خط ایک ڈاکو کے نام

شکیل صدیقی  پير 16 اپريل 2018

ڈاکو بھائی جان!

آپ سے ملاقات کہاں ہوگی، میں اس سے واقف نہیں ہوں۔ چنانچہ ملک کے اس عظیم روزنامے کا سہارا لے رہا ہوں۔ ایک ہفتے پیشتر جب آپ طمطراق سے اپنے چار ساتھیوں سمیت میرے گھر پر وارد ہوئے تھے اور آپ نے میرے گھر کی الماریاں خالی کر دی تھیں (یقیناً آپ فرصت سے آئے ہوں گے) میری ساری نقدی، زیورات، قیمتی اشیا، یہاں تک کہ قیمتی ملبوسات تک لے گئے تھے۔ میں چیختا ہی رہ گیا کہ یہ آپ کے کسی کام کے نہیں ہیں، مگر آپ نے میری سنی ہی نہیں۔

اگر آپ کا کوئی مستقل ٹھکانہ ہو تو میں بالمشافہ آپ کے پاس آنے اور اپنی روداد سنانے کے لیے تیار ہوں۔ ویسے تو میرے حالات اتنے دگرگوں نہیں ہیں کہ ہر شخص ترس کھا کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالنے لگے۔ میں محکمہ انکم ٹیکس میں اچھے عہدے پر فائز ہوں اور اپنے دوستوں میں ’’کھال کھینچو‘‘ کے طور پر مشہور ہوں۔ (میری عرفیت سے تو آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ میں کس سطح کا آدمی ہوں)

مال و دولت تو آنی جانی چیز ہے، آج میرے پاس ہے تو کل کسی اور کے پاس۔ اس کا غم نہیں ہے۔ میں دوبارہ جمع کرلوں گا۔ بس ڈائمنڈ کے ان ہاروں کے بارے میں سوچ کر فرسٹریشن کا شکار ہونے لگتا ہوں جو گزشتہ سال میری بیگم نے پیرس سے خریدے تھے۔ بننے کو یہاں بھی بن جائیں گے، یہاں کیا نہیں بنتا؟ لالو کھیت کی فیکٹریوں میں دو نمبر کا شہد بنتا ہے اور مانند اصلی ہوتا ہے۔ اتنا اصلی کہ غیر ملکی کمپنیاں تک شناخت نہیں کر پاتیں۔ چنانچہ وہ سیٹ بھی اپنے وطن (لالو کھیت میں) تیار ہوسکتا ہے، لیکن مولوی مدن کی سی بات کہاں؟

موٹے کڑے اور پازیب آپ رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ آؤٹ آف فیشن ہوچکی ہیں اور اس کے علاوہ چاندی کی ہیں، بس ان پر سونا پھرا ہوا تھا، دیکھنے میں سونے کی ہی معلوم ہوتی ہیں۔ بنانے والے کا کمال ہے۔ (اگر آپ کی گھر والی کو ایسے کڑوں کی مزید ضرورت ہے تو مجھ سے رابطہ قائم کریں، آرڈر دے کر بنوا دوں گا)

دو ماہ پہلے میرے بیٹے اور میں نے ہانگ کانگ سے پانچ سوٹ سلوائے تھے۔ جب وہ ہاتھ سے نکل گئے تو افسوس ہو رہا ہے کہ ان سب کو اچھی طرح سے پہن کیوں نہیں لیا، تاکہ سب دیکھ لیتے اور میری خوش لباسی کا چرچا بھی ہوجاتا، لیکن بسا آرزو کہ خاک شد۔ انسان کی ساری خواہشیں تو پوری نہیں ہوجاتیں۔

گیرج میں کھڑی گاڑی آپ نہیں لے گئے۔ (ممکن ہے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو کار ڈرائیونگ نہ آتی ہو اور آپ سندھ کے ریگزاروں میں گھوڑ ے دوڑاتے رہے ہوں) اگر آپ گاڑی لے جاتے تو مجھے نئی مل جاتی، اس لیے کہ وہ بیمہ شدہ تھی۔ کمپنی میرے ہاتھ سے کیسے بچ سکتی تھی؟

پرائز بانڈ آپ ہی رکھ لیں۔ اس لیے کہ ان پر گزشتہ دس برس سے کوئی انعام نہیں نکل رہا ہے۔ خوامخواہ پڑے سڑ رہے تھے اور دل کو جلا رہے تھے۔

جہاں تک کرنسی نوٹوں کا تعلق ہے تو انھیں دیکھ بھال کر خرچ کیجیے گا، اس لیے بہت سے نوٹ ایک کاریگر نے تیار کیے تھے۔ اس کاری گری سے کہ اصل اور نقل کی تمیز باقی نہیں رہی تھی۔ انھیں ایسی جگہ چلائیے گا جہاں الیکٹرونک مشینیں نہ لگی ہوں۔ ان سے سچ اور جھوٹ کی پول پٹی کھل جاتی ہے، لہٰذا میں ان کے نزدیک نہیں جاتا۔ نوٹ سستے مل گئے تھے، اس لیے میں نے لے لیے تھے۔ ارادہ تھا کہ ان سے غریبوں کی مدد کیا کروں گا، لیکن سارا منصوبہ آپ نے چوپٹ کردیا۔

تھوڑے لکھے کو زیادہ جانیے اور مجھ سے رابطہ قائم کیجیے۔

٭٭٭

بھائی پریشان حال

مجھے آپ کے لٹنے کا کوئی ملال نہیں ہے۔ اس لیے یہ خود میری ہی کارستانی ہے۔ میں نے کچھ دیکھ کر ہی آپ کے بنگلے پر ہاتھ مارا تھا، مگر اب تک افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔ کیونکہ زیادہ تر چیزیں دو نمبری ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کبھی لالوکھیت رہ چکے ہیں اور آپ کو وہاں کی چیزیں ہی پسند آتی ہیں۔ آپ نے ڈیفنس کی طرف آنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔

میں خود آپ کی دو نمبری چیزیں واپس کر دیتا، لیکن اس میں گرفتاری کا لفڑا ہے۔ ویسے تو اوپر تک میری لائن بنی ہوئی ہے۔ اس لیے مجھ پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ یہ بات میں مضبوط بنیادوں پر کہہ رہا ہوں۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ کوئی مجرم اس وقت تک گرفتار نہیں ہوتا جب تک کہ وہ لائن بنا کر نہ رکھے یا بھتہ نہ دے۔ جعلی نوٹ میں نے ایک بڑے افسر کو دے دیے ہیں۔ وہ جو جی چاہے کرے، ان کا دماغ اس میں خوب چلتا ہے۔

کوالٹی کے مطابق زیورات کا حساب کتاب جوہریوں کو خوب معلوم ہے۔ وہ انھیں پرکھ کر اور ان کی مالیت کا اندازہ لگا کر ہمیں نقد دے دیتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر اچنبھا ہوگا کہ جرم کی دنیا میں نقدی کی اہمیت ہے اور سارا معاملہ کیش کی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ اس ہاتھ لے اور اس ہاتھ دے۔ بیمہ شدہ گاڑی کا ہم کیا کرتے۔ کمپنی قانون کے رکھوالوں کے پیچھے پڑ جاتی۔ ایسی گاڑی کا کیا فائدہ؟ آپ سے التماس ہے کہ اسے بیچ کر جو رقم ہاتھ میں آئے وہ دوسری ملاقات میں ہمارے حوالے کر دیجیے گا۔ ہم ممنون ہوں گے۔

جہاں تک سوٹوں کا معاملہ ہے، سوٹ مجھے پسند آئے ہیں، مگر میں سوٹ پہن کر گھوڑے پر بیٹھوں تو کیسا لگے گا؟ اس لیے میں نے انھیں دکان پر رکھوا دیا ہے۔ زیب النسا اسٹریٹ پر ہماری تین دکانیں ہیں، اچھی چلتی ہیں، کاروں والے آتے ہیں اور لے جاتے ہیں۔

دکاندار ان پر نئی چٹ لگا دیتے ہیں۔ (میں ایک خفیہ خط میں آپ کو بتا دوں گا کہ کس دکان پر جانا ہے اور کون سا مال خریدنا ہے) لیڈیز کپڑوں کا بھی ہم یہی کرتے ہیں۔ خواتین انھیں سستے داموں خرید کر لے جاتی ہیں، اس لیے کہ پیکنگ عمدہ ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کی خواتین کو سستا خریدنے کا خبط ہے۔ اس سے انھیں کوئی مطلب نہیں کہ دکاندار نے کیا باندھ کر تھما دیا۔

میں بزور اسلحہ آپ کے گھر کی صفائی کر دیتا ہوں۔ مگر وہ معززین جن کا تعلق اسٹبلشمنٹ اور بیوروکریسی سے ہوتا ہے وہ خزانے کی صفائی نہیں کرتے رہتے؟ ترقیاتی کام تو جوں کے توں پڑے رہتے ہیں اور خزانہ خالی ہوجاتا ہے۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی، جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے، اسپتالوں میں دواؤں کا فقدان، تعلیمی پالیسیاں کورا کاغذ، اس کا بجٹ سب سے کم، باہر سے کھلاڑی آئیں تو اسٹیڈیم کی مرمت کے لیے تیس کروڑ روپے کی منظوری دی جاتی ہے۔

ذرا دیر کے لیے یہ تو سوچیے کہ آپ کو کس طرف ہانکا جا رہا ہے؟ کیا آپ تعلیم کے میدان سے نکل کر کرکٹ کے اسٹیڈیم کی طرف نہیں جا رہے ہیں؟ کرکٹ فوبیا میں شہر درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔