ملکی تاریخ کے بڑے فارن کرنسی ایکسچینج اسکینڈل کی تحقیقات شروع

اسد کھرل  جمعـء 12 اپريل 2013
ویسٹرن یونین، لوکل فارن ایکسچینج کمپنیز اور اسٹیٹ بینک کے درمیان مشکوک ڈیلز کے ذریعے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا. فوٹو: فائل

ویسٹرن یونین، لوکل فارن ایکسچینج کمپنیز اور اسٹیٹ بینک کے درمیان مشکوک ڈیلز کے ذریعے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا. فوٹو: فائل

لاہور: ایف آئی اے نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے فارن کرنسی ایکسچینج اسکینڈل کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔

ویسٹرن یونین، لوکل فارن ایکسچینج کمپنیز اور اسٹیٹ بینک کے درمیان مشکوک ڈیلز کے ذریعے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ اس حوالے سے پولیس اسٹیشن ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل لاہور میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اسٹیٹ بینک کے ایکسچینج پالیسی ڈیپارٹمنٹ کے سینئیر جوائنٹ ڈائریکٹر نجم الثاقب کے ناقابل ضمانت وارنٹ بھی جاری ہوچکے ہیں۔ باخبر ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی اے پنجاب اور سندھ نے ملزمان کی گرفتاری کیلیے چھاپے مارنا شروع کردیے ہیں۔

ایف آئی اے نے ایکسچینج پالیسی ڈیپارٹمنٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسد قریشی، ڈائریکٹر منصور علی، ایڈیشنل ڈائریکٹر معین الدین، ویسٹرن یونین کے کنٹری منیجر حمید فرید، سابق کنٹری ہیڈ صوبیہ رحمٰن اور سینیئر نائب صدر مشرق وسطیٰ و افریقہ(ویسٹرن یونین فنانشل سروسز) کو سمن جاری کیے ہیں۔ ایکسچینج پالیسی ڈیپارٹمنٹ نے ایف آئی اے کو مطلوبہ ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے اور ویسٹرن یونین کے نمائندوں کو بھی کہا ہے کو وہ بھی تحقیقات کا حصہ نہ بنیں۔ ایف آئی اے نے بھی ملزم جوائنٹ ڈائریکٹر نجم الثاقب کیخلاف دستاویزی ثبوت حاصل کرلیے ہیں۔

ایف آئی اے کو دستیاب ثبوتوں کے مطابق نجم الثاقب کے بیٹے کی فیس فارن ایکسچینج کمپنی کے سی ای او مبشر حیات کی ہدایت پر زارکو کے اکائونٹ سے ادا کی گئی ۔ نجم الثاقب اور کچھ دوسرے افسروں کو زارکو کو غیر قانونی طریقے سے فارن ایکسچینج ملک سے باہر بھیجنے سے روکنا تھا۔تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ویسٹرن یونین نے سالانہ ڈیڑھ ارب روپے منافع کے باوجود ایک پیسے کا بھی ٹیکس نہیں دیا۔ ایف آئی اے کی طرف سے ٹیکس حکام کے اس معاملے کو نظر انداز کرنے کی بھی جانچ پڑتال کی گئی ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ ایکسچینج کمپنی کے سابق سی ای او مبشر حیات اور دیگر ملزمان کی گرفتاری سے ڈالر کی قدر میں ایک سے ڈیڑھ روپیہ کمی ہوئی اور اس بات کو اسٹیٹ بنک نے بھی تسلیم کیا ہے۔ ایف آئی اے حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ریکارڈ مہیا کیا جائے اور تحقیقات مکمل ہوں تو مستقبل میں غیر قانونی ٹرانسفرز کو روکا جاسکتا ہے۔ بااعتماد ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ گورنرا سٹیٹ بینک اپنے افسروں کو بچانے کی کوششیں کرر ہے ہیں۔ اس حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک نے انٹیلی جنس افسران سے بھی رابطہ کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔