چند گذارشات

مقتدا منصور  جمعرات 12 اپريل 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

سابق سفارتکار منیر اکرام نے اپنے ایک مضمون میں عالمی سطح پر معاشی پالیسیوں کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی منصوبہ سازوں کے خیال میں: “Nations can advance only by eliminating barriers to the free movement of goods and capital and by minimising the role of governments in the economy”۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی ماہرین معاشیات کا اس نقطہ نظر پر اتفاق رائے دراصل گلوبلائزیشن کے پھیلاؤ کا سبب بنا ۔

ان کا کہنا ہے کہ تاریخ اس سے متضاد تصور پیش کرتی ہے،”The industrial development has been achieved almost always behind the walls of the state protection and intervention.” ۔ یعنی صنعتی ترقی کا حصول ہمیشہ ریاست کی مداخلت اور تحفظ کے باعث ہی ممکن ہوسکا ہے ۔ اس سلسلے دور جدید میں چین کی معاشی ترقی کی مثال دی جاسکتی ہے، جس کے پس پشت ریاستی منصوبہ بندیاں اور حکمت عملیاں ہیں ۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ Great Powers become great because of active state promotion of industrialization and production۔

ان کے درج بالاجملوں سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی سطح پر سیاسی ، انتظامی اور معاشی منظرنامہ تقریباً ویسا ہی رہا ہے، جیسا کہ منیر اکرم  نے پیش کیا ہے، اگر سرد جنگ کے دوران دونوں کیمپوں کے نقطہ ہائے نظر کا تقابلی جائزہ لیا جائے، تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ دونوں نقطہ ہائے نظر زمینی حقائق سے مختلف تھے اور ہیں ۔ امریکی لابی کا صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کو کھلی چھٹی دینے کے تصور کی خامیاں اب واضح ہوکر سامنے آرہی ہیں ۔ بل گیٹس جیسا بڑا عالمی سرمایہ دار بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی کوتاہ بینی اور ہوس زر کے باعث عوام دوست سرمایہ کاری کرنے کی اہلیت سے محروم ہے اور بد ترین ناکامی کی راہ پرگامزن ہے۔

دوسری طرف سوویت یونین کے 75سالہ تجربات کا جائزہ لیں، تو وہاں بھی محنت کشوں کی حکمرانی محض سیاسی دعوے سے زیادہ نظر نہیں آئے گی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں روس میں آنے والے بالشیوک انقلاب کے بعد محنت کشوں کے روزگار کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر ترقیاتی منصوبہ سازی کو ریاست کی مرضی اور منشا کے تابع کر دیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورا سیاسی، انتظامی اور معاشی ڈھانچہ پارٹی اور بیوروکریسی کے کنٹرول میں چلا گیا۔ یوں ملک میں صنعتکاری کا عمل اس نئی اشرافیہ کے زیر اثر چلا گیا جس کی وجہ سے محنت کش کم وبیش سرمایہ دار دنیا جیسے ہی مسائل سے دو چار رہے۔ چین میں آج بھی سخت گیر معاشی پالیسیوں پر عمل کیا جا رہا ہے ،جس کی وجہ سے وہاں سہ فریقی توازن قائم نہیں ہوسکا ہے۔

اس وقت دنیا میں دو تجربات کامیاب نظر آرہے ہیں۔اول: پبلک۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ، دوئم: حکومت کی نجی شعبے پر سخت نگرانی(Monitoring)کا میکنزم۔ پبلک۔پرائیویٹ پارٹنر شپ کے طریقہ کار میں جہاں ایک طرف ترقیاتی منصوبہ بندی کی نئی جہتیں سامنے آتی ہیںاور سرمایہ کار کو بلاخوف خطر نت نئے Initiatives لینے کا موقع ملتا ہے۔ وہیں دوسری طرف حکومتی شراکت کی وجہ سے انInitiatives کے ساتھ محنت کشوں کو روزگار میں تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اب تک کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ وہ تمام منصوبے جن میں پبلک۔ پرائیویٹ پارٹنرشپ رہی ہے، زیادہ کامیاب اور منافع بخش رہے ہیں۔

دوئم اگر صنعتی ترقی  کے لیے نجی شعبے کو بااختیاربنانا ضروری ہو، تو پھر اس کی مکمل پیشہ ورانہ نگرانی (Monitoring)کا  واضح میکنزم تیارکیا جانا ضروری ہے۔ ساتھ ہی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے ادارے قائم کرے،جو صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کو پیشہ ورانہ تربیت ، تعاون اور رہنمائی دینے کے ساتھ ان کی کارکردگی کی نگرانی (Monitoring)کر سکیں۔ پاکستان نے اپنے قیام کے ابتدائی برسوں کے دورانPIDC(پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن) تشکیل دی تھی۔ جس کا مقصد مختلف صنعتوں کے قیام کے لیے صنعتکاروں کو فنی مشاورت، رہنمائی اور تعاون فراہم کرنا تھا۔ گو کہ اس ادارے کو متعین کردہ اہداف کے مطابق نہیں چلایا گیا۔ اب اگرانھی اہداف اور مقاصد کو دوبارہ فعال کیا جائے، تو ملک میں صنعتی ترقی کو ایک بہتر راستہ مل سکتا ہے۔

دنیا بھر کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ترقی دراصل انسانی ترقی(Human Development) ہوتی ہے جو تعلیم، صحت اور روزگار کی بہتر سہولیات فراہم کرنے سے مشروط ہوتی ہے۔اس لیے ابتدائی اور ثانوی تعلیم، صحت اور صنعتی منصوبہ بندی کسی بھی طور پر نجی شعبے کے حوالے نہ کی جائے۔ کیونکہ اس طرح حکومت تقریباً ختم ہوجاتی ہے۔ جب صنعتکار کو مکمل اختیار حاصل ہوجاتا ہے، تو وہ ان قوانین و ضوابط کی دھجیاں بکھیرنے لگتی ہیں، جو اسے مختلف امور کا پابند بناتے ہیں جس کی وجہ سے محنت کشوں کے لیے روزگار کا تحفظ اور ILOکی جانب سے متعین کردہ دیگر سہولیات تک رسائی ممکن نہیں رہتی ۔ لہٰذا ترقیاتی منصوبہ بندی کے عمل میں حکومت کی مداخلت (Intervention)کا کوئی نہ کوئی طریقہ کار موجود رہنا چاہیے۔

اس بحث کو سمیٹتے ہو ئے انسانی ترقی کے حوالے سے چند باتیں سیاسی جماعتوں کے گوش گزار کرانا بھی ضروری ہیں۔ اول، آئین کی شق25Aکے مطابق 5سے 16برس کے تمام بچوں کو مفت لازمی تعلیم مہیا کرنے کی ذمے داری حکومت کو سونپی گئی ۔ اس لیے میٹرک /یاOلیول تک تعلیم نجی شعبے میں نہیں ہونی چاہیے۔ امریکا اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی 90فیصد ابتدائی تعلیم کے ادارے  ریاست کی ذمے داری ہیں ۔ ہمارے یہاں جنرل ضیا کے دور میں تعلیم کی جس بھونڈے انداز میں نجکاری کی گئی اور جس طرح نجی شعبے کو تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت دی گئی، اس نے تعلیم کو ایک طرح کا منفعت بخش کاروبار بنا دیا ہے۔ جہاں والدین کی گردنوں پر کند چھری پھیر کر بچوں کو مختلف ممالک کے نصاب اوندھے سیدھے انداز میں پڑھائے جارہے ہیں ۔

ایک دہائی برس قبل راقم نے ملک کے نصف درجن امتحانی بورڈ کے گزشتہ چالیس برس کے نتائج کے اعداد و شمار اکٹھا کیے، تو معلوم ہوا کہ میٹرک کے امتحانی نتائج میں 1983تک پہلی دس پوزیشن میں نصف سے زیادہ بچے سرکاری اسکولوں کے ہوتے تھے۔ اب پہلی50پوزیشنز میں سرکاری اسکولوں کے بمشکل دو یا چار بچے ہوتے ہیں، یہ کھیل دانستہ کھیلا گیا ہے۔ جس نے تعلیمی نظام کو ایک طرف طبقاتی بنایا ہے دوسری طرف اس کا معیار بری طرح تباہ کیا ہے۔

یہی کچھ معاملہ صحت کے شعبہ کا ہے۔ ملک میں سرکاری اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ انگریز دور کے سول اسپتالوں کی تعداد میں بہت معمولی اضافہ ہوا  ہے۔ دوسرے ان میں طبی سہولیات کا بدترین فقدان ہے، جس کا سبب کرپشن اور بدانتظامی ہے۔ حکومت کی صحت عامہ کی جانب غفلت کی وجہ سے عوام نجی شفاخانوں میں جانے پر مجبور ہیں، جو شفاخانوں سے زیادہ مذبح خانے بنے ہوئے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ صحت اور تعلیم سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں ۔ حالانکہ انسانی ترقی (Human Development)کے اشاریہ میں ان دو شعبوں کو فوقیت حاصل ہے۔

عرض صرف اتنی کرنی ہے کہ کنکریٹ اور لوہے سے بنی عمارتیں، چمکتی سڑکیں اور خوبصورت ٹرینیں ترقی نہیں سہولیات ہیں ۔ اصل ترقی انسانی ترقی ہے، جو تعلیم، صحت اور روزگار کے ذرایع میں بہتری اور پھیلاؤ سے مشروط ہوتی ہے ۔ اچھی حکمرانی ، جہاں شفافیت ، جواب دہی اور میرٹ کو فروغ دینے کا نام ہے، وہیں انسانی ترقی کو یقینی بنانا بھی اس کا ایک اہم جزو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ اپنے انتخابی منشور کی تیاری میں انسانی ترقی کے تمام پہلوؤں کو ترجیحی حیثیت دیں، کیونکہ اس کے بغیر ملک کی ترقی کا حقیقی تصور ممکن نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔