اگر سندھ میں یہ ترقی ہے تو۔۔۔

سردار قریشی  ہفتہ 14 اپريل 2018

اگرچہ پرانا شاہی بازار بھی اْس وقت تک جزوی طور پر آباد تھا اور پوری طرح اجڑا نہیں تھا، لیکن نیا بازار جو مشرق سے مغرب کی سمت عمودی شکل میں ڈگری ناکہ سے چمبڑ ناکہ تک تیزی سے بسایا جا رہا تھا اور پرانے خشک نالے (بھڈے) کے سرخ اینٹوں اور پتھروں سے بنے گول محرابی دروازوں والے پْل پر برگد کے گھنے درخت سے لے کر سرکاری ڈسپینسری و مسافر خانے تک محدود تھا۔

دونوں جانب سے مظفر شاہ کی مسجد کی طرف جانیوالے راستے کے موڑ پر حسین شاہ کی آٹا پیسنے کی مشینی چکی سے پہلے دکانوں کے عقب میں ایک چھپرا ہوا کرتا تھا جہاں سواری کے لیے کرایے پر اونٹ ملتے تھے، ان کے مالکان گاہکوں کے انتظار میں کانبھ باندھے چٹائی پر بیٹھے ہوتے جب کہ جگالی کرتے ہوئے جانور بھی تیار حالت میں پاس ہی بیٹھے ہوتے تھے۔

جی ہاں، میں 50ء کے عشرے کے اپنے آبائی شہر ٹنڈو غلام علی کا ذکر کر رہا ہوں۔ ہماری بڑی آپا کی شادی بھی انھی دنوں ہوئی تھی جو دو ڈھائی میل کی مسافت پرکپری موری کے قریب عبداللہ ہالیپوٹہ کے پرانے گاؤں سے ذرا آگے بابو عزیزالدین کے گاؤں بیاہ کرگئی تھیں۔ میں چونکہ ان کے ساتھ بہت زیادہ اٹیچ تھا، اس لیے میری چھٹیاں زیادہ تر انھی کے پاس گاؤں میں گزرتی تھیں۔ وہ جب بھی میکے آنا چاہتیں، میں اونٹ کرائے پر لیتا اور آپا کو لینے چلا جاتا۔ تب اونٹ کا سارے دن کا کرایہ 5 روپے ہوا کرتا تھا، اس کا مالک خود ساتھ نہیں جاتا تھا، میرے بیٹھتے ہی اونٹ اٹھ کھڑا ہوتا اور وہ نکیل مجھے تھما کر دوبارہ چٹائی پر جا بیٹھتا۔

شاخ کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہم کوئی آدھ پون گھنٹے میں آپا کے گاؤں پہنچ جاتے، جونہی اونٹ ان کے دروازے پر پہنچتا، میرے نیچے اترتے ہی آپا کے سسر، چچا اسماعیل، لڑکوں کو آواز دیکر بلاتے جو فوراً کس کر باندھا ہوا پاکھڑا اتار کر اونٹ کو اس کی جکڑ سے نجات دلاتے اور اس کے آگے پانی اور چارہ لاکر رکھتے، یوں عصر کے وقت ہمارے لوٹنے تک وہ آرام کرتا اور شام سے پہلے ہمیں واپس اپنی منزل پر پہنچا دیتا جہاں اس کا مالک پہلے سے ہمارا منتظر ہوتا اور جانور کی نکیل پکڑ کر سیدھا اپنے گاؤں کا رخ کرتا، پانچ روپے کی دیہاڑی لگنے پر وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا تھا، کیا سستا زمانہ تھا۔ ابا کی تنخواہ صرف ڈیڑھ سو روپے ماہانہ تھی جس میں وہ 9 افراد پر مشتمل بڑے کنبے کی کفالت کرتے تھے اور ٹھاٹھ سے بسر ہوتی تھی۔

ذاتی سواری کے طور پر گھوڑے پالنے کا رواج تھا، آس پاس کے گاؤں دیہات سے لوگ اپنے گھوڑوں پر شہرآیا کرتے تھے، پہلے اپنا جانور باڑے میں چھوڑتے اور پھر وہ کام نمٹاتے جس کے لیے آنا ہوتا تھا۔ شروع میں چچا ڈاڑھوں کا ایک ہی باڑا ہوا کرتا تھا جو چارپائیاں بھی بْنا کرتے تھے، فارغ ہوتے تو اپنے چھپرے میں بیٹھے سستا رہے ہوتے، جونہی کوئی سواری باڑے میں داخل ہوتی، تیزی سے آگے بڑھ کر سوار سے باگ لیتے، کسی مناسب جگہ سائے میں کلہ منتخب کرکے جانور کو باندھتے، اس کی پیٹھ سے بندھا ہوا سامان اتارکر چھپرے میں رکھتے، پانی کی بالٹی بھر کر لاتے اور اس کے آگے رکھ کر قریبی گھاس بیچنے والے کو آواز دیکر چارہ منگواتے، پسینہ سوکھتا تو جانور کی مالش بھی کرتے جو اگر دن بھر کے لیے نہیں تو تین چار گھنٹے ضرور ان کی تحویل میں رہتا تھا۔

اس خدمت کا معاوضہ وہ صرف ایک روپیہ وصول کرتے تھے اور اوسطاً بیس تیس روپے روزانہ کما لیتے تھے۔میروں کے منشی صدیق عرف ریڈیوکو باڑے کی زمین کا 5 روپے ماہانہ کرایہ ادا کرنے کے بعد بھی سات آٹھ سو بچا لیتے تھے جس سے اچھی گزر بسر ہوتی تھی۔ ان کی دیکھا دیکھی بعد میں ایک طرف سے مستری رشید کی بڑھئی کی دکان تو دوسری جانب سے ہل، کدالیں، درانتیاں اور کلہاڑیاں وغیرہ بنانے والے کاریوں کے گھروں کے سامنے ایک اور باڑا بھی قائم ہوگیا تھا، وہ چل نکلا تو سائیں الہ ڈنو نے بھی چچا ڈاڑھوں کے باڑے والی لائن میں کھٹیوں کی آرا مشین کے پاس تیسرا باڑا کھول لیا، وہ پہلے کبھی ہمارے ڈرائنگ ٹیچر ہوا کرتے تھے۔

ایلیمینٹری گریڈ ڈرائنگ کا امتحان دلانے وہی ہمیں ٹنڈو باگو لے کر گئے جہاں ہمارا سینٹر پڑا تھا۔ پتہ نہیں کیوں لڑکوں نے ان کا نام پھوکنو (غبارہ) رکھ چھوڑا تھا، شاید ان کے بھاری بھرکم جسم کی وجہ سے۔ تو میں آپکو اس زمانے کی سواریوں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ آپا کے سسر چچا اسماعیل کے پاس بھی سواری کے لیے گھوڑی ہوا کرتی تھی، ایک بار جب اس نے بچہ دیا تو میں وہیں آپا کے پاس گیا ہوا تھا، مجھے وہ بہت اچھا لگتا تھا اور میں ہر وقت اسکو اچھل کود کرتے اور ماں کا دودھ پیتے دیکھا کرتا، ایک دن چچا اسماعیل نے مجھ سے پوچھا تم گھوڑا پالو گے، میں نے کہا ہاں تو انھوں نے سچ مچ وہ مجھے دے دیا۔ کاریوں کے گھروں کے پاس ہی بروہی قبیلے کے لوگ آباد تھے، ان میں سے کچھ تو سنار کا کام کرتے اور زیورات بناتے بیچتے تھے جب کہ اکثر کا پیشہ گھوڑوں کو سدھانا تھا۔

رلو، مْنوں اور نہ جانے کون کونسی چالیں تھیں جوگھوڑوں کو سکھائی جاتی تھیں، دو تین مہینے جانور ان کی تحویل میں دے دیا جاتا تھا جس کا چارے کی قیمت سمیت وہ ٹھیک ٹھاک معاوضہ پاتے تھے جو ٹریننگ مکمل ہونے پر مالک کی طرف سے جانور کا ٹیسٹ لیتے وقت ادا کیا جاتا تھا۔ ابا نے مجھے ملا ہوا وچھیرا (گھوڑے کا بچہ) بھی سدھانے کے لیے انھی بروہیوں کو دیا تھا، تربیت لے کر آنے کے بعد سارا دن گھر میں بندھا رہتا تھا۔ کبھی بھائی جان تو کبھی میں اسے پانی پلانے اور نہلانے شاخ پر لے جایا کرتے تھے۔

ایسے جانور شروع شروع میں چونکہ بدکتے بہت تھے اس لیے ابا ہمیں اس پر سوار ہونے سے سختی سے منع کرتے مگر ہم ان کی ہدایت پر پولیس تھانے کا چبوترا آنے تک ہی عمل کرتے اور وہاں پہنچ کراس پر نہ صرف سوار ہوجاتے بلکہ تیز بھگاتے ہوئے شاخ تک یا کبھی اور بھی آگے لے جاتے، وہ کبھی بدک جاتا تو ہمیں گرا بھی دیا کرتا، چوٹیں کھا نے کے باوجود ہم باز نہ آتے اور اپنی پریکٹس جاری رکھتے۔

ابا کا کبھی شکار کے لیے جانے کا موڈ بنتا تو ٹرنک سے اپنی دونالی بندوق نکالتے، کارتوسوں کا پٹہ کندھے سے لٹکاتے اور گھوڑے پر سوار ہوکر چل پڑتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر شکار کے لیے جاتے ہوئے ان کا گھوڑا بدک گیا اور اس نے بے قابو ہوکر سرپٹ بھاگنا شروع کردیا، ابا کا ایک پاؤں رکاب سے نکل گیا اور دوسرا پھنسا رہ گیا، نہ صرف جھٹکے سے گرے بلکہ کچھ دور تک گھسٹتے ہوئے بھی گئے، اس حادثے میں ان کے ایک پاؤں کی ہڈی ٹخنے کے پاس سے ٹوٹ گئی تھی۔ لیکن ’’چھٹتی نہیں ہے کافر منہ کو لگی ہوئی‘‘ کے مصداق ان کا گھڑ سواری کا شوق نہ گیا۔

فیملی کے ساتھ ایک سے دوسرے گاؤں یا گاؤں سے شہر آنے جانے کے لیے اس زمانے میں بیل گاڑیاں استعمال ہوتی تھیں کہ ایک ماتلی ڈگری روڈ کے سوا پختہ سڑکوں کا کہیں کوئی وجود نہ تھا، کچے راستوں پر سفرکے لیے ایسی ہی سواریاں مناسب سمجھی جاتی تھیں، شاید یہی وجہ تھی کہ کیٹی کے رئیس علی بخش نظامانی، ان کے پڑوسی عبدالرحیم گھاروڑی، چوہدری غلام علی اورکئی دوسرے بڑے زمینداروں کے پاس بھی کاریں یا جیپیں وغیرہ نہیں ہوتی تھی اور وہ بھی کہیں آنے جانے کے لیے گھوڑوں کی سواری استعمال کرتے تھے۔

صرف میروں کو استثنیٰ حاصل تھا جن کے پاس لمبی لمبی شیورلیٹ کاریں ہوا کرتی تھیں، ان کے علاوہ لے دے کے ٹھری کے حاجی دودو نظامانی یا مانک لغاری کے حاجی نجم الدین سریوال کبھی کبھی اپنی جیپوں میں آتے جاتے دکھائی دیتے تھے، اب تو ہمارے ایک دوست کے بقول جس کے گھر میں کھانے کو آٹا نہیں ہے وہ بھی ایک عدد گاڑی کا مالک ہے، موٹر سائیکلیں توگاؤں دیہات میں کتوں سے بھی زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں، اگر یہ ترقی ہے تو سندھ کے دیہی علاقوں نے واقعی بہت ترقی کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔