نااہلی۔۔۔ نوازشریف سیاسی مرحوم یا زندہ شہید؟

عارف عزیز  اتوار 15 اپريل 2018
ن لیگ کم زور اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی یا عوام کی ہم دردی اسے مزید مضبوط اور مقبول کردے گی؟۔ فوٹو:فائل

ن لیگ کم زور اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی یا عوام کی ہم دردی اسے مزید مضبوط اور مقبول کردے گی؟۔ فوٹو:فائل

سپریم کورٹ کی جانب سے پارلیمنٹ کے اراکین کی نااہلی کی مدت کے تعیّن سے متعلق درخواست کے فیصلے نے ملک بھر میں سیاسی طوفان برپا کردیا ہے۔ فیصلے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہے یعنی اس فیصلے کے مطابق نااہل ہونے والا کوئی شخص تاحیات الیکشن نہیں لڑ سکتا۔

اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب گذشتہ سال نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے فیصلے پر یہ بحث شروع ہوئی کہ اس نااہلی کی مدت کتنی ہو گی تب سپریم کورٹ نے مدت کا تعین کرنے کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے آرٹیکل ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کی اور 14 فروری کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

جمع کو عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف امیدوار کی اہلیت جانچنے کے لیے ہے، اس میں نااہلی کی میعاد کا ذکر نہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ عوام کو صادق اور امین قیادت ملنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہوتا، آئین میں بھی لکھا ہوا ہے کہ ایسے شخص کی نااہلی تاحیات رہے گی، اس لیے جب تک عدالتی ڈیکلریشن موجود ہے، نااہلی رہے گی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ جب تک جس بنیاد پر نااہلی کا فیصلہ کیا گیا ہے، اگر اس فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ آجاتا ہے اور تو یہ نااہلی غیرموثر ہوجائے گی۔

اس طرح مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیرِاعظم پاکستان میاں نواز شریف اسی آرٹیکل کے تحت تاحیات نااہل قرار پائے جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر خان ترین بھی نااہل ہوگئے۔

اس قبل پاناما اور نااہلی کیس کے دوران سپریم کورٹ کے فیصلے سامنے آتے رہے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے لیے عوامی نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کوئی بھی متاثرہ شخص اس ضمن میں سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت رکن پارلیمان کی ہونے والی نااہلی عمر بھر کے لیے ہے کیوں کہ آئین کے اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کی کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی اس لیے یہی تصور کیا جاتا ہے کہ اس قانون کے تحت ہونے والی نااہلی عمر بھر کے لیے ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان سے نااہل ہونے والوں کی دو اقسام ہیں۔ ان میں سے ایک وہ جو کسی قانون کے تحت نااہل ہوتے ہیں، دوسرے وہ جو آئین کے تحت نااہل ہوتے ہیں۔

حالیہ فیصلے پر جہاں مسلم لیگ ن نے ردعمل ظاہر کیا وہیں دیگر سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے بھی تبصرے اور تجزیوں کے ڈھیر لگا دیے۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق فیصلے کے 60 صفحات میں نوازشریف کا ذکر نہیں ہے، لیکن فیصلے کا براہِ راست تعلق سابق وزیرِاعظم میاں محمد نوازشریف اور پاکستان تحریکِ انصاف کے جنرل سیکریٹری جہانگیر خان ترین کی نااہلی کے کیسز سے ہے۔ اس فیصلے کے مطابق اب نااہل قرار دیے گئے افراد تب تک نااہل رہیں گے جب تک ان کی نااہلی کے خلاف دوسرا فیصلہ نہیں آ جاتا۔

ماہرینِ قانون اور سنیئر تجزیہ کاروں نے اس فیصلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ایک سادہ قانون سازی کے ذریعے اس قسم کے فیصلے کو ختم کیا جا سکتا ہے جب کہ آئین میں ترمیم کا راستہ بھی اپنایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتیں عدالت کو اس پر نظرثانی کی درخواست دے سکتی ہیں۔

ادھر سیاسی جماعتیں نگراں سیٹ اپ کے حوالے سے بات چیت اور مشاورت میں مصروف ہیں اور ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ الیکشن کمیشن ملک بھر میں مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کروا رہا ہے اور ان حالات میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ عدالت کی جانب سے نااہلی کے اس فیصلے کا عام انتخابات پر کیا اثر پڑے گا۔ دوسری طرف نواز شریف کی نااہلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر کتنا نقصان ہوگا۔ اس سلسلے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں مسلم لیگ (ن) کے کئی اراکین اس جماعت سے الگ ہوئے ہیں اور اب اس میں مزید تیزی آجائے گی اور یہ جماعت بتدریج کم زور ہوتی چلی جائے گی۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف اس فیصلے کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوگی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں جہانگیر ترین کی اہمیت بطور سیاسی لیڈر نہیں بلکہ مرکزی راہ نما کی ہے اور کوئی بھی ان کی جگہ لے سکتا ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کی اس شق کو ختم کر سکتی ہے اور اسے ترمیم کا اختیار حاصل ہے مگر اس کے لیے دو تہائی اکثریت ہونا لازم ہے، لیکن سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو یہ اکثریت مستقبل میں کسی کو بھی ملتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔

حالیہ فیصلے سے پہلے کی صورتِ حال دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ گذشتہ برس 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا، جب کہ سپریم کورٹ کے بینچ نے 15 دسمبر 2017 کو غیر ملکی فنڈنگ کیس کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کے خلاف پٹیشن خارج کردی تھی، جب کہ جہانگیر ترین عدالتی فیصلے میں صادق اور امین نہیں رہے تھے۔

اس طرح سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کی طرف سے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف متعدد فیصلے سامنے آئے تھے جن میں نوازشریف کی بطور رکن پارلیمنٹ نااہلی، اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل مسترد ہونا، نوازشریف کو پارٹی کی سربراہی سے الگ کرنا، ان کی طرف سے سینیٹ کے انتخابات میں امیدواروں کو جاری کیے گئے ٹکٹ ہولڈرز کو آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے کے حکم کے علاوہ ان کے خلاف دائر ہونے والے نیب کے تین ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواستوں کو مسترد کرنا شامل ہیں۔

نوازشریف کے خلاف آنے والا فیصلہ غیرمتوقع نہیں۔ سوال اب یہ ہے کہ یہ فیصلہ نوازشریف کو سیاسی شہید بنا کر اس سال ہونے والے انتخابات میں ن لیگ کو عوام کی ہم دردی دلاننے میں مددگار ثابت ہوگا یا اس کے باعث یہ جماعت کم زور ہوجائے گی اور بکھر جائے گی۔ عوام کا ردعمل، وہ جلسوں میں حاضری اور جذؓبات کے اظہار کی صورت میں ہو یا انتخابات میں اظہار رائے کی شکل میں، بتا دے گا کہ اس فیصلے کے باعث نوازشریف سیاسی مرحوم ہوئے ہیں یا زندہ شہید ہوگئے ہیں۔ یہ فیصلہ ملک کی سیاست پر دوررس اثرات مرتب کرے گا۔

ایک امکان یہ ہے کہ نااہلی کی لٹکتی تلوار سیاست دانوں کو صادق وامین کی آئینی شق ختم کرنے پر متفق کردے، دوسری صورت میں کسی بھی سیاست داں کے خلاف آنے والا کوئی عدالتی فیصلہ اسے زندگی بھر کے لیے سیاست اور انتخابات سے باہر کردینے کے لیے کافی ہوگا۔ یہ اندیشہ نوازشریف کی نااہلی پر خوش نظر آنے والے سیاست دانوں کو خوف زدہ کیے ہوئے ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ خوف انھیں آئین میں ترمیم کے راستے پر لے جاتا ہے یا اسٹیبلشمینٹ کا اطاعت گزار بنادیتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔