پاکستان میں امریکی حکومت

سید شرجیل احمد قریشی  اتوار 15 اپريل 2018
ہم نے 70 سال میں کچھ نہیں سیکھا، مگر امریکہ بہت کچھ سیکھ گیا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ہم نے 70 سال میں کچھ نہیں سیکھا، مگر امریکہ بہت کچھ سیکھ گیا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ہمارا پیارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا اور دنیا کے نقشے پر ایک ایسا ملک بن کر ابھرا جس کی بنیاد اور اساس خالصتاً اسلامی تھی۔ پوری دنیا میں پاکستان وہ دوسری مملکت ہے جو اسلام کے نام پر بنی، جس میں اقتدار اعلیٰ کا تصور صرف خدا تعالیٰ کو حاصل ہے۔

پاکستان کو بنے 70 سال کا عرصہ بیت گیا۔ ان 70 سال میں اگر ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ جیسے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک پاکستان میں نہ ہی جمہوریت نے اپنے قدم جمائے، اور نہ مارشل لاء نے۔ ایسا نظر آتا ہے جیسے اس ملک میں جو طاقت پہلے دن سے برسرپیکار ہے، وہ امریکہ ہے۔ اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب امریکہ کروا رہا ہے۔

8 جون 1949ء کو پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ حکومتِ روس نے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کو روس کے دورہ پر آنے کی دعوت دی ہے۔ 2 جون 1949ء کو تہران میں سوویت ناظم الامور نے پاکستانی سفیر راجہ غضنفرعلی خان کو لیاقت علی خان کے دورہ ماسکو کی سرکاری دعوت زبانی طور پر دی۔ ایک دلچسپ اتفاق ہوا کہ جس دن سوویت یونین کے ناظم الامور نے ایران میں پاکستانی سفیر کو وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورہ روس کی دعوت دی، اس کے اگلے ہی دن یعنی 3 جون 1949 کو امریکی محکمہ خارجہ نے 75 ایم ایم گولہ بارود کے دولاکھ راؤنڈ پاکستان کو منتقل کرنے کی درخواست منظور کرلی۔ پاکستان کو اس فیصلے کی اطلاع دینے کے بعد واشنگٹن یہ اعتماد کرسکتا تھا کہ پاکستان کے حکمران ہاتھ آئے ہوئے مال اور محض توقعات کے درمیان فرق کو محسوس کرسکتے ہیں؛ اور پھر ہوا بھی یہی۔ چند ہی ماہ بعد اسٹالن کی دعوت اور لیاقت علی خان کی رضامندی دھری کی دھری رہ گئی اور وزیراعظم لیاقت علی خان اور ان کی بیگم روس کی بجائے امریکا کی دعوت پر واشنگٹن پہنچ گئے۔

میرے خیال کے مطابق لیاقت علی خان کا دورہ امریکہ تب سے آج تک ایسا غلط فیصلہ ہے جس کا خمیازہ 70 سال گزرنے کے بعد بھی ہم عوام اٹھا رہے ہیں۔ ہم نے ان گزرے 70 سال میں کچھ نہیں سیکھا، مگر امریکہ بہت کچھ سیکھ گیا ہے۔ اور امریکہ یہ بات بخوبی جان گیا کہ اس نے کس طرح پاکستانی عوام اور پاکستانی حکمرانوں کی نبض پرہاتھ رکھ کر ہماری تکلیفوں کو، ہماری ضرورتوں کو، اور ہماری محتاجی کو کیش کرانا ہے۔ وہ یہ بات بھی سمجھ گیا ہے کہ پاکستانی فقط اتنا چاہتے ہیں کہ ان کو امریکی انتظامیہ کی طرف سے ہر بار کسی نہ کسی مد میں ڈالرز کی برسات ہوتی رہنی چاہیے؛ بھلے ڈالر یوایس ایڈ کی صورت میں ہوں یا کسی فوجی سپورٹ کی مد میں۔

کبھی امریکہ اجتماعی حیثیت میں افغانستان پر حملہ کر کے تورہ بورہ کے پہاڑوں کا سرمہ بنا دے تو کبھی انفرادی حیثیت میں اپنے بہت سے گلو بٹ (ریمنڈ ڈیوس) کی شکل میں ہر ملک میں بھیج کر وہاں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ سرد جنگ کا آغاز کردے اور پھر پوری دنیا میں اس بات کا واویلا کرے کہ امریکہ صدق دل سے پوری دنیا سے دہشتگردی کا خاتمہ چاہتا ہے۔

ہمارے پہلے وزیراعظم نے امریکہ کا دورہ کرکے شاید یہ احساس امریکہ کے دل میں زندہ کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان صحیح معنوں میں امریکہ سے خوشگوار تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے، مگر امریکہ ہر بار پاکستانیوں کو دہشت گردی، لسانی فرقہ واریت اور مسلک کے نام پر آپس میں لڑوا کر اور پاکستانی سڑکوں پر سرِعام پوری دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے نہتے پاکستانیوں کو اپنے سفارت خانوں کی گاڑیوں کے کے نیچے روند کر اپنی حاکمیت منوانا چاہتا ہے۔ اس طرح کے بڑھتے ہوئے دلخراش واقعات کے بعد ہمیں ایک بار پھر امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات اور روابط کا از سرِ نو جائزہ لینا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے، اور اس ملک کی عوام کا خون اتنا سستا نہیں کہ جب چاہیں نشے کی حالت میں اس پر گاڑی چڑھا کر اپنی روح اور نفس کی تسکین کی جائے۔ ہم نے ان ستر سالہ پاک امریکہ تعلقات میں شاید اتنا کچھ نہیں پایا جتنا کچھ ہم کھو چکے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔