- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
کچھووں کا واپس اپنی جائے پیدائش پر پہنچنے کا معما حل
نارتھ کیرولائنا: یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ کچھوے وہیں انڈے دینے آتے ہیں جہاں وہ آنکھ کھولتے ہیں۔ سائنس دانوں نے اب یہ معما حل کرلیا ہے۔
کچھووں کے ماہرین نے طویل وقت لگا کر یہ بات نوٹ کی ہے کہ جس ساحل پر کچھوے انڈوں میں سے باہر آتے ہیں، ان میں موجود مادائیں بالغ ہونے پر انڈے دینے کےلیے اسی ساحل کا رخ کرتی ہیں، تاہم اس کی سائنسی وجہ سامنے نہیں آسکی تھی۔ اب دریافت ہوا ہے کہ اس کی وجہ زمینی مقناطیسی میدان ہے۔ کچھوے کے بچے جس ساحل پر پیدا ہوتے ہیں وہ وہاں کے ارضی مقناطیسی خطوط اپنے دماغ میں محفوظ کرلیتے ہیں۔
ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لوگر ہیڈ سمندری کچھوے کے ایک ہی ساحل پر جنم لینے والے بچے جینیاتی طور پر ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔
امریکا میں چیپل ہِل میں واقع یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا میں حیاتیات کے پروفیسر کینتھ لومین نے برسوں کے غور اور تحقیق کے بعد کہا ہے کہ لوگر ہیڈ کچھوے بحرِ اوقیانوس کے دو کناروں کے درمیان آتے اور جاتے رہتے ہیں اور یہ بہت دلچسپ جاندار ہیں۔ ان میں سے جو کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتا ہے وہ وہیں لوٹ کر آتا ہے یا پھر اسی ساحل پر جاتا ہے جس کا مقناطیسی میدان اس سے مشابہ ہوتا ہے۔
تحقیق کی تفصیلات ’کرنٹ بائیالوجی‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہیں جن سے ان نایاب کچھووں کے تحفظ میں بھی مدد ملے گی۔ تحقیق کے مطابق مقناطیسی میدان ہی ان کچھووں میں جینیاتی یکسانیت کی وجہ بنتا ہے خواہ ساحل کیسے ہی ہوں اور ان کی دیگر تفصیلات کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔
کچھووں کے دماغ میں مقناطیسی میدان محسوس کرنے کا ایک زبردست نظام ہوتا ہے اور وہ اسی کی بدولت پیدا ہوتے ہی اپنے پہلے گھر کا مقناطیسی نقشہ ذہن میں بٹھالیتے ہیں جو ہمیشہ ان کی رہنمائی کرتا ہے اور وہ اسی ساحل پر انڈے دینے کےلیے بار بار آتے ہیں۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ارضی مقناطیسی میدان ان جانوروں میں قدرتی ’جی پی ایس‘ کا کام کرتا ہے۔
لومین کے مطابق یہ ایک اہم دریافت ہے جس سے لوگرہیڈ کچھووں کو سمجھنے میں مدد ملے گی، لیکن واضح رہے کہ ساحل پر بجلی کی لائنوں اور بڑی عمارتوں سے ان کی طویل نقل مکانی کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ بھٹک سکتے ہیں۔ اسی طرح سامن، شارک، پرندے اور خود شہد کی مکھیاں بھی ارضی مقناطیسی میدان کو استعمال کرتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔