہ ادارے بنانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ اپنے تئیں بڑی بالا دست اور خود مختار بنی ہماری سابقہ اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی اس ضمن میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی۔ وجہ اس کی بنیادی طور پر یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ابھی تک اپنی انائوں کے غلام ہیں۔ اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کبھی منتخب اداروں کو بالاتر کرنے کے لیے متحد نہیں ہوتے۔ اپنے سیاسی مخالفین سے اندھی نفرت کی بنیاد پر ہی نواز شریف صاحب کالا کوٹ پہن کر میمو گیٹ بنانے چل نکلے تھے۔ فائدہ اس کا بالآخر کچھ نہ ہوا اور آج جنرل مشرف پاکستان واپس آ گئے ہیں۔ میاں صاحب اکثر اس بات پر بڑے غصے کا اظہار کیا کرتے تھے کہ اس آمر کو گارڈ آف آنرز دے کر اس ملک سے کیوں جانے دیا گیا تھا۔ اب اسی جنرل مشرف کو سپریم کورٹ نے طلب کر لیا ہے اور میاں صاحب خاموش ہیں اور اس خاموشی کی وجہ بھی بیان کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔