جنرل کیانی کے مشن کی تکمیل

اسد اللہ غالب  جمعـء 12 اپريل 2013
ghalib1947@gmail.com

[email protected]

پہلے تو میں ایئر چیف طاہر رفیق بٹ کا شکر گزار ہوں۔ میں ناچیز ان کی نظر التفات کا مستحق نہیں تھا، میں نے سیسل چوہدری کا شاہنامہ لکھنے کی اپنی سی کوشش کی، ایم ایم عالم اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے تو نئی نسل کے سامنے ان کے کارناموں کی ایک جھلک پیش کی، ایم ایم عالم کے بارے میں یار لوگوں نے جھوٹ گھڑے تو میرا قلم تڑپ اٹھا، ایئر فورس ہر سال مشقیں کرتی ہے مگر بھارتی ایئر چیف نے پاکستان کو زبانی کلامی للکارا تو طاہر رفیق بٹ کی رگ حمیت جاگ اٹھی اور وہ ایک فائٹر طیارے میں بیٹھ کر جنگی مشقوں کا حصہ بن گئے، دنیا کی کسی ایئر فورس کا سربراہ خود جنگی مشقوں میں کم ہی حصہ لیتا ہے مگر پی اے ایف کے سربراہ نے نئی تاریخ لکھی۔

وہ پروٹوکول سے بے نیاز ایک عام ہوا باز کی طرح طیارے میں سوار ہوئے، اسکریمبل کے اشارے پر بلندیوں پر جا پہنچے۔ میں نے نصف شب کے ہنگام میں ان کی تصویر اپنی ای میل میں دیکھی اور بے ساختہ قلم رواں ہو گیا۔ میں نہیں بتا سکتا کہ ممبئی حملوں کے بعد ہمارے چند ہوا بازوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر بھارتی فضا ئیہ کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے لاہور کی فضائوں میں گڑ گڑاہٹ پیدا کی تو دل ایک انجانی سرخوشی سے کیسے سرشار ہو گیا تھا، اس سمے مجھے چھ ستمبر پینسٹھ، دن کے گیارہ بجے باٹا پور کے عین اوپر وہ ہوا باز یاد آیا جس نے دو مرتبہ سائونڈ بیریر توڑا تھا اور زندہ دلان لاہور کے دل، نعرہ تکبیر کی گونج میں سینوں سے باہر اچھل اچھل جاتے تھے۔

دو روز بعد میں اپنی بوڑھی ماں کی خبر گیری کے لیے قصور کے سرحدی گائوں فتوحی والہ میں پہنچا تو بھارتی طیاروں کے حملے کی زد میں آ گیا۔ میں نے زمینی ٹروپس پر حملے کی یہ فارمیشن پہلی بار دیکھی تھی، پندرہ بیس منٹ تک میں سانس روکے زمین سے چمٹا رہا۔ اچانک سڑک پر چند فوجی جیپوں کا شور سنا تو اپنی بزدلی پر شرمندگی کا احساس ہوا۔ دو ہفتے بعد دوبارہ اس علاقے کا رخ کیا۔ ایک مرتبہ پھر بھارتی بمباروں کی زد میں آ گیا، اس بار میں بے خوفی سے اگلے مورچوں کی طرف چلتا گیا، میرے ساتھ دس بارہ افراد اور بھی تھے، کیا دیکھتا ہوں کہ بھارتی طیارے نے پانچ سو پائونڈ وزنی بم گرا دیا، زمین ہل کر رہ گئی۔

بم کا ایک ٹکڑا میری ایڑی کو چھوتا، ہوا میں اچھل گیا۔ ایئر فورس کے بارے میں اتنی سی شدبد رکھنے والا کوئی گہری اور پتے کی بات کیا کر سکتا تھا مگر ایئر چیف نے میری حوصلہ افزائی کی خاطر ایک خط لکھا۔ ساتھ ایک چھوٹا سا تحفہ بھی ملا۔ شفاف شیشے کے ٹکڑے کے اندر ایف سولہ قرینے سے سجا ہوا، یہ تحفہ میرے سامنے پڑا ہے اور میں چشم تصور میں اس ایف سولہ میں بیٹھا فضائوں میں اڑ رہا ہوں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ میں اس لائق نہ تھا، ایئر چیف نے میری عزت افزائی فرمائی، میں اس پر دل کی گہرائیوں سے ان کا شکر گزار ہوں۔

اب مجھے جنرل کیانی کے دورہ بلوچستان کا ذکر کرنا ہے جس میں انھوں نے بلوچ راہنمائوں کو قومی الیکشن میں حصہ لینے کی اپیل کی ہے۔ جنرل کیانی کے فرائض منصبی میں کہیں یہ بات شامل نہیں کہ وہ ملک میں الیکشن کروانے اور اس میں ہر پارٹی کی شرکت کو یقینی بنانے کے مکلف ہیں۔ مگر ہماری سول سوسائٹی، ہمارا میڈیا مسلسل فوج کو ماضی کے گناہوں کی پاداش میں رگڑا دے رہے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے ہر شخص ٹرپل ون بریگیڈ کی چاپ سننے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کوئی بم پھٹے، کوئی جلوس نکلے، کہیں احتجاج ہو رہا ہو تو اس کے پیچھے خفیہ ہاتھ تلاش کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔

ملک پر چار مرتبہ مارشل لگا مگر قوم مستقل طور پر ایک ذہنی خلجان میں مبتلا ہو گئی ہے، پتہ نہیں اس کمپلیکس کو کیا نام دیا جائے گا۔ جنرل کیانی نے قومی پاگل پنے کا علاج کرنے کی ٹھان لی۔ اعلان کیا کہ فوج سیاست اور حکومت میں دخل نہیں دے گی۔ اب تو میں لکھتے لکھتے تھک گیا ہوں کہ پانچ سال گزر گئے، کیانی اور ان کی کمان میں فوج نے اس اعلان پر حرف بحرف عمل کیا، مگر کسی کو یقین ہی نہیں آتا، عدالتوں میں جا کر آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کا کھوج نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عمران خان کوئی کامیاب ریلی نکال لے تو جنرل پاشا کو اس کا سرپرست کہہ دیا جاتا ہے، طاہر القادری کا نزول ہو جائے تو فوج کو طعنے ملتے ہیں۔

اس پس منظر میں فوج کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ صفائیاں دیتی پھرے۔ اور یار لوگوں کا کمال یہ ہے کہ کسی صفائی پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتے، اسلام آباد مارچ کے دوران لاہور میں تمام سیاسی پارٹیوں کا اکٹھ ہوا اور غیر سیاسی قوتوں کے سامنے بند باندھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا، غیر سیاسی قوتوں کا مطلب فوج ہی لیا جاتا ہے۔ ایک صاحب جن کے بارے میں بعد میں یہ کہا گیا کہ ان کو نگراں وزیر اعظم بنایا جا سکتا ہے، یہ کہتے پائے گئے کہ وہ جنرل کیانی کو مل کر سمجھائیں گے کہ اس قوم کے ساتھ بہت ہو چکی، اب اس پر رحم کیا جائے۔

اس قوم کے ساتھ ہوا تو بہت برا ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہو کہ برا کیا کس نے، اکیلے فوج نے یا سب نے مل کر یا خود قوم اور اس کے راہنمائوں نے۔ بہر حال پانچ سال گزر گئے، فوج نے اب کسی کا برا نہیں چاہا، نہ برا کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔