فلسفۂ معراجِ نبویؐ

عبد المنان معاویہ  جمعـء 13 اپريل 2018
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو، ایک رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر کرایا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو، ایک رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر کرایا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

نبی کریم ﷺ کے معراج شریف کا واقعہ نہایت مشہور و معروف ہے، اسے علمائے اسلام نے نہایت تفصیل سے تحریر فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو، ایک رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر کرایا، جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، تاکہ ہم اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک اﷲ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

حق تعالیٰ نے فرمایا پیغمبر اسلامؐ خود تشریف نہیں لے گئے، بل کہ پاک ہے وہ ذات جو رسول اکرم  ؐ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی اور وہاں سے آسمانوں، جنت و دوزخ کی سیر کرائی گئی، ملاقات باری تعالیٰ ہوئی، یہ سب قدرت الٰہی سے ہوا اور اﷲ وہی ہے جس نے جنت سے آدمؑ کو زمین پر بھیجا۔ اگر باری تعالیٰ جنت کی وادی سے حضرت آدمؑ و حوا کو زمین پر بھیج سکتے ہیں، تو کیا زمین سے وہ اپنے محبوب نبیؐ کو آسمانوں پر نہیں بلا سکتے ۔۔؟

بخاری و مسلم میں حضرت ابوذرؓ سے روایت کا مفہوم ہے کہ حضورؐ مکہ مکرمہ میں اپنے گھر میں آرام فرما تھے کہ مکان کی چھت کھلی اور جبریلؑ مع جماعت ِ ملائکہ کے تشریف لائے اور آپؐ کو نیند سے بیدار کیا، انہوں آپؐ کے سینۂ اطہر کو چاک کرکے قلبِ مبارک کو آبِ زم زم سے دھویا، اس کے بعد سونے کا ایک طشت ایمان و حکمت سے بھر کر لائے اور اسے اس میں ڈال کر بند کردیا، اور ساتھ لے کر چل پڑے، آپؐ کے لیے خاص سواری لائی گئی۔

جس کا نام براق تھا، آپؐ براق پر سوار ہوئے اور سب سے پہلے مدینہ طیبہ (یثرب) میں دو رکعت نماز پڑھی، وادی سینا شجرۂ موسیٰ کے قریب دو رکعت نماز ادا فرمائی، پھر مدین میں دو رکعت نماز پڑھی، پھر بیت اللحم میں جائے پیدائش عیسیٰؑ کے قریب دو رکعت نماز ادا فرمائی، وہاں سے روانہ ہوئے تو ایک بوڑھی نے آپؐ کو آواز دی، جبریلؑ نے اُس کی جانب التفات سے منع فرمایا، پھر آگے ایک بوڑھے نے آواز دی، تو بھی جبریلؑ نے ان کی جانب متوجہ ہونے سے منع فرمایا۔ بوڑھی عورت، دنیا تھی جس کی عمر ختم ہونے کو ہے اور بوڑھا شخص شیطان تھا۔ پھر آپؐ مسجد اقصیٰ میں پہنچے وہاں ارواح انبیائے کرامؑ موجود تھیں۔

انہوں نے آپؐ کو سلام کیا، اس کے بعد اذان ہوئی، اقامت کہی گئی تو آپؐ نے امامت کرائی، بعض روایات میں آتا ہے کہ انبیائے کرام ؑ کے علاوہ سماوی فرشتوں نے بھی آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی، جب نماز ادا فرمالی گئی تو سماوی ملائکہ نے جبریل امین ؑ سے دریافت کیا کہ یہ تمہارے ساتھ کون ہیں، حضرت جبریلؑ نے فرمایا یہ محمد رسول اﷲ خاتم النبین ؐ ہیں ، ملائکہ نے پوچھا کہ کیا ان کے پاس بلانے کا پیغام بھیجا گیا تھا، جبریلؑ نے فرمایا، ہاں۔

فرشتوں نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ ان کو زندہ و سلامت رکھے، بڑے اچھے بھائی اور بڑے اچھے خلیفہ ہیں۔ (تلخیص از سیرۃ المصطفیٰؐ، جلد اول ) پھر جبریلؑ آپؐ کا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گئے، جب آپؐ آسمان پر پہنچے تو جبریلؑ نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ کھولو، اس نے کہا کہ کون ؟ انہوں نے جواب دیا ’’جبریلؑ‘‘ اس نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟

انہوں نے کہا کہ ہاں میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں، اس نے سوال کیا کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ جب آپؐ پہلے آسمان پر تشریف لے گئے تو ایک شخص کو دیکھا جس کے دائیں اور بائیں بہت سی پرچھائیں تھیں جب وہ دائیں دیکھتے تو مسکراتے، اور جب بائیں دیکھتے تو روتے۔ آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر انہوں نے ’’مرحبا یا نبی الصالح ، مرحبا یا ابن الصالح‘‘ کہا۔ آنحضرتؐ نے جبریل ؑ سے پوچھا یہ کون ہیں؟

انہوں نے بتایا یہ آدمؑ تھے۔ اسی طرح دیگر انبیائے کرام ؑ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ہر نبی و رسول آپ ﷺ کا مرحبا یا اخی الصالح کہہ کر کا استقبال کرتا اور سیدنا ابراہیمؑ نے آپؐ کو ’’مرحبا یا نبی الصالح ‘‘ کے ساتھ ’’مرحبا یا ابن الصالح‘‘ بھی کہا۔ اس کے بعد حضرت جبریلؑ آپؐ کو لے کر اُس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز آرہی تھی۔ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے آپؐ پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ اس عطیہ ٔ ربانی کو لے کر آپ ﷺ جب حضرت موسیٰؑ کے پاس پہنچے تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کی امت پر کیا فرض کیا۔

آپؐ نے بتایا تو انہوں نے فرمایا کہ آپؐ دوبارہ بارگاہ ایزدی میں حاضری دیں اور کم کرائیں آپؐ کی امت اس کی متحمل نہیں ہوسکے گی۔ آپ ﷺ دربارِ خداوندی میں حاضر ہوئے تو ایک حصہ کم کردیا گیا، دوبارہ موسیٰؑ نے مشورہ دیا آپؐ پھر دوبارہ تشریف لے گئے اس طرح اپنی امت کی خاطر سرورِ کائنات ﷺ نے کئی چکر لگائے آخر حق تعالیٰ نے کم کرتے کرتے پانچ نمازیں فرض قرار دے دیں۔ ان پانچ نمازوں پر ثواب اب بھی پچاس نمازوں کا ہی ملے گا۔

روایات میں آتا ہے کہ آپ ﷺ کو تین عطائے ربانی ملے، سورۃ البقرہ کی آخری آیات، جن میں ایمان و عقائد کی تکمیل و تشریح مذکور ہے اور دورِ مصائب کے خاتمے کی بشارات ہیں، حق جل مجدہ نے خاص مژدہ سنایا کہ آپ ﷺ کی امت میں سے جو کوئی شرک نہ کرے گا، اُس کی مغفرت کردی جائے گی، اور تیسرا عطیہ نمازوں کا جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔

اس کے بعد سدرۃ المنتہیٰ کی سیر کرائی گئی، اس درخت پر شان ربانی کا پَرتو تھا، جس سے اُس درخت کی ہیت تبدیل ہوگئی اور پھر اُس میں حسن کی وہ کیفیت پیدا ہوئی جس کو کوئی زبان لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی، اُس میں انوارِ و تجلیات کے ایسے رنگ ظاہر ہوئے جو زبان و بیان سے باہر ہیں۔

اسی مقام پر حضرت جبریلؑ کو آپ ﷺ نے ان کی اصلی شکل میں دیکھا، سیرۃ النبیؐ از شبلی نعمانی میں لکھا ہے : ’’ پھر شاہد مستورِ ازل نے چہرے سے پردہ اٹھایا اور خلوت گاہ راز میں ناز و نیاز کے وہ پیغام ادا ہوئے، جن کی لطافت و نزاکت الفاظ کے بوجھ کی متحمل نہیں ہوسکتی‘‘ (بہ حوالہ: سیرۃ النبیؐ) پھر جنت اور دوزخ کی سیر کرائی گئی، پھر آپ ﷺ کی واپسی ہوئی۔

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی ؐ سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔