فواد عالم اب تم ریٹائر ہو ہی جاؤ

سلیم خالق  پير 16 اپريل 2018
فواد کی مثال سب کے سامنے ہے، انھیں کبھی کسی سے کوئی شکوہ کرتے نہیں دیکھا۔ فوٹو: فائل

فواد کی مثال سب کے سامنے ہے، انھیں کبھی کسی سے کوئی شکوہ کرتے نہیں دیکھا۔ فوٹو: فائل

فواد عالم بھی ان چند ایسے باصلاحیت کھلاڑیوں میں شامل ہیں جو سفارش یا لابی نہ ہونے کے سبب ٹیم سے باہر ہیں۔

انھوں نے چلو پاکستان کیلیے3 ٹیسٹ،38 ون ڈے اور24 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل تو کھیل لیے، یہاں صدف حسین جیسے بے شمار ایسے کرکٹرز موجود ہیں جو سر نیم الحق، شیخ یا مسعود نہ ہونے کی وجہ سے بغیر گرین شرٹ پہنے ایک آس لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں ہی کئی برسوں سے پرفارم کر رہے ہیں، مجھ سے جب ٹویٹر یا ای میل پر کوئی کسی نوجوان باصلاحیت کھلاڑی کی حق تلفی کا ذکر کرتا ہے تو میں صرف اس کی نشاندہی ہی کر سکتا ہوں مگر افسوس ملکی کرکٹ میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جو حقدار کو حق دلا سکے۔

فواد کی مثال سب کے سامنے ہے، انھیں کبھی کسی سے کوئی شکوہ کرتے نہیں دیکھا، نہ ہی سیاستدانوں کی طرح میڈیا میں آکر دہائیاں دیتے ہیں کہ ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ مگر نجانے کیوں سلیکٹرز کو وہ پسند نہیں،اب میں بھی یہ بات سمجھ چکا کہ چاہے فواد عالم ڈومیسٹک سیزن میں1500رنز بھی بنا دیں انھیں منتخب نہیں کیا جائے گا، شائقین کرکٹ کسی سے ناانصافی ہوتے نہیں دیکھ سکتے لیکن ہماری طرح وہ بھی بے بس ہیں۔

میں میڈیا وہ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے آوازاٹھاتے ہیں، پھر سلیکشن کمیٹی و دیگر ارباب اختیار کی جانب سے بے وقوف بنانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے،’’فواد عالم کی فارم چیک کرنے کیلیے نیشنل اکیڈمی طلب کر لیا‘‘ اخبارات میں ایسی شہ سرخیاں شائع کرائی جاتی ہیں،حالانکہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا کوچ بھی صرف نیٹ سیشنز سے کسی کی اہلیت نہیں جانچ سکتا۔

مکی آرتھر نیٹ پر بیٹنگ دیکھ کر فرماتے ہیں ’’ ہاں ٹھیک ہے بس اسٹروکس کی کمی ہے، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں تو جگہ نہیں دورئہ برطانیہ کیلیے ٹیسٹ میں دیکھیں گے‘‘ یوں مزید کئی ماہ تک شائقین اور فواد کو انتظار کا لالی پاپ تھما دیا جاتا ہے، اس سے قبل کہا جاتا تھا کہ مصباح الحق اور یونس خان کی موجودگی میں فواد کی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ نہیں بن سکتی، اب کون سے ڈان بریڈ مین آ گئے کہ نہیں پوچھا جا رہا۔

میڈیا کے دباؤ پر سلیکٹرز نے کیمپ میں بلا لیا لیکن روز اول سے فواد عالم الگ تھلگ نظر آرہے تھے، ٹریننگ کرانے میں مدد دینے والے لڑکوں تک توگرین شرٹ دے دی جاتی ہے مگر تین دن گذرنے کے بعد بھی فواد وہی تین سال پرانی ٹریننگ کٹ پہن کر ایکشن میں نظر آ رہے تھے، یہیں پتا چل گیا کہ جو بورڈ ان کی ٹریننگ کٹ پرچند سو یا ہزار روپے تک خرچ کرنے کو تیار نہیں وہ ٹیم میں کیا لے گا۔

افسوس اس بات کا بھی ہوا کہ ساتھی کرکٹرز میں سے بھی کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ فادی بھائی یہ میری ایکسٹرا شرٹ ہے آپ پہن لیں تاکہ ٹریننگ کرتے ہوئے ’’آؤٹ سائیڈر‘‘ نہ لگیں، مجھے یاد ہے گذشتہ برس جب میری کتاب کی رونمائی ہوئی تو سرفراز احمد کیساتھ فواد خاصی دیر تک اکیلے میں باتیں کرتے رہے، دونوں بچپن کے ساتھی ہیں اور سرفراز اب تینوں طرز میں کپتان بن چکے، مگرانھیں قصوروار نہیں سمجھنا چاہیے، ٹیم میں داخلے کا دروازہ تین چابیوں سے کھلتا ہے، بیک وقت دو کا ہونا ضروری ہے۔

انضمام الحق اور مکی آرتھر تو فواد کو پسند نہیں کرتے لہذا سرفراز کے واحد ووٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پاکستانی ٹیم سے انھیں باہر ہوئے تین برس ہو گئے میں نے کبھی ان کے منہ سے کسی سلیکٹر ، کھلاڑی یا بورڈ آفیشل کی برائی نہیں سنی، ویسے اگر میڈیا میں آکرایسا کرتے بھی تو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے پر بھی پابندی لگادی جاتی، فٹنس ٹیسٹ میں اگر وہ ہر بار بڑے بڑے اسٹارز سے آگے نکل جاتے ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، جب کوئی پسند نہ ہو تو وہ آسمان سے تارے بھی توڑ لائے توکسی کومتاثر نہیں کر سکتا۔

انضمام الحق جب چیف سلیکٹر بنے تو لوگوں نے سمجھا اب وہ تبدیل ہو گئے ہیں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے مگر افسوس یہ سوچ غلط تھی، ٹیلنٹ پرکھنے کی ان کی نظر اپنے گھر کی چاردیواری تک محدود رہی، انھیں بھتیجا امام الحق فوراً نظر آ گیا، سری لنکا کی کمزور ترین ٹیم کیخلاف ڈیبیو بھی کرا دیا۔

یقین مانیے امام الحق کیا ڈومیسٹک کرکٹ کے کسی بھی نمایاں بیٹسمین کو آپ یو اے ای کی آسان پچ پر کمزور بولنگ کے سامنے کھیلنے کا موقع دیتے تو وہ سنچری بنا دیتا، امام الحق یقیناً باصلاحیت بیٹسمین ہیں مگر ان سے زیادہ بہتر بیٹسمین بھی تو موجود ہیں ان کو کیوں نہیں آزمایا ؟ کیا اس کیلیے کہ ان کے نام کا دوسرا لفظ الحق نہیں ہے، پھر حق کی بات کہاں گئی بھائی، یقیناً فواد کے ذہن میں ایسی باتیں تو آتی ہی ہوں گی۔

سپر فٹ ہونے کے باوجود کبھی کہا اسٹروکس نہیں ہیں، محدود اوورز میں نہیں چلے گا، کبھی کوئی اور بہانہ تراشا گیا، بات نہ بنی تو یہ افواہ پھیلا دی کہ فواد فکسنگ میں ملوث ہے، ایسی باتیں اڑانے والے وہ لوگ تھے جو اب بھی ایسے ہی حرام پیسوں پرعیش کررہے ہیں، کھلے عام فکسنگ کرنے والے آج بھی ہیرو بنے گھومتے ہیں اورجو ملک کیلیے کچھ کرنا چاہتا ہے وہ اب بھی باہر ہے۔

میں نے خود پی سی بی سے پوچھا تو یہی جواب ملاکہ فواد کے ساتھ پورے کیریئر میں اس قسم کا کوئی مسئلہ نہیں رہا،اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ انھیں خود ہی انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ کبھی فارم تو کبھی فٹنس چیک کرنے کے نام پر لاہور بلوانا ہی نہ پڑے،پرستاروں کو بھی ہر سیریز سے قبل آس نہ رہے گی کہ فواد ٹیم میں واپس آ جائیں گے، گذر بسر کیلیے ڈومیسٹک کرکٹ تو ہے ہی۔

دکھ اس بات کا ہے کہ ارباب اختیار کی نظر میں ٹیلنٹ کی قدر نہیں، اقرباپروری اور ذاتی پسند ناپسند عروج پر ہے،ہمیں یقیناً افسوس رہے گا کہ اتنا اچھا بیٹسمین ضائع ہو گیا لیکن کیا کریں مجبور ہیں، جب کسی کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو تو سپرفٹ باصلاحیت کھلاڑی کہاں نظر آئے گا، نجانے ہم کتنے اچھے کرکٹرز ایسے ہی گنواتے رہیں گے۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔