نسلوں کی تباہی، امتحانات میں نقل

مزمل فیروزی  اتوار 15 اپريل 2018
اس سال کراچی میں نقل کا بھاؤ 3000 روپے سے 5000 روپے فی بچہ چل رہا ہے اور بچے اپنے اسکول پرنسپل کو نقل کےلیے یہ رقم دے رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اس سال کراچی میں نقل کا بھاؤ 3000 روپے سے 5000 روپے فی بچہ چل رہا ہے اور بچے اپنے اسکول پرنسپل کو نقل کےلیے یہ رقم دے رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ہر سال میٹرک کے امتحانات کے اعلانات ہوتے ہی ہر طرف امتحان اور نقل کا چرچا شروع ہوجاتا ہے۔ مگر اس مرتبہ تو حد ہی ہوگئی۔ امتحانات سے پہلے سندھ بھر میں واٹس ایپ گروپ تشکیل دے دیئے گئے اور پرچہ حاصل کرنے کےلیے لوگوں نے بڑی رقم واٹس ایپ گروپوں میں ایزی پیسہ کے ذریعے ادا کی۔

اس بار وڈے سائیں کی طرف سے نقل روکنے کے سخت احکامات ہیں، دفعہ 144 کے نفاذ کے ساتھ اسمارٹ فونز بھی امتحانی مراکز میں ساتھ لانے کی اجازت نہیں۔ مراکز میں داخل ہونے سے پہلے طلبا کی جامہ تلاشی کا بھی حکم ہے۔ اس کے باوجود بھی کچھ نہیں رک سکا اور کراچی کے زیادہ تر سرکاری اسکولز میں نقل عروج پر ہے کیونکہ اسکولز کے پرنسپل حضرات ہی تو نقل مافیا کے سرکردہ ہیں جب کہ امتحانی مراکز میں موبائل فون سمیت دیگر ذرائع کا کھلے عام استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کھلے عام نہ صرف نقل کرائی جارہی ہے بلکہ بعض مراکز میں انفرادی طور پر بھی امیدواروں سے رقم لے کر انہیں علیحدہ کمرے میں بٹھا کر نقل کرائی جارہی ہوتی ہے۔

حال یہ ہے کہ امتحانی مراکز کو خرید کر طلبا و طالبات کو نقل کرانے کا کاروبار مافیا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ پرائیویٹ اسکولز بچوں کو سال بھر محنت کرانے کے بجائے امتحانی مراکز ہی خرید لیتے ہیں اور یہاں تک کہ پرچہ شروع ہونے سے پہلے پرچہ بھی باہر منگا لیتے ہیں۔ اساتذہ خود بچوں سے پیسے لے کر نقل کراتے نظر آتے ہیں۔ یہ کراچی کے ایک دو نہیں بلکہ کئی امتحانی مراکز کا حال ہے۔

گلی محلوں میں قائم چھوٹے تعلیمی ادارے اپنی دھاک بیٹھانے کےلیے جہاں ان کے بچوں کا سینٹر پڑتا ہے وہاں کے پرنسپل سے مل کر فی بچہ کے حساب سے سیٹنگ کرلیتے ہیں اور اس طرح ان کے اسکول کے بچوں کو الگ کمرہ اور نقل کی سہولیات دے دی جاتی ہیں۔ یوں ان اسکولوں کے طلبہ اے گریڈ اور اے ون گریڈ لے آتے ہیں۔ اس سال کراچی میں تین ہزار سے پانچ ہزار فی بچہ ریٹ چل رہا ہے اوربچے اپنے اسکولز کے پرنسپل کو نقل کےلیے رقم مہیا کر رہے ہیں۔

ہم نے سوشل میڈیا پر کچھ دن پہلے اسٹیٹس لگایا تھا کہ پرائیویٹ اسکولز والوں کی چاندی ہوگئی۔ وہ اسٹیٹس اسی بابت تھا کہ اگر ایک اسکول میں پچاس بچے ہیں اور ہر بچہ پانچ ہزار دیتا ہے اور پرنسپل آگے تین ہزار میں سیٹنگ کرلیتا ہے تو اسے فی بچہ دو ہزار روپے بچ جاتے ہیں جس سے اسکولز والے ایک اچھی رقم کما رہے ہیں اور علاقے میں اسکول کا بھی نام ہے کہ اس اسکول کے سارے بچوں کا اے گریڈ آتا ہے۔

والدین پورے سال بھاری فیسیں بھی جمع کراتے ہیں اور سال کے آخر میں اپنے بچوں کو نقل کرانے کےلیے خوشی خوشی رقم بھی فراہم کرتے ہیں۔ آفرین ان والدین پر جو اپنے بچوں کو نقل کرانے کےلیے پیسے دیتے ہیں! اگر یہ قوم کا مستقبل ہے تو پھر، خاکم بدہن، اس قوم کا کوئی مستقبل نہیں۔

جب تعلیمی بورڈز گورنر کے پاس تھے تو گورنر ہاﺅس کی جانب سے محکمہ تعلیم کے ساتھ ویجی لینس ٹیمیں تشکیل دی جاتی تھیں جو روزانہ کی بنیاد پر میٹرک اور انٹر کے امتحانی مراکز کا دورہ کرتیں اور نقل کرنے والے طلبہ اور انہیں مدد دینے والوں خلاف کارروائی کرتیں، جس کی وجہ سے نقل کے رجحان میں خاصی کمی ہوئی تھی۔ لیکن رواں سال تو صورتحال انتہائی سنگین ہے۔

اس سال امتحانات میں ساڑھے 3 لاکھ سے زائد طلبا و طالبات شریک ہوئے۔ نقل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہر کے کئی اسکولوں کو گنجائش سے زیادہ طلبہ کا امتحانی مرکز بنادیا گیا ہے اور چھوٹے چھوٹے اسکولز کو مراکز بنایا گیا ہے۔

نقل کے جن کو قابو کرنے کےلیے ضرورت اس امر کی ہے کہ امتحانات کا انعقاد مقابلے کے امتحانات کی طرح یونیورسٹیز اور بڑے کالجز میں لیا جائے اور اگر ضرورت بڑے تو اسٹیڈیم اور کھیلوں کے گراﺅنڈز بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ اگر بات گرمی اور پنکھوں کی ہے تو وہ مسئلہ اب بھی موجود ہے۔ اسکولز میں پنکھے نہیں ہوتے اور جہاں پنکھے ہوں تو وہاں بجلی نہیں ہوتی۔

اس لیے ہماری تجویز ہے کہ اسکولز کو امتحانی مراکز بنانے کے بجائے صرف تین سے چار بڑے امتحانی مراکز بنائے جائیں جس سے نقل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ابتدائی طور پر کراچی میں تجربہ کیا جاسکتاہے۔

اس موقعے پر ہمیں اپنے استاد محترم کی بات شدت سے یاد آرہی ہے کہ قوم کی بربادی کےلیے ایٹم بم یا میزائل کی ضرورت نہیں ہوتی؛ اس کےلیے صرف تعلیم کا خراب معیار اور امتحانات میں طلبا کو نقل کی چھوٹ دینا ہی کافی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مزمل فیروزی

مزمل فیروزی

بلاگر انگریزی میں ایم اے کرنے کے بعد ایک مقامی روزنامہ میں بطور صحافی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ آپ ٹوئٹر پر ان سے @maferozi پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔