اچھی تعلیم و تربیت کے مواقعے

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 15 اپريل 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ آپﷺ نے جہاں اپنی زندگی اﷲ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے میں صرف کردی اور ایک اسلامی معاشرہ تشکیل دے کر ہر لحاظ سے مکمل انقلاب برپا کیا، وہاں لوگوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے بھی کوششیں جاری رکھیں اور ایک ایسی ٹیم اور نظام تشکیل دیا کہ اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا بھر میں تمام اسلامی مکتبہ فکر میں درس و تدریس کا سلسلہ باقاعدہ آج بھی جاری ہے۔

دشمن اسلام کی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح اس درس و تدریس کے عمل کو نشانہ بنایا جائے، کیونکہ دینی تعلیم کا یہ سلسلہ ان افراد کو تیار کرتا ہے جو کہ نہ صرف ایک اچھے اور مثالی مسلمان ہوتے ہیں بلکہ اسلام کے خلاف کسی بھی قسم کی یلغار کو روکنے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔

اسی تناظر میں برصغیر پاک و ہند میں جب انگریزوں نے اپنے قدم جمائے تو ان کی پہلی کوشش یہی تھی کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کو اس سلسلہ درس و تدریس سے کاٹ کر الگ کر دیا جائے، چنانچہ اس مقصد کے لیے انگریزوں نے ایک نیا تعلیمی نظام متعارف کرادیا۔ اس نظام تعلیم سے پڑھ کر نکلنے والوں کے جسم تو ہندوستانی اور مسلمانوں ہی کے ہوتے تھے مگر ان کے اذہان غیر اسلامی فکر کے حامل ہوجاتے تھے۔

(اکبر الہ آبادی نے تو انگریزوں کے تعلیمی نظام کا اپنی شاعری کے ذریعے پوسٹ مارٹم ہی کر ڈالا تاکہ قوم اس کو اچھی طرح سمجھ سکے)، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء نے اس تعلیمی نظام کی بڑھ چڑھ کر مخالفت کی اور اپنے طور پر دینی مدارس کے قیام کے ذریعے درس و تدریس کا مضبوط جال پھیلایا تاکہ ان لادینی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکے۔

آج ہمارے پاکستان میں سیکولر نظام تعلیم عام ہے اور کہنے کو تو علماء کی کوششوں سے اس سیکولر نظام تعلیم میں نصاب کی سطح پر اسلامی تعلیمات کو شامل کردیا گیا ہے مگر یہ کل نصاب میں بہت ہی کم، گویا آٹے میں نمک کے برابر ہے اور اس کو اب مزید کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چنانچہ ایسے ماحول میں دینی درس و تدریس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

یہ بات قابل اطمینان بخش اور باعث خوشی ہے کہ ہمارے علماء اپنی دن رات کی محنت اور کوششوں سے عام لوگوں کے لیے درس و تدریس کا دینی سلسلہ چلا رہے ہیں اور دور حاضر کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا اسلامی نصاب بھی رکھتے ہیں، جس کے سبب عام افراد بھی ان دینی مدارس سے منسلک ہو کر دینی ودنیاوی تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں اور خالص دینی کورسز بھی کررہے ہیں۔

چند روز قبل راقم کو رہبر اسلامک فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ’’ایجوکیشنل سمپوزیم‘‘ میں شرکت کا موقع ملا۔ اس تقریب میں چھوٹے، کم عمر بچوں کو سننے کا اتفاق ہوا جنھوں نے حاضرین کے سامنے ’مکالمہ‘ بھی پیش کیا، حفظ قرآن کا علماء کے سامنے امتحان بھی دیا، مختلف موضوعات پر انگریزی، عربی اور اردو زبان میں اظہار خیال بھی کیا۔ ان بچوں کی خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے جو کچھ بھی پیش کیا اس میں ان کی زبان و بیان انتہائی شاندار اور انگریزی، عربی اردو تلفظ، جملوں کی ادائیگی وغیرہ متاثرکن تھی۔ لگتا نہیں تھا کہ یہ اتنے کم عمر ہیں۔

راقم نے پہلی مرتبہ کسی دینی مدرسہ کی تقریب میں شرکت کی، محسوس ہوا کہ یہاں بچوں میں وہ نظم و ضبط، اخلاقی قدریں اور اپنے علم پر وہ عبور ہے کہ جو ہمارے اعلیٰ سیکولر تعلیمی اداروں میں نظر نہیں آتا، (میں خود پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ میں گزشتہ بیس سال سے مشاہدہ کررہا ہوں)۔

بہرکیف اس تقریب میںشرکت کرکے یہ احساس ہوا کہ ان بچوں کو اس مقام پر جن علما اکرام اور اساتذہ نے پہنچایا ہے وہ تو قابل تعریف ہیں ہی مگر رہبر اسلامک فاؤنڈیشن کی کارکردگی بھی لاجواب ہے کہ انھوں نے جس مقصد کے لیے بیڑا اٹھایا وہ مقصد حاصل ہورہا ہے۔

’’رہبر اسلامک فاؤنڈیشن‘‘ کا قیام یکم ربیع الاول 1423 ھ کو لایا گیا، جس کا مرکزی دفتر جامعہ فیضان اولیاء متصل جامع مسجد فاران، مارٹن روڈ پیرکالونی کراچی میں قائم کیا گیا۔ اس فاؤنڈیشن کے سرپرست حضرت علامہ مولانا عبدالجبار نقشبندی اور پہلے چیئرمین کے طور پر الحاج انجینئر محمد زبیر قادری منتخب ہوئے۔ اس ٹرسٹ کے باقاعدہ عہدیداروں میں الحاج انجینئر محمد مقصود قادری، حکیم اختر حسین نعیمی، حاجی محمد منصور قادری اور محمد خالد قادری شامل ہیں، جب کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔

اس فاؤنڈیشن کے قیام کا مقصد سیکولر اور لادینی تعلیم کے دوران اسلامی اور دورجدید کی تعلیمات اس طرح لوگوں تک پہنچانا ہے کہ وہ مہنگائی کے اس دور میں علم کی دولت سے محروم بھی نہ ہو اور انھیں درست نظریاتی، علمی وفکری تعلیم بھی میسر آسکے۔ نیز جو لوگ دنیاوی تعلیم حاصل کرکے مختلف روزگار سے منسلک ہیں انھیں بھی دینی تعلیم کی روشنی سے منور کیا جائے تاکہ وہ اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں معاملات کو اسلامی تعلمات کے تحت گزار سکیں اور فیصلے بھی کر سکیں۔

یوں دیکھا جائے تو رہبر اسلامک فاؤنڈیشن سمیت ہمارے ہاں مختلف مکتبہ فکر و مسالک کے علما، (اہل علم و دانشوروں کے ساتھ) مدارس کے ذریعے ایک ایسی خدمت انجام دے رہے ہیں کہ جس سے ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے لادینی نظریات کا سدباب بھی ہورہا ہے اور اسلامی پیغام بھی روشنی کی طرح پھیل رہا ہے، جو بلاشبہ مادہ پرستی اور جدیدیت کے اس غیر دینی ماحول میں ایک عظیم کام ہے۔

ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں والدین اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں، وہ چاہتے تو ہیں کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کر آگے بڑھیں مگر ان کے لیے مالی مشکلات بہت ہیں، مدارس میں اب میٹرک اور ماسٹرز تک کی سطح پر اسلامی تعلیمات کے ساتھ وہ تعلیم بھی دی جارہی ہے کہ جس سے طلبا زندگی کے مختلف شعبوں میں ملازمت اور کام کاج کر سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں ہمارا میڈیا اور سیکولر تعلیمی ادارے بہت تیزی کے ساتھ لادینی نظریات پھیلا رہے ہیں جن کے سدباب کے لیے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

یہ بات اطمینان بخش ہے کہ مدارس یہ کردار ادا کر رہے ہیں اور آج ایسے ہی کام اور کوشش کی سخت ضرورت ہے جس میں ہم سب تمام دینی سوچ رکھنے والی قوتوں کو ساتھ دینا چاہیے، کیونکہ ان کوششوں کے ساتھ دینے کا مطلب اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے پرچم کو بلند رکھنا اور ان کے پیغام کوآگے بڑھانا ہے جو کہ ایک مسلمان کا دینی تقاضا بھی ہے، ویسے بھی یہ مدارس ہمارے معاشرے میں بہتر تعلیم کے مواقعے فراہم کررہے ہیں جوکہ ہماری ضرورت بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔