غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر

رحمت علی رازی  اتوار 15 اپريل 2018
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

یہ اﷲ پاک ہی ہے جو انسان کو عزت سے بھی سرفراز کرتا ہے اور جس کی طرف سے انسان پر ذلت و رسوائی اور زوال اترتا ہے۔ جو انسانوں کو ملکوں کا اقتدار اور اختیار بخشتا ہے تا کہ انھیں آزمایا جا سکے۔

اﷲ کی عطا کردہ ہر نعمت میں دراصل آزمائش ہے، چنانچہ عقلمندوں کو جب اقتدار ملتا ہے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں اور دست بہ دعا رہتے ہیں کہ یاالٰہی ہمیں راستے سے بھٹکنے نہ دینا اور ہمیں توفیق عطا فرماتے رہنا کہ ہم اپنی رعایا اور عوام کے حقوق کی حفاظت کرتے رہیں۔ مگر ناسمجھدار اور متکبر لوگوں کو جب اقتدار ملتا ہے تو ان میں رعونت اور اکڑ پیدا ہو جاتی ہے۔

وہ عوام کے حقوق غصب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اور عوامی خزانے کو شیرِ مادر کی طرح ہڑپ کرنا اپنا حق سمجھ لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اقتدار ہمارے اپنے زورِ بازو کا کمال ہے۔ بدقسمتی سے نواز شریف نے بھی یہی سمجھا، چنانچہ اﷲ کی طرف سے سزا کا آنا لازم ہو چکا تھا۔ 13 اپریل کی دوپہر کو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے ان کے خلاف جو فیصلہ سنایا گیا ہے، یہ دراصل نواز شریف کے اپنے کیے کی سزا ہے۔ وہ اب تاحیات نااہل قرار دئیے جا چکے ہیں۔

جمعتہ المبارک کو عدالت عظمیٰ نے یہ مبارک فیصلہ آئین کے آرٹیکل 62(1) (ایف) کے تحت سنایا ہے۔ نوازشریف ویسے تو ٹھیک دو ماہ پہلے سپریم کورٹ کی طرف سے ناہل قرار دے دئیے گئے تھے لیکن یہ ابہام ابھی باقی تھا کہ آیا یہ نااہلی عارضی ہے یا مستقل؟ اب سپریم کورٹ کے پانچ معزز جج صاحبان نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ سنادیا ہے کہ سابق وزیراعظم نوا زشریف اور پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین تاحیات نااہل ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے عوام کی اکثریت کے دل جیت لیے ہیں۔ اکثریتی عوام دراصل توقع بھی یہی کر رہی تھی کہ نواز شریف پر الزام بھی تو بڑے سنگین اور بھاری تھے۔ اس فیصلے سے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت اور اس میں تشریف فرما سب جج صاحبان کے احترام اور قد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی عوام کے دلوں میں جسٹس صاحبان کے بارے تکریم مزید بڑھ گئی ہے۔

یقیناً اس شاندار اور عظیم فیصلے کے ہماری سیاست اور ہمارے حکمرانوں پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ انھیں ’’کان‘‘ ہو گئے ہیں۔ وہ کرپشن کی طرف ہاتھ بڑھاتے وقت سو بار سوچیں گے۔ اس فیصلے پر ساری قوم شکرگزار ہے۔

مشہور کہاوت ہے: ’’ہر کمال کو زوال ہے۔‘‘ تو کیانون لیگ یعنی شریف خاندان نے سیاست واقتدار میں جتنا ’’کمال‘‘ حاصل کرنا تھا، کر لیا؟ جتنا ’’عروج‘‘ پانا تھا، پالیا؟ کیا اب زوال کی گھڑی آ پہنچی ہے؟ قرائن وآثار واضح ہو رہے ہیں۔ دیوار پر لکھی تحریر دھندلکوں سے نکل کر نمایاں ہو رہی ہے۔ مگر جنہیں نظر آنا چاہیے ، اُنہیں یہ زوال نظر نہیں آرہا۔

کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں ، دل جلے اور حقائق آشنا تو ببانگِ دہل یہ بھی کہہ رہے کہ شریف خاندان نے اگر اقتدار و سیاست میں کوئی عروج حاصل کیا ہے اور اگر کوئی کمال پایا ہے تو اِس کا براہِ راست فائدہ صرف اور صرف ایک خاندان اور اس خاندان کے وابستگان کو پہنچا ہے یا اس خاندان کے ریزہ چینوں نے فائدے اُٹھائے ہیں۔ ملک ،قوم اور وطن کو اس مقتدر خاندان اور اُس پارٹی سے کوئی فیض نہیں پہنچا ہے، جسے تخلیق ہی اِس نیت سے کیا گیا تھا کہ صرف اپنے خاندان کو بنانا اور سنوارنا ہے۔

نون لیگ پچھلے چار عشروں سے اِس بدقسمت ملک سے جونک کی طرح چمٹی ہُوئی ہے ۔ اس جونک نے جہاں تک ممکن تھا، قومی جسد سے خون چُوسا ہے۔ یہاں تک کہ اِس کی کرپشن کی داستانیں شرق تا غرب پھیل گئی ہیں۔ لیکن ملک کے اندر اور بیرونِ ملک دولت کے انبار لگانے اور اربوں ڈالر کی جائیدادیں بنانے والے کسی عدالت اور محتسب کے سامنے کوئی اطمینان بخش اور تشفّی آمیز جواب نہیں دے پارہے ہیں کہ یہ دولت آئی کہاںسے؟

کن ذرائع سے اِس نے بیرونِ ملک اڑان بھری؟ اپنے معلوم ذرائع سے کہیں بڑھ کر جس اسلوب میں زندگیاں گزاری جارہی تھیں، اِن کا بھی جواب نہیں دیا جارہا۔ کوئی پوچھے تو فرسٹریشن میں بڑا ملزم کہہ اُٹھتا ہے: ’’بھئی اگر ذرائع سے بڑھ کر زندگی گزاررہا ہُوں تو تمہیں کیا؟‘‘ نہیں جنابِ والا، آپ ایسا نہیں کہہ سکتے ۔آپ سے جواب نہیں بن پارہا تو فیصلے کی گھڑی تو آ پہنچی ہے۔

دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے والا ہے۔ فرار کی سبھی راہیں مسدود کی جا چکی ہیں۔ بائیس کروڑ کا یہ ملک وہ لمحات دیکھنے کا شدت سے منتظر ہے جب کسی مقتدر اور طاقتور کا تاج بھی اُچھلے گا۔ جب واقعی کسی کا تخت ہمیشہ کے لیے گرا دیا جائے گا۔ یہ عبرتناک لمحے بس آیا ہی چاہتے ہیں۔ زندانوں کے دَر بس وا ہونے ہی والے ہیں۔ ملزمان کی چھٹی حِس بھی بتانے لگی ہے، اُن کی بائیں آنکھ بھی پھڑکنے لگی ہے، جیسے کچھ غیر معمولی ہونے والا ہے۔ جیسے لمحاتِ بد طلوع ہونے والے ہیں۔

اِسی لیے تو ’’بڑے ملزم‘‘نے عالمِ پریشانی میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’نیب‘‘ آرڈیننس کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ نہیں حضورِ والا، اب یہ نہیں ہوگا۔ ’’بڑے ملزمان‘‘ کی لاتعداد بدعنوانیوں اور ایک خاندان کی کرپشنوں کی وجہ سے مسائل اور مصائب کی چکّی میں پِستے اور بلکتے بائیس کروڑ عوام ’’نیب‘‘ کے خلاف آپ کی بدنیتیوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس ملک کے عوام نے ’’نیب‘‘ اور اس کے سربراہ سے بلند توقعات وابستہ کر لی ہیں ، جیسے اُنہوں نے اِس ملک کے قاضی القضاۃ سے بلند ترین توقعات وابستہ کر لی ہیں۔

یہ عوام ایسا نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی اس امر کی اجازت ہی دیں گے۔ اگر خدا نخواستہ، خدا نخواستہ ایسا ہُوا تو غصے اور طیش میں اُبلتے ہُوئے یہ عوام اُن لوگوں کے گھروں تک پہنچیں گے۔ پھر کیا ہوگا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جب ظلم ، استحصال اور لُوٹ کھسوٹ کے ستائے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے تو پھر فیصلے عدالتوں کے کٹہروں میں نہیں بلکہ گلیوں اور کُوچوں میں ہوتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان مگر ایک مضبوط عسکری طاقت اور ایک پائیدار عدلیہ کا حامل ملک ہے، اس لیے یہ نوبت نہیں آئے گی کیونکہ یہ دونوں ادارے انارکی کا کامیابی سے انسداد کرنے کی پوری اہلیت اور استعداد رکھتے ہیں؛جب ’’نیب‘‘ کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال اپنے ادارے کی سالانہ رپورٹ پیش کرنے صدر صاحب کے پاس حاضر ہُوئے۔ صدر نے ’’نیب‘‘ کی رپورٹ کو سراہا۔

لیکن بڑا ملزم اور اُس کے ساتھی اپنے ذاتی اور نجی مفادات کے لیے تو سرے ہی سے’’نیب‘‘ کی جڑ پر کلہاڑا چلا دینا چاہتے ہیں۔ ایسا کیا جانا مگر ممکن ہی نہیں کہ اِن فیصلہ کُن گھڑیوں میں یہ اقدام قومی خود کشی کے مترادف ہو گا۔ ’’نیب‘‘ اللہ کے فضل و کرم سے تاریخ ساز فیصلہ سنانے کے مقام پر پہنچ چکی ہے۔ اس کی سُن گُن پا کر یا نوشتہ دیوار پڑھ کر پرندے بھی شاخوں سے اُڑنے لگے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ جب طوفان آنے والا ہو تو اپنی فطری حِس کی بدولت چرند پرند کسی محفوظ مقام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ نون لیگ کے ’’درخت‘‘ پر بیٹھے کئی پرندے بھی خطرے کی بُو پا کر پرواز کرنے لگے ہیں۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ نون لیگ کا ’’درخت‘‘ نہیں ڈول رہا بلکہ مقتدر نون لیگ کا جہاز ڈول رہا ہے ۔ ڈوبنے سے پہلے جہاز کی کچھ ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ جہاز مگر کسی فنّی خرابی کی وجہ سے نہیں ڈُوب رہا بلکہ یہ اپنے گناہوں کے بوجھ تلے ڈُوبنے والا ہے۔

کرپشن کے گناہ۔ عوام سے مسلسل جھوٹ اور فریب کاری کے گناہ۔ وطن کی لُوٹ کھسوٹ کے گناہ۔ اقربا پروری کے گناہ۔ اقتدار اور اختیار کو اپنے ہی گھر اور اولاد کی لونڈی بنائے رکھنے کے گناہ۔ آدمی ان کے کس کس گناہ کا ذکر کرے؟کہاں تک سنوں گے، کہاں تک سنائیں؟

خطرہ بھانپتے ہوئے ان کی خانگی کیفیت اور ذہنی خلفشار ہمارے ملک کے ممتاز کالم نگار اور طرح دارشاعر جناب اظہار الحق کے ایک دلکش شعر کی مانند ہے جس میں حکمرانوں کی بے بسی اور مجبوریوں اورارکان قومی و صوبائی اسمبلی جس تیز رفتاری سے ان کے مقبول ’’بیانیہ‘‘ سے متاثر ہو کر ان سے جان چھڑا رہے ہیں کی پوری طرح عکاسی ہو رہی ہے کہ!

غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر

محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسمان جیسے

اب ان گناہوں کے بوجھ تلے دَب کر یہ جہاز ڈُوبنے لگا ہے تو ’’مسافر‘‘ چھلانگیں لگا کر، اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ‘‘سمندر‘‘ میں کُودنے لگے ہیں۔ پہل جنوبی پنجاب کے ’’مسافروں‘‘ نے کی ہے۔ ان کی تعداد نصف درجن سے زائد ہے۔سابق وزیر اعظم اور جنوبی پنجاب کے بزرگ اور زیرک سیاستدان بلخ شیر مزاری ان جرأتمند ’’باغیوں‘‘ کی قیادت کے لیے سامنے آچکے ہیں۔ ’’جنوبی پنجاب محاذ‘‘ معرضِ وجود میں آ چکاہے۔ ان باغیوں نے نون لیگ کے قلعے میں ایک بڑا شگاف ڈال دیا ہے۔

نواز شریف اور اُن کے برادرِ خورد ، جو اب خیر سے نون لیگ کے صدر ہیں، کا دعویٰ تھا کہ اس قلعے میں کوئی مائی کا لعل شگاف نہیں ڈال سکتا لیکن اب وقت آیا ہے تو معلوم اور منکشف ہُوا ہے کہ یہ قلعہ تو ریت کی دیوار کا بنا تھالیکن اس پر جھوٹ کی ملمع کاری کی گئی تھی۔ ایک دھکا اور لگے گا تو عین ممکن ہے اس کی ساری دیواریں ہی مسمار ہو جائیں۔ ڈھے کر زمین بوس ہو جائیں، اس لیے کہ اس کی تعمیر میں اخلاص ، محبت اور اخوت کے جذبات کارفرما نہیں تھے بلکہ لالچ اور فریب اس کی تعمیر کے بڑے عناصر تھے۔

اِس جھٹکے کو نواز شریف، شہباز شریف اور اُن کا مقتدر خاندان برداشت نہیں کر پائے گا۔ باقی رہی نون لیگی وابستگان کی بات تو وہ بیچارے اس پارٹی سے اتنے ہی مخلص ہیں جتنے اس کے بانیان۔ چُوری تو کھائیں جاتی امرا والے اور عذاب سہیں کارکنان؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جس رنگ ڈھنگ سے شریف خاندان رہے ہیں، اس رنگ نے دوست کم اور نفرت کرنے والے زیادہ بنائے ہیں۔

سارے ملک میں بلوچستان کے نوجوان وزیر اعلیٰ جناب عبدالقدوس بزنجو کے یہ شکوہ بھرے الفاظ گونج رہے ہیں:’’ نواز شریف تو بادشاہوں کی طرح بلوچستان تشریف لاتے تھے۔ ہم سے تو کبھی اُنہوں نے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔‘‘اﷲ اﷲ ، ایسی رعونت؟ ایسا تکبّر؟ تکبّر اور بڑائی تو صرف خالقِ کائنات کو زیبا ہے۔ پھر بھلا اﷲ کریم متکبرین اور متکبّر مقتدر خاندان کو مزید کیسے برداشت کرتا؟ جنہوں نے ختمِ نبوت کے خلاف سازش کی، کیا اﷲ کی طرف سے انھیں اپنے کیے کی سزا نہ ملتی؟

جنوبی پنجاب کے سات ارکانِ اسمبلی نے علمِ بغاوت بلند کرکے اسمبلیوں سے جس ہمت کے ساتھ استعفے دئیے ہیں، یہ تو دکھاوے کا ایک بہانہ ہے۔ ایک واسطہ ہے سزا کا ۔ متکبرین کو سزا دینے کا۔ جو قومیں اور ملک زلزلوں، سیلابوں ، آسمانی آفات اور سمندری سونامیوں سے تباہ ہو کر صفحہ ہستی سے مِٹ جاتے ہیں، زلزلے ، سیلاب اور سونامیاں تو محض بہانہ ہیں، ظاہری سبب ہیں لیکن دراصل یہ اﷲ کی طرف سے سرکشوں، متکبروں اور گنہ گاروں کو سزا ہوتی ہے۔

فطرت اس سزا کی برسوں پرورش کرتی ہے۔ پھر بس کسی رات کے پہر یا دن کے کسی لمحے گرفت کی گھڑی آ جاتی ہے اور سب ملیامیٹ ہو جاتا ہے۔ شریف خاندان اور نون لیگ کے خلاف جنوبی پنجاب سے زوال کی جو سرکش لہر اُٹھی ہے،اِسے محدود مت جانئے۔ یہ رفتہ رفتہ مزید پھیلے گی اور طاقتور ہو گی کہ فطرت کا یہی فیصلہ نظر آتا ہے کہ سرکشوں اور متکبروں کو اُن کے گناہوں کی حتمی سزا دے دی جائے۔

ختمِ نبوت کے خلاف سازش کرنے والوں کو اُن کے گناہ کی سزا مل کررہے گی۔شائد اب ٹاپ میں لگایا گیا گیئر ریورس نہ کیا جا سکے۔ شائد معافی تلافی کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ یاد رکھا جائے، اَت خدا کا وَیر ہوتا ہے۔خدا کے غصے کو دعوت دینے سے پرہیز ہی کیا جانا چاہیے۔’’جنوبی پنجاب محاذ‘‘ کے باغی ارکان نے شریفوں سے جو گلے شکوے کیے ہیں، بے جا نہیں ہیں۔ اُن سے کیے گئے وعدے مقتدرین نے بار بار توڑے ہیں۔ اُن کے عوامی وسائل کو لُوٹا گیا ہے۔

جنوبی پنجاب کے وسائل پر ڈاکہ زنی کرکے سارا ’’مال‘‘ لاہور پر لگا دیا گیا، یہ شکوہ بھی غلط نہیں ہے۔ اُن سے علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اقتدار پر غالب شریف برادران اپنے وعدوں کو فراموش کیے رہے۔ ساتوں باغیوں کی طرف سے جنوبی پنجاب میں جن محرومیوں کا ذکر کیا گیا ہے،کیا وہ سب جھوٹ ہیں؟

سوال یہ ہے کہ جب شہباز شریف کی پنجاب اسمبلی نے اور نواز شریف کی قومی اسمبلی نے جنوبی پنجاب کے لیے الگ صوبہ بنانے کی قرار دادیں تک منظور کرلیں تو اِن قراردادوں میں عمل کے رنگ کیوں نہ بھرے جاسکے؟ کیا یہ سب لالی پاپ تھا؟ سب ڈھونگ اور سوانگ تھا؟ ’’ کے پی کے ‘‘ کی کُل آبادی تین کروڑ ہے اور جنوبی پنجاب کی آبادی بھی اتنی ہی ہے۔ پھر یہاں نیا صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟

شریف برادران طاقت اور اختیار کے مزے لینے کے لیے بارہ کروڑ کی آبادی والے صوبے کو مستقل جپھا کیوں مارے رہے؟ اگر ہمارے ہمسائے میں واقع بھارتی مشرقی پنجاب کو بھارت تین حصوں میں تقسیم کرکے تین صوبوں کی شکل دے سکتا ہے تو ہم اِن خطوط پر عمل کیوں نہیں کر سکتے؟ آخر کیوں عوام کو عذاب میں مبتلا کیے جانے پر اصرار کیا جاتا رہا؟اگر ہزارہ صوبے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اِسے پسِ پُشت ڈالنے میں کیا حکمت کارفرما ہے؟

نواز شریف نے تو 2013ء کے عام انتخابات کی مہم کے دوران ہزارہ صوبے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن وہ جان بوجھ کر وعدہ نہ نبھا سکے۔ کیا اس لیے کہ اپنے وعدوں کی ایفائی اُن کے مزاج ہی میں نہیں ہے؟ یقیناً اِس روئیے سے مایوسی پھیلی ہے۔ نون لیگ کی’’ اعلیٰ ‘‘قیادت مگر اِن زمینی حقائق کو تسلیم کرنے پرتیار نہیں ہے۔کہتے ہیں:’’جو لوگ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں، وہ کبھی ہمارے تھے ہی نہیں۔‘‘ جب کہ چھوٹے بھائی نے اپنے چاہنے والوں کو ہدائت کی ہے کہ جنوبی پنجاب کے باغیوں پر کوئی منفی تنقید نہ کی جائے۔

برادرِ خورد کو قوی اندیشہ ہے کہ یہ تنقید کہیں دیگر پرندوں کو بھی اپنے ساتھ اُڑا کر نہ لے جائے۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات بھی جانے والوں سے ناراض ہُوئی ہیں۔ اُن کے الفاظ مگر ایسے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے انھیں زیب نہیں دیتے۔ وہ چونکہ ایک خاتون ہیں، ہم کچھ کہیں گے تو شکائت ہوگی لیکن اتنا تو بہر حال کہا جا سکتا ہے کہ نون لیگ کی ’’اعلیٰ‘‘ قیادت کو اس بات کا زعم تھا کہ اُن کا اعلیٰ عدلیہ اور فوج کے خلاف بیانیہ نہائت مقبول ہوا ہے۔

حالات جو سامنے آئے ہیں، لگتاہے کہ یہ بیانیہ کچھ زیادہ ہی مقبول ومحبوب ہو گیا ہے۔اتنا مقبول و محبوب کہ سابق نااہل وزیر اعظم کی زبان پر بھی اڈیالہ جیل کا نام آنے لگا ہے۔ مگر شاباش دینی چاہیے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو جو اِن مخدوش حالات میں بھی اپنے ’’وزیر اعظم‘‘ کی صفتیں بیان کررہے ہیں اور مُصر ہیں کہ اگر انھیں نااہل نہ کیا جاتا تو پاکستان کی معیشت کو اتنے بڑے بڑے جھٹکے نہ لگتے اور نہ ہی روپے کی قدر یوں ذلّت کا شکار ہوتی۔

وزیر اعظم صاحب کی اس محبت اور اس تجزئیے کی داد دی جانی چاہیے۔ کیا اُن کی باتوں پر یقین کر لیا جائے؟ اگر ایسا ہے تو اُن کے پاس اپنے ہی اُس بیانئے کا کیا جواب ہے جب اُنہوں نے اپنے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی موجودگی میں بھری پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ روپے کی قیمت کم کرنے سے پاکستانیوں کو کوئی نقصان نہیں ہو گا مگر اب کہہ دیا گیا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے اور روپیہ سستا ہونے کی وجہ سے حج کے اخراجات میں فی کس 32ہزار روپے بڑھا دئیے گئے ہیں۔ یہ تو ابھی ایک مثال سامنے آئی ہے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

مگر وزیر اعظم اور اُن کے حواریوں کو کوئی پرواہ ہے نہ فکر۔ انھیں فکر ہے تو ’’اپنے وزیر اعظم ‘‘ کی۔ پاکستان کے معاملات اور پاکستانی معیشت سے اُن کی بے رغبتی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے امریکا میں بروئے کار پاکستانی سفارتکاروں کی نقل وحرکت کو محدود کر دیا ہے۔ چند دن پہلے ہی یہ جان سوز خبر سامنے آئی ہے۔

ٹرمپ حکومت نے کہہ دیا ہے کہ واشنگٹن سمیت امریکا کے جس شہر میں بھی پاکستانی سفارتکار کام کررہے ہیں، انھیں اپنے آپ کو چالیس کلومیٹر کے علاقے میں رہنا ہو گا۔ اس سے باہر جانے سے پہلے مقامی پولیس یا امریکی ذمے داران کو آگاہ کرنا ہوگا اور اُن کی اجازت حاصل کرنا ہوگی۔ یہ فیصلہ ایٹمی پاکستان اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی توہین اور بے عزتی ہے۔ مگر ہمارے وزیر اعظم اور صدر ِ مملکت کی طرف سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان کا جو وزیر اعظم آن دی ریکارڈ یہ کہہ دے کہ امریکی ائر پورٹ پر اگر امریکیوں نے انھیں ننگا کرکے ان کی مکمل تلاشی لی ہے تو اسے وہ اپنی بے عزتی نہیں سمجھتے، ایسے وزیر اعظم سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ اپنے ملک کے سفارتکاروں کو امریکا میں چالیس کلومیٹر کے علاقے میں محدود کرنے پر کوئی احتجاج کرے گا یا وہ اپنے ملک میں امریکی سفارتکاروں کے بارے میں بھی ویسے ہی احکامات جاری کرے گا جیسے احکامات امریکا میں پاکستان ڈپلومیٹس کے بارے میں جاری کیے گئے ہیں۔ تاکہ حساب برابر کیا جا سکے۔

اپنے وجود کا احساس دلایا جا سکے۔ مگر اتنی ہمت کوئی لائے کہاں سے؟ امریکا کی بدنیتی یہ ہے کہ وہ اس طرح کے غیر اخلاقی فیصلے کرکے پاکستان کا بازو مروڑ سکے گا اور یوں اسلام آباد میں اُس امریکی سفارتکار کو صاف چھڑا لے جائے گا جس نے پچھلے ہفتے ہی ایک معصوم پاکستانی نوجوان کو بیدردی سے اپنی بھاری بھرکم جیپ کے نیچے دے کر دانستہ مار ڈالا ہے۔اِس سانحہ کی جو ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہُوئی ہے، اُس میں صاف نظر آرہا ہے کہ امریکی سفارتکار کی گاڑی سرخ اشارے کی پرواہ نہ کرتے ہُوئے موٹر سائیکل پر بیٹھے دونوجوانوں کو روندتی آگے بڑھ رہی ہے۔ کیا یہ قتلِ عمد معاف کر دیا جائے گا؟

قاتل کو بے سزا پاکستان سے جانے دیا جائے گا؟ کچھ بھی تو نہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے حکمران اگر بے شرمی سے لاہور میں ایک امریکی (ریمنڈ ڈیوس) کے ہاتھوں پاکستانیوں کے قتل کا سودا کر سکتے ہیں اور مقتولین کے لواحقین کو دیت لینے پر مجبور کر سکتے ہیں تو پھر یہ بھی امید رکھی جا سکتی ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارتکار کے ہاتھوں ایک پاکستانی کے نئے قتل کا انجام بھی کچھ ایسا ہی ہوگا: حمیت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔