- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
معزز جج کی رہائش گاہ پر فائرنگ کا واقعہ
ماڈل ٹاؤن لاہور میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجازالاحسن کی رہائش گاہ پر نامعلوم افراد نے2 بار فائرنگ کی، پولیس ذرایع کے مطابق فائرنگ کے واقعات ہفتے کی شب 10:45 اور اتوار کی صبح 09:45 پر پیش آئے، تاہم کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا، پولیس نے جسٹس اعجازالاحسن کے گھر فائرنگ کی ابتدائی رپورٹ چیف جسٹس کو ارسال کردی۔
فائرنگ کے افسوسناک واقعہ کی ملک گیر مذمت جاری ہے، بادی النظر میں اور میڈیا کی اطلاعات کے مطابق فائرنگ کی واقعاتی تفصیل موجود ہے، تاہم پتا چلنا چاہیے کہ فائرنگ کرنے والے کون تھے؟ اور ان کے عزائم کیا ہوسکتے ہیں۔ ان کی اصل منشا کیا تھی؟ چنانچہ ہمہ جہتی اور کثیرالاطراف تحقیقات کے بعد ہی کوئی حمتی رائے قائم کی جاسکتی ہے، لہٰذا حقائق تک رسائی تک سیاست دانوں کی طرف سے بیان بازی، الزام تراشی، قیاس آرائی اور میڈیا پر رائے زنی اور تبصروں سے احتراز صائب عمل ہوگا، جرم کی سنگینی ناقابل معافی ہے.
ایسی کوئی بات کسی طرف سے نہیں ہونی چاہیے جس سے تحقیقات متاثر ہو، کیونکہ مصدقہ اور مستند شواہد کے منتظر جج حضرات خود بھی ہیں، واردات پراسراریت لیے ہوئے ہے، ملزمان کی دو بار فائرنگ دیدہ دلیری کی وحشیانہ اور چالاک تکنیک ہے، ملزمان تاحال بے چہرہ بتائے جاتے ہیں۔
یہ کوئی انفرادی عمل ہے یا اس کے پس پردہ کوئی مجرمانہ گروہ ہے ابھی تک کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی ہے جب کہ سیاسی، قانونی اور سماجی حلقوں نے واردات کو قومی اداروں پر حملہ قراردیا ہے، میڈیا کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صورتحال کی نگرانی کررہے ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ انتہائی جانفشانی سے واردات میں ملوث عناصر کا جلد کھوج لگائیں تاکہ فائرنگ کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن فائرنگ سے 6 منٹ پہلے گھر پہنچے، ابتدائی رپورٹ پہلی گولی کی اطلاع رینجرز اہلکار، دوسرے کی ملازمہ نے دی، رہائشگاہ پر 4 رینجرز، پولیس کے 5 اہلکار تعینات ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گولی کافی فاصلہ سے چلائی گئی جو گھر کے مین گیٹ کے بالائی حصہ پر لگی، موقع سے ملی گولی فائر آرمز اینڈ ٹول مارکس کو بھیج دی گئی، ابتدائی تحقیقات میں مزید بتایا گیا کہ رات کو فائر کی گئی ایک گولی مرکزی دروازے اور صبح فائر کی گئی دوسری گولی کچن کی کھڑکی پر لگی، فائرنگ نائن ایم ایم پستول سے کی گئی۔
فارنسک ٹیموں نے دو مرتبہ جسٹس اعجازالاحسن کے گھر کا دورہ کیا، گولیوں کے خول اور دیگر شواہد اکٹھے کیے، پولیس نے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کرلی اور واقعے کی جیوفینسنگ کرانے کا فیصلہ کیا ہے، اب تک کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار اطلاع ملتے ہی جسٹس اعجازالاحسن کی رہائش گاہ پہنچ گئے، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز کو بھی موقع پر طلب کرلیا، چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ جسٹس اعجازالاحسن کے گھر پر فائرنگ کے واقعے کا جائزہ لے رہے ہیں۔اس واقعہ کے خلاف بطور احتجاج وکلا نے ہڑتال کا اعلان کیا تھا لیکن لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ہڑتال کا کوئی جواز نہیں، سائلین کو مشکل میں نہیں دیکھ سکتے، جس پر وکلا نے ہڑتال ختم کردی ۔
چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز کو بھی موقع پر طلب کرلیا، سپریم کورٹ کے ترجمان نے بتایا کہ چیف جسٹس خود اس معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن سمیت سپریم کورٹ کے کئی ججز اس وقت لاہور میں ہیں، بعدازاں سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے متعدد ججز جسٹس اعجازالاحسن کے گھر گئے اور ان کی خیریت دریافت کی۔ واقعے کے بعد جسٹس اعجازالاحسن کے گھر کے باہر رینجرز تعینات کر دی گئی جب کہ دیگر ججوں کی رہائشگاہوں کی سیکیورٹی بھی بڑھا دی گئی۔
دریں اثنا ماڈل ٹاؤن پولیس نے کانسٹیبل محمد آصف کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا، مقدمہ میں 324، 427 اور 7 اے ٹی اے کی دفعات لگائی گئی ہیں جب کہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سلطان چوہدری کی سربراہی میں انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی گئی، ادھر وکلا تنظیموں نے واقعے کی شدید مذمت کی ہے جب کہ چیف جسٹس کی درخواست پر ہڑتال کی کال واپس لے لی۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، آصف زرداری، عمران خان اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے لاہور میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجازالاحسن کی رہائش گاہ پر فائرنگ کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ ججز سے اظہار یکجہتی وقت کا تقاضہ ہے۔
علاوہ ازیں پاک فوج کے ترجمان نے بھی جسٹس اعجازالاحسن کے گھر پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کے موثر کردار کے لیے تمام فریق محفوظ فضا یقینی بنائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فائرنگ میں ملوث افراد کوجلد گرفتار کیا جائے تاکہ آیندہ کسی کو عدلیہ کو ڈرانے کی جرأت نہ ہو۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔