فلم انڈسٹری

راؤ منظر حیات  پير 16 اپريل 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

سترکی دہائی میں پاکستان دنیامیں فیچرفلمیں بنانے والاچوتھابڑاملک بن چکاتھا۔کیاآج اس بات پرکوئی یقین کریگا۔کوئی بھی نہیں۔مگرحقیقت یہی ہے، ہمارے ملک میں1959سے لے کر1977تک لازوال فلمیں بنائی گئیں۔

لاہور تقسیمِ ہندسے پہلے فلم سازی شروع کرچکا تھا۔1929میں عبدالرشیدکاردارنے راوی روڈ پرایک اسٹوڈیوقائم کیا۔کاردارنے ایک خاموش فلم بنائی جسکا نام ’’لاہورحسن کاڈاکو‘‘تھا۔ تقسیم کے بعدلاہورہی میں پاکستان کی پہلی فیچرفلم بنائی گئی۔اس کانام’’تیری یاد‘‘تھا۔ 1948میں بننے والی یہ فلم آوازکے ساتھ تھی۔لاہورآہستہ آہستہ ملک کاثقافتی مرکز بن رہاتھا۔ساٹھ اورسترکی دہائی میں لاہورایک بین الاقوامی شہربن چکاتھا۔

کیسے کیسے فلم ساز، ہدایت کاراور اداکار،اداکارائیںاورگلوکار موجود تھے۔ ایک ایک پرکالم نہیں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ پاکستان ان اولین ممالک میں تھاجہاں ساٹھ کی دہائی ہی میں بلیک اینڈوائٹ فلموں کی جگہ کلرفلمیں بنناشروع ہوگئیں۔ محمدعلی کی لازوال فلم ’’چراغ جلتارہا‘‘کراچی کے نشاط سینمامیں لگی تھی۔ 1962میں اس فلم کے پریمیئرشو کی صدارت کس نے کی تھی، کوئیاداکار،موسیقار،صداکاریاسیٹھ نہیں تھا، جناب والا،اس فلم کاافتتاح مادرِملت محترمہ فاطمہ جناح نے فرمایاتھا۔

فلم کے شعبہ کی اہمیت،انفرادیت اورسنجیدگی کااس اَمرسے اندازہ لگائیے کہ افتتاحی تقریب پرملک کی سب سے باوقاراورہردلعزیزشخصیت تشریف لائی تھیں۔ کیاآج پاکستان میں تصوربھی کیاجاسکتاہے کہ ملک کا وزیراعظم،صدریاکوئی اہم سیاستدان،کسی فلم کی افتتاحی تقریب میں آکراس فلم کوعزت بخشے۔کم ازکم میرے لیے تو2018میں یہ تصورکرنامشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

کسی نے ہمارے ثقافتی زوال پرغورنہیں کیا۔ سیاسی کشمکش،کھینچاتانی اورعامیانہ پن نے ہماری ثقافت کوبھی بربادکردیا،قتل کردیا۔فلمی شعبے سے منسلک لوگوں کو کمترین درجہ دیاگیا۔یہ نادرشعبہ1977کے بعدضیاء الحق کی منافقانہ پالیسیوں کی وجہ سے زوال کاشکار ہوگیا۔ سینما گھر،پلازوں میں تبدیل ہوگئے۔نگارخانے گودام بن گئے یارہائشی کالونی بنادیے گئے۔ ضیاء الحق اوراس کے ہم خیال لوگوں نے اس بے مثال انڈسٹری کوگناہ اورثواب کے اس چکرمیں ڈال دیا،جس سے اس کا نکلنا تقریباً ناممکن ہوگیا۔

لاہوراورکراچی کے نگارخانوں نے دس ہزار اردو فلمیں بنائی تھیں۔ آٹھ ہزارپنجابی،چھ ہزارپشتواور دوہزار سندھی فیچرفلمیں بنائی گئیں۔مگر77کے مارشل لاء نے اس شاندار انڈسٹری کوبربادکرڈالا۔اب سال میں چنداچھی فلمیں ضروربنتی ہیں۔مگرسابقہ سنہرا دورآج تک واپس نہیں آسکا۔

ہالی وڈ یا بمبئی کی فلم انڈسٹری پربات نہیں کرنا چاہتا۔  اس لیے کہ ان ملکوں کی اقتصادی بہتری میں ان کی فلموں کا ہاتھ ہے۔ہالی وڈکے باکس آفس کاسالانہ ریونیو چالیس بلین ڈالرسے زیادہ ہے۔انڈیامیں یہی عدد،دوبلین ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔انڈیامیں سالانہ1986کے قریب فلمیں بنتی ہیں۔حیرت کی بات ہے، نائجیریا میں ہالی وڈکے تقریباًبرابر فلمیں بنتی ہیں یاشائدتھوڑاسافرق ہے۔ امریکا میں سالانہ سات سوسے آٹھ سوفلمیں بنتی ہیں۔

یہ پوری دنیامیں دیکھی جاتی ہیں۔ان سے جومنافع یا سرمایہ جنم لیتاہے وہ اربوں ڈالرمیں ہے۔ دنیامیں فلم انڈسٹری کی اصطلاح بہت کم استعمال ہوتی ہے۔اسے انٹرٹینمینٹ انڈسٹری کہا جاتا ہے۔ یہ درست اصطلاح ہے۔دنیامیں ہرایک کو تفریح ضرورچاہیے اورفلم ایک معیاری تفریح ہے۔ عرض کرونگاکہ ملک میں ضیاء الحق نے جس طرح منافقانہ سوشل انجینئرنگ کی، اس نے سب سے زیادہ نقصان کلچر کو پہنچایا ۔

یہ درست ہے کہ اب پاکستان میں روایتی پابندیاں تقریباًختم ہوچکی ہے۔ایک ایسی نوجوان نسل وجودمیں آئی ہے جواپنی روایات کوسینے سے لگاکررکھتی ہے۔ مگر ہر طریقہ سے جدیدترین رویوں کی حامل بھی ہے۔فلم بینی ان میں سے ایک مہذب رویہ ہے۔کسی کونقصان پہنچائے بغیردوگھنٹے کے لیے کم ازکم انسان خوش توہوجاتاہے۔

ہماری فلم انڈسٹری ابھی تک پیروں پرکھڑی نہیں ہوسکی، اگر پاکستان صرف بین الاقوامی سطح کی فلمیں بناکربرآمد کرنا شروع کردے توہماراقومی خزانہ ڈالروں سے لبریز ہوسکتا ہے۔امریکا اورانڈیاکی اقتصادی ترقی میں ان کی فلم انڈسٹری کابہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہمارے چند مایہ ناز ڈائریکٹرہروقت  شکوہ کرتے نظرآتے ہیں کہ اس شعبہ میں سرمایہ کاری نہیں ہورہی۔یہ بات جزوی طورپردرست ہے۔مگرسکے کے دوسرے رخ پران حضرات نے کبھی بات نہیں کی۔

ایسے بہت سے سرمایہ کارہیں جونیک نیتی سے فلم بنانے گئے۔ مگرڈائریکٹرصاحبان نے ان کے سرمایہ کواس طرح برباد کیاکہ وہ فلم پروڈکشن سے توبہ کرگئے۔ہمارے اکثر  ڈائریکٹرز، انتہائی نچلی سطح سے ایڑیاں رگڑرگڑکراوپرپہنچے ہیں۔اس ترقی پرکسی کوبھی کوئی اعتراض نہیں۔مگرفنی تعلیم اورپروفیشنل رویہ کی عدم موجودگی میں یہ فلم سازوں کو صرف اورصرف ایک’’آسامی‘‘سمجھتے ہیں یاایک تجوری، جس میں یہ نقب لگاسکتے ہیں۔

ایک دوست امریکا سے چارسال پہلے پاکستان تشریف لائے۔لاہورمیں ایک ٹیلی فلم بنانے کاارداہ کیا۔اتفاق سے جوڈائریکٹرمنتخب کیا، وہ نوسربازٹائپ انسان تھا۔اس نے چارلاکھ کی فلم،دس بارہ لاکھ میں مکمل کرائی۔ معائدے کے مطابق ٹیلی فلم کی مارکیٹنگ اس ڈائریکٹرکی ذمے داری تھی۔پیسے لینے کے باوجودڈائریکٹرنے اپنی قانوی ذمے داری پوری نہیں کی۔ایک ادنیٰ سی ٹیلی فلم بناکررفوچکرہوگیا۔

ایسی  درجنوں کہانیاں ہیں۔جہاں پڑھے لکھے لوگ سرمایہ کاری کرنے آئے مگر توبہ توبہ کرتے،اس شعبہ سے بھاگ گئے۔واضح رہے کہ تمام ہدایت کاروں کی بات نہیں کررہا۔بہرحال ایک خاص اکثریت انھی رویوں کی مالک ہے۔

آگے بڑھیے۔ہمارے پاس بہت سے نایاب فنکار ہیں۔ اگریہ افراد انڈیا یاامریکا میں ہوتے توارب پتی ہونے کے ساتھ ساتھ پوری دنیامیں پہچانے جاتے۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان متعدد غیرپیشہ وارانہ رویوں کے مالک ہیں۔سیٹ پرلیٹ آناتو معمول کی بات ہے۔ مگر پیسے لینے کے باوجود بھرپوراداکاری نہ کرناایک وطیرہ ہے۔ اگر کوئی ڈائریکٹردویاتین باردوبارہ ٹیک لینے کے لیے کہتاہے تو یہ لوگ ناراض ہوجاتے ہیں۔

ان کافنی رویہ اس قدرادنیٰ ہے کہ ڈائریکٹرمجبورہوکرسین اوکے کردیتا ہے۔ یعنی یہ جس کام کے پیسے لیتے ہیں اس میں بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔واپس جانے کی جلدی لگی ہوتی ہے۔ اگر انھیں خداناخواستہ ریہرسل یاڈائیلاگ یادکرنے کے متعلق کہاجائے تواپنی توہین سمجھتے ہیں۔ان میں ہر مرد اداکار اپنے آپکومارلن برانڈوسے کم نہیں سمجھتااورخاتون اداکارہ کی بات تورہنے دیجیے۔

کوئی بھی اپنے آپکوصوفیہ لورین سے کم نہیں سمجھتی۔اس کانقصان ان فنکاروں کو ہوتاہے جوسچے جذبہ اورایمانداری سے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اہلیت والے لوگوں کورُلتے دیکھا ہے۔ رنگ باز اور دونمبرفنکاروںکوآکاش بیل کی طرح پنپتے دیکھا ہے۔ مگر اب کچھ صورتحال بہترہورہی ہے۔کم ازکم ٹی وی کی حدتک پڑھے لکھے لوگ اس شعبہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ انکا مستقبل،ہماری انڈسٹری کے مستقبل سے جڑاہواہے۔

اسی طرح جاندارفلمی اسکرپٹ رائٹرزکی بے حدکمی ہے۔اگرکوئی فلمسازیاہدایتکار،نئی کہانی پرفلم بناناچاہتا ہے تونناوے فیصد ناکامی ہوگی۔ لکھاریوںنے مختلف اسکرپٹ پہلے ہی سے سجاکررکھے ہوتے ہیں۔ نئی کہانی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ چربہ سازی کا قیامت خیز رجحان ہے کہ اوریجنل کہانی ملناتقریباًناممکن ہے۔

اگرکوئی نیا لکھاری، کسی کواپنی جاندارتحریرسناتاہے تووہ شخص انتہائی اطمینان سے کہانی کواپناکہہ کرفروخت کر دیتاہے۔بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ جس خیال یاکہانی سے اس کادوردورتک کوئی تعلق نہیں،اسے وہ اپنی تصنیف بناکردام کھرے کرلیتا ہے۔ یہ ادبی قذاقی بھرپورطریقے سے موجودہے۔ اس کاکوئی سدِباب نہیں۔کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔

اب بڑے شہروں میں اچھے نئے سینماگھربن رہے ہیں۔ان میں آرام دہ ماحول مہیاکیاجارہاہے۔درست ہے کہ ان کی ٹکٹیں قدرے مہنگی ہیں۔مگرسہولت کے حساب سے مناسب ہیں۔لاہورشہرمیں چندبرسوں میں کئی ملٹی پلکس سینماگھربن چکے ہیں۔ معاشرے میں منظم طریقے سے پھیلائی گئی منافقت اورتنگ نظری اگرآڑے نہ آئی،توہماری فلم کامستقل کافی بہترہے۔

اگرپڑھے لکھے لوگ،اس شعبہ میں آئیں، پروفیشنل طریقے سے بے لاگ کام کریں توفلم اندسٹری بہت تیزی سے ترقی کرسکتی ہے۔ اگرماضی والامنافقانہ رویہ ہی رہا،توپھرجوملک کے حالات ہیں،وہی اس صنعت کے بھی رہیںگے۔یہ قوم تفریح کو ترسی ہوئی ہے۔گمان ہے کہ تمام مشکلات عبورہوجائے گی۔ آخربھوکی قوم کومناسب سی جائزتفریح توضرورملنی چاہیے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔