تیسرا ووٹ

عبدالقادر حسن  جمعرات 12 اپريل 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ملک میں چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات کے لیے عوام تیار ہیں تاکہ ووٹ کے ذریعے اپنی پسند کے سیاستدانوں کو منتخب کر کے آیندہ پانچ سال کے لیے اقتدار کا ہما ان کے سر پر بٹھائیںاور پھر ان کی حکمرانی کے اچھے برے ثمرات سے لطف اندوز ہوں۔

پچھلے ستر برسوں میں ہونے والے انتخابات میں عوام نے صرف اپنے لیے اچھے حکمران منتخب کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوششیں ہمیشہ ناکام بنا دی گئیں اور ان پر ان کی مرضی کے خلاف حکمران مسلط کر دیے گئے جو عوامی مینڈیٹ سے بالاترہو کر اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے حق حکمرانی حاصل کرنے میں کامیاب رہے اس لیے انھوں نے عوام کو درخوراعتنا نہ سمجھا اور اپنے حکمرانی کی مزے اٹھاتے رہے اور ان کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا گیا ۔

یہ سیاستدانوں کی وہ نسل ہے جو کہ کسی نہ کسی طاقت کے کندھے پر سوار ہو کر اقتدار تک پہنچی۔ ہماری سیاسی تاریخ پر بغور نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ آج کے کامیاب سیاستدان کس کے سہارے اور مدد سے پاکستان کے مالک و خود مختار بن بیٹھے۔ ابھی تک ملک میں دو بڑی سیاسی پارٹیوں کا راج رہا ہے اور وہ باریاں تبدیل کرکے پاکستان پر حکمرانی کرتی رہیں البتہ ان کے لیڈروں میں تبدیلی آتی رہی ۔

پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کسی نہ کسی شکل و صورت میں ملک کی حکمرانی سے اپنا حصہ وصول کرتی رہی لیکن اس کے نام تبدیل ہوتے رہے بقول شخصے اردو کے جتنے حروف تہجی ہیں ملک میں اتنی ہی مسلم لیگیں مختلف ناموں سے موجود رہیں اور ابھی تک ہیں ۔ ان میں سے جس کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے اپنا کندھا فراہم کیا وہ اس ملک کی مالک بن بیٹھی ۔دوسری بڑی جماعت جناب ذوالفقارعلی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے نام سے بنائی ۔ بھٹو صاحب نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ مستانہ بلند کیا جس کو پاکستان کے سادہ لوح عوام میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی اور بھٹو صاحب اس ملک کے حکمران بن گئے۔

انھوں نے اپنی پارٹی کے لیے عوام پر بھروسہ کیا اور حقیقت میں اگر کھمبا بھی کھڑا کیا تو وہ جیت گیا لیکن وہ اس کامیابی کو سنبھال نہ پائے اور بالآخر عوام کے سہارے کو چھوڑ کر اشرافیہ کو ساتھ ملا لیا جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے، ملک دولخت ہوا جس کے زخم ابھی تک ہم بھر نہیں سکے۔ وہ خود تو ایک مارشل لاء سے ٹکرا کر اس دنیا سے چلے گئے مگر اپنے پیچھے ایک مضبوط سیاسی وراثت چھوڑ گئے جس کو ان کی مرحومہ بیوی بیگم نصرت بھٹو اور شہید بیٹی محترمہ بینظیر نے خوب نبھایا اور اقتدار کے مزے لوٹے۔

محترمہ کی شہادت کے بعد ان کے شوہر نامدار جناب آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک اور مارشل لاء ڈکٹیٹر سے اقتدار عوام کو منتقل کرا لیا اور پانچ سال تک پیپلز پارٹی ملک کی مختار کل رہی، ان کا دور اقتدار کیسا رہا اس کے بارے میں عوام نے اپنا فیصلہ سنایا اور پانچ سال مکمل ہونے کے بعد ان کو اقتدار سے باہر کردیا بلکہ اس حد تک عوام ناراض رہے کہ پارٹی جس کا آغاز پنجاب سے ہوا وہ پنجاب میں بری طرح ناکام ہو گئی اور آج تک عوام دوبارہ ان کو منتخب کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے لیکن پاکستان میں سیاست کے کھیل نرالے ہیں کل کے لاڈلے آج کے معتوب ٹھہرتے ہیں اور آج کے لاڈلے کل کے لیے ناپسندیدہ بنا دیے جاتے ہیں۔

دو پارٹی سسٹم میں تازہ ہوا کا جھونکا جناب عمران خان کی نئی نویلی سیاسی پارٹی تحریک انصاف کی صورت میں سامنے آیا جس کو عوامی سطح پر ایسی ہی مقبولیت حاصل ہوئی جیسے کسی زمانے میں بھٹو صاحب کو حاصل تھی لیکن بھٹو صاحب تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص تھے انھوں نے اپنی مقبولیت کو کیش کر لیا جب کہ عمران خان ان سے زیادہ مقبول ہونے کے باوجود گزشتہ انتخابات میں اتنی نشستیں بھی حاصل نہ کر پائے کہ اپوزیشن لیڈر کی سیٹ ہی حاصل کر پاتے۔ موجودہ حکومت کی حقیقی اپوزیشن اگر کسی جماعت نے کی ہے تو وہ جناب عمران خان کی تحریک انصاف ہے جس نے عوام کے زور پر ملکی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج وفاقی دارالحکومت میں ریکارڈ کرایا اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے عدالتوں کا بھی رخ کیا ۔

عالمی سطح پر منظر عام پر آنے والے پاناما کیس کی پاکستان میں نقل کر کے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف نواز شریف کو اقتدار سے باہر کرنے میں کامیاب ہو گئے اور نواز شریف اپنی ہی حکومت میں روزانہ کی بنیاد پر عدالتوںمیں پیشیاں بھگت رہے ہیں اور ان کے خلاف کیسوں کا فیصلہ بھی جلد متوقع ہے جس کے بعد پاکستان کی آیندہ کی سیاست کے رخ کا صحیح تعین ہو سکے گا۔ عمران خان نے ملکی سطح کی دونوں سیاسی جماعتوں کا ابھی تک خوب مقابلہ کیا ہے گو کہ سیاسی میدان میں ان سے خطائیں بھی ہورہی ہیں لیکن عوام ان کی خطاؤں کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں چونکہ وہ ابھی تک ملکی سطح پر اقتدار میں نہیں آئے اس لیے ان کا دامن کسی بھی قسم کے اسکینڈل سے پاک ہے ۔

عمران خان گزشتہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھاندلی کی گئی جس کو انھوں نے عدالتوں میں چیلنج بھی کیا اور ابھی تک حکمران پارٹی کے وزراء تک عدالتوں کی جانب سے حکم امتناعی پر وزارت کے تام جھام سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔

میاں نواز شریف کی موجودہ سیاست کو اگر دیکھا جائے تو انھوں نے اقتدار سے باہر آنے کے بعد ملک کے تمام اہم اداروں کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے اور ان کی جانب سے ہر روز ایک نیا الزام سامنے آتا ہے۔ تازہ ترین بیان میں انھوںنے کہا کہ آیندہ الیکشن کے نتائج وہ تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ ان کو اندیشہ ہے کہ ان کے ساتھ دھاندلی کی جا رہی ہے جو کہ الیکشن میں ان کی ناکامی پر منتج ہو گی ۔

میاں صاحب نے بڑی آسانی اور روانی کے ساتھ سیاست کی ہے وہ اگر امیرالمومنین بننے کی کوشش نہ کرتے تو انھیں جدہ نہ جانا پڑتا اور ان کی سیاست میں تعطل نہ آتا لیکن مطلق العنان حکمرانی کا شوق انھیں لے ڈوبا اور وہ انھی کے معتوب ٹھہرے جن کے زور بازو پر ان کی سیاسی عمارت کھڑی تھی اور ان کو اقتدار دلوانے کے لے آئی جے آئی کے نام سے سیاسی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا گیا تھا۔ میاں صاحب یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی سیاست کو بند گلی میں دھکیلا جا رہا ہے کسی اور کو میدان میں مجمع لگانے کی کھلی چھوٹ دی جارہی ہے۔ کیا میاں صاحب نے کبھی غور کیا ہے کہ ان کو بند گلی میں کون اور کس لیے دھکیل رہا ہے ۔ ان کو نو منتخب اور نوجوان وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو کی اس بات پرغور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا صرف اس ووٹ کی عزت ہے جو نواز شریف اور محمود خان اچکزئی کو ملے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔