شام کا بحران مزید سنگین ہوگیا

ایڈیٹوریل  پير 16 اپريل 2018
ڈونلڈ ٹرمپ کی مزید حملوں کی دھمکی اس امر کی مظہر ہے کہ شام میں ابھی مزید تباہی پھیلے گی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ڈونلڈ ٹرمپ کی مزید حملوں کی دھمکی اس امر کی مظہر ہے کہ شام میں ابھی مزید تباہی پھیلے گی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

شام پر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک فرانس اور برطانیہ کی جانب سے میزائل حملوں کا عالمی سطح پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ چین‘ ایران اور روس نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے کھلی جارحیت قرار دیا.

روس نے اس حملے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کو ان اقدامات کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا جب کہ دوسری جانب سعودی عرب‘ بحرین‘ ترکی اور اسرائیل نے حملے کی حمایت کرتے ہوئے اسے درست قرار دیا ۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے حملے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ صدر بشار الاسد کو اس سے پیغام ملے گا کہ وہ شام میں ہونے والے قتل عام کی جواب دہی سے بری الذمہ نہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام پر امریکی حملے کے خلاف روس کی مذمتی قرارداد کو مسترد کر دیا گیا‘ چین اور بولیویا نے قرار داد کی حمایت جب کہ 8ممالک نے مخالفت کی۔

ادھر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر حملے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر شامی حکومت نے اپنے عوام پر دوبارہ کیمیائی حملہ کیا تو امریکا اپنے اتحادیوں کی مدد سے دوبارہ میزائل حملہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائے گا جس کے لیے امریکا کی تیاریاں مکمل ہیں۔

مغربی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق شام میں حکومتی فورسز نے گزشتہ ہفتے اپنے مشرقی علاقے غوطہ کے شہر دوما میں بیرل نامی کیمیائی بم پھینکے تھے جس سے بچوں اور عورتوں سمیت 100سے زائد افراد جاں بحق اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

اس حملے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس حملے کی بشار الاسد کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ شام اور روس دونوں نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تردید کرتے ہوئے اسے من گھڑت رپورٹ قرار دیا تھا۔ اصل صورت حال کیا ہے اس کے بارے میں حقائق تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آتے چلے جائیں گے لیکن شام میں جو کچھ ہوا اسے قابل مذمت ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح عراق میں کیمیائی اور ایٹمی ہتھیاروں کا الزام لگا کر اس پر حملہ کر دیا گیا جب کہ بعدازاں وہاں ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا لہٰذا اس گمان کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ شام کا حشر بھی عراق جیسا کرنے کے لیے امریکی سی آئی اے نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ڈرامہ رچایا ہو۔ بہرحال جو کچھ بھی ہے، ہر صورت میں تباہی کا نشانہ تو شام ہی کو بننا پڑ رہا ہے۔

امریکا اوراس کے اتحادی فرانس اور برطانیہ نے ہفتے کو شام پر کروز میزائلوں سے حملہ کر دیا، اس کارروائی میں بی ون بمبار سمیت متعدد لڑاکا طیاروں اور بحری جنگی جہازوں نے حصہ لیا اور شامی حکومت کی کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا‘ اطلاعات کے مطابق اتحادی افواج نے شامی فوج کے سائنسی تحقیقی مراکز‘ متعدد فوجی اڈوں اور چھاؤنیوں پر ٹام ہاک کروز سمیت مختلف طرح کے میزائلز داغے۔

شامی حکام کے مطابق امریکی حملے میں تقریباً سو سے زائد میزائل داغے گئے جن میں سے بڑی تعداد کو فضا ہی میں ناکارہ بنا دیا گیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ روس کی اطلاعات پر ان فوجی تنصیبات کو کئی روز پہلے ہی خالی کرا لیا گیا تھا۔

اس سارے کھیل کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے شام پر حملے کی منصوبہ بندی کافی عرصہ پہلے ہی سے کر رکھی تھی اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو بہانہ بنا کر شام کو ملیامیٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عراق‘ لیبیا کے بعد شام پر حملہ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ وہ ممالک جو اسرائیل کے لیے کسی قسم کا بھی خطرہ تھے یا اس کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کرتے تھے انھیں تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ وارسا پیکٹ کے مطابق یہ طے پایا تھا کہ آیندہ یورپ میں کسی قسم کی کوئی جنگ نہیں لڑی جائے گی‘ یورپ کے ماضی کے معاہدوں اور ریشہ دوانیوں کے تناظر میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ یورپ اور امریکا نے ایشیا بالخصوص مسلم ممالک کو جنگ کا میدان بنا لیا ہے اور وہ بڑی ہوشیاری سے وہاں کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کر کے حملہ کر دیتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی مزید حملوں کی دھمکی اس امر کی مظہر ہے کہ شام میں ابھی مزید تباہی پھیلے گی اور وہاں حالات خراب ہوں گے۔ شام پر حملہ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کے لیے خطرے کا پیش خیمہ ہے انھیں موجودہ بگڑتے ہوئے حالات کے تناظر میں اپنے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔