میرٹ کا قتل عام نہ کریں

جو کوچ حکام کی گڈ بک میں ہو غیرملکی دورے کرتا رہتا ہے مگر دیگر کو ڈومیسٹک ٹیموں سے بھی فارغ کر دیتے ہیں


Saleem Khaliq April 12, 2018
ہمیں اپنے باصلاحیت کرکٹرز کو ایسا ماحول دینا ہے جہاں انھیں یقین ہو کہ اچھی کارکردگی دکھائی تو محنت کا صلہ ملے گا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

''مبارک ہو تمہارا بیٹا ویسٹ انڈیز سے سیریز میں بال بوائے بنا،کامران اکمل بھی بچپن میں ایسے ہی باؤنڈری کے پار آنے والی گیندوں کو واپس پھینکتا تھا بعد میں وہ اسٹار کرکٹر بن گیا'' چند روز قبل ایک صحافی دوست نے یہ بات کہی تو میں حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگا،پھر پوچھا تمہیں یہ کس نے کہا میرا بیٹا تو ابھی چھوٹا ہے اور میں اتنی گرمی میں اسے کئی گھنٹے باؤنڈری لائن پر کھڑا کیسے رکھ سکتا تھا۔

پھر دوست نے کہا کہ ''فلاں صحافی کہہ رہے تھے، انھوں نے تو پورے پریس باکس میں یہ بات پھیلا دی تھی کہ تم اب نجم سیٹھی کیخلاف نہیں لکھ رہے لہذا چیئرمین نے تمہارے بیٹے کو یہ موقع دیا، میں اس پر ہنس پڑا،یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ میڈیا انڈسٹری میں پتا نہیں لگتاکہ کون دوست ہے اور کون دشمن، تین صحافی ساتھ کھانا کھا رہے ہوں اور ان میں سے ایک اٹھ کر ہاتھ دھونے جائے تو دیگر 2 اس کی برائیاں کرنے لگتے ہیں۔

خیر میں خود اسی انڈسٹری کا حصہ ہوں اس لیے کیا کہہ سکتا ہوں، البتہ اپنے دوست سے میں نے یہ ضرور کہا کہ بھائی پی ایس ایل کا فائنل اور ویسٹ انڈیز سے تین ٹی ٹوئنٹی کراچی میں اچھے انداز سے ہو گئے، اب میں بورڈ کی کیا برائی کروں ، میرا کسی سے کوئی جائیداد کا جھگڑا تو نہیں، نہ ہی کسی ایجنڈے پر کام کر رہا ہوں،البتہ اب بھی کوئی غلط بات دیکھی تو ضرور نشاندہی کروں گا، میں نے اسے بتا دیا کہ میرا اپنے بیٹے کو کرکٹ میں لانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، جس ملک میں باصلاحیت بچے چانس نہ ملنے پر خودکشی کرنے پر مجبور ہوں وہاں کوئی ایسا شخص جو کرکٹ کے ارباب اختیارکا منظور نظر نہ ہو اس کے کسی رشتہ دار کو چانس ملنا تو ناممکن ہے۔

ساتھ اس طرح میں اپنے کام سے انصاف بھی نہیں کر سکتااور مصلحتوں کا شکار ہو جاؤں گا، یقین مانیے جب کراچی میں ایک نوجوان کرکٹر نے ناانصافیوں پر خود کشی کی تو میرا دل بجھ سا گیا تھا،بچوں اور نوجوانوں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ آپ کی جان اتنی سستی نہیں کہ ایسے ہی ضائع کر دی جائے، والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی رہنمائی کریں،حال ہی میں آپ لوگوں کو علیم ڈار کے بارے میں بتایا کہ وہ قومی ٹیم کیلیے نہیں کھیل سکے تو محنت کر کے بہترین امپائر بن گئے، آپ بھی ایسا کریں۔

یاد رکھیے 19 کروڑ میں سے صرف11پاکستانی ہی ملک کیلیے کھیل پاتے ہیں، آپ کوشش کریں اگر قسمت میں لکھا ہوا تو چانس ملے گا ورنہ کسی اور شعبے میں نام کمائیں،نجم سیٹھی ان دنوں ملک میں کرکٹ کی واپسی پر دادو تحسین وصول کر رہے ہیں، مگر میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ نچلے لیول پر بھی نظر رکھیں، جونیئر سلیکشن میں خاصی اقربا پروری ہو رہی ہے، انڈر 16 ٹیم کو ہی دیکھ لیں۔

غریب رکشہ والے کا بیٹا بلال منیر بہترین کارکردگی کے باوجود آسٹریلیا کے دورے پر نہیں گیا اور ایک کلب کے امیر مالک کا بیٹااوسط درجے کا کھلاڑی ہونے کے باوجود منتخب ہو گیا،ٹویٹر پر امجد فالکی نے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اس سے پہلے پاسپورٹ کے حوالے سے کوئی بہانہ بنا کر اسے اسکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، جونیئر سطح کے کرکٹرز غیرمعروف ہوتے ہیں لہذا یہاں زیادہ دوستیاں نبھائی جاتی ہیں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے جس کی تفصیل پھر کبھی بتاؤں گا۔

آپ شکیل شیخ کو ہی دیکھ لیں تین بیٹے ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے ہیں،ایک ان فٹ تھا مگر ماہانہ تنخواہ دلانے کیلیے منتخب کرا دیا گیا، غریب آدمی کا ایک ٹیلنٹڈ بیٹا کھیل نہیں سکتا مگر بااثر شخصیت کے تین بیٹے کھیل جاتے ہیں، اسی طرح سینئر لیول پر فواد عالم اور صدف حسین جیسے کئی کھلاڑی ٹیم سے باہر ہیں مگر چیف سلیکٹر انضمام الحق کے بھتیجے امام الحق کو فوراً موقع مل جاتا ہے، اگر سلیکشن میں ایسے کام نہ ہوں تو ہمارے ملک میں اس سے زیادہ ٹیلنٹ سامنے آئے، اسی طرح کوچنگ میں ہے۔

جو کوچ حکام کی گڈ بک میں ہو غیرملکی دورے کرتا رہتا ہے مگر دیگر کو ڈومیسٹک ٹیموں سے بھی فارغ کر دیتے ہیں،جیسے رواں ماہ پاکستان کپ ہونے والا ہے، اس کیلیے 10کوچز کے نام گئے، ان میں سے 5 فرسٹ کلاس ٹیموں کے ہیڈ کوچز اور دیگر نائب کوچز تھے، مگر اطلاعات کے مطابق 9 برقرار رہے اور صرف ایک کوچ تنویر شوکت کا نام کسی نے کٹوا کر نان فرسٹ کلاس ٹیم کے کوچ کو ذمہ داری دلا دی، اس معاملے میں ڈائریکٹر آپریشنز ہارون رشید کا نام لیا جا رہا ہے، انھیں اس کی وضاحت کرنا چاہیے، پہلے لیول فور فیل کوچ کبیر خان کو دیگر کوچز کی کارکردگی کے جائزے کا کام سونپا گیا تھا۔

اب لاکھوں کی تنخواہ پر منیجر کوچ ایجوکیشن نیشنل کرکٹ اکیڈمی راحت عباس کو بنا دیا گیا جو لیول ٹو کوچ ہیں اور اب تھری میں شریک ہوں گے، اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا۔ ڈومیسٹک کیلنڈر اب تک سامنے نہیں آیا، فارمیٹ کا بھی فیصلہ نہیں ہوا،کھلاڑیوں کو یہ علم ہی نہیں کہ کون سا ایونٹ کب ہو گا وہ کیسے انگلینڈ وغیرہ کھیلنے جا سکیں گے، آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان کرکٹ میںکس قدر مسائل ہیں۔

خوش قسمتی سے ٹیم کی کارکردگی مختصر طرز میں اچھی ہے، اسی طرح پی ایس ایل کا انعقاد بااحسن انداز سے ہو گیا، لاہور کے بعد کراچی میں کرکٹ لوٹ آئی، ان کا کریڈٹ پی سی بی اور نجم سیٹھی کو جاتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مسائل سے آنکھیں چرا لیں، خصوصاً سلیکشن میں جو ناانصافیاں ہو رہی ہیں چیئرمین کو ان کا نوٹس لینا چاہیے، ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملات کا بھی جائزہ لیں، جو شخصیات سیاہ و سفید کی مالک بنی ہوئی ہیں ان سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔

ہمیں اپنے باصلاحیت کرکٹرز کو ایسا ماحول دینا ہے جہاں انھیں یقین ہو کہ اچھی کارکردگی دکھائی تو محنت کا صلہ ملے گا، اگر ارباب اختیار کے بیٹے، بھانجے ہی کھیلتے رہے اور میرٹ کا قتل عام ہوتا رہا تو کیسے نوجوان کھیل کی جانب راغب ہوں گے، چاہے رکشے والے کا بیٹا ہو یا کوئی اور اگر وہ باصلاحیت ہے تو ضرور موقع دیں، یاد رکھیں آپ یہاں تو کسی سے ناانصافی کرکے بچ جائیں گے مگر جب اوپر والے کی گرفت میں آئے تو کوئی انسان نہیں بچا سکے گا۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے@saleemkhaliq پر فالو کرسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں