قانون کا غلط استعمال

ظہیر اختر بیدری  منگل 17 اپريل 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

بھارت کی دنیا میں شہرت کی وجہ جمہوریت اور سیکولر ازم ہے اور بدقسمتی سے یہ دونوں خوبیاں خامیوں میں بدل رہی ہیں، بھارت کی شہرت کا ایک حوالہ بھارتی معاشرے میں قانون کی برتری بھی ہے لیکن بھارتی قانون انصاف کے حوالے سے اندھا نہیں بلکہ اپنے جہل کی وجہ سے اندھا ثابت ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے قانونی جہل کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن تازہ مثال بھارت کے سپراسٹار سلمان خان کی سزا اور جرمانہ بھارت کو صدیوں پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ جودھپور کی ایک عدالت نے سلمان خان کو 20 سال پہلے یعنی 1998 میں دو کالے ہرنوں کا شکارکرنے کے جرم میں 5 سال کی قید اور 10 ہزار جرمانہ کردیا ہے۔ بھارت آئین کے حوالے بلاشبہ ایک سیکولر ملک ہے لیکن عملی زندگی میں بھارت افریقہ کے جاہل اور وحشی قبائل سے بھی بدتر ملک ہے۔ سلمان کی ضمانت کا مسئلے کا حل نہیں۔

ہرن کالا ہو یا گورا ہر حال میں انسانی غذا کا ایک حصہ ہے، کہا جا رہا ہے کہ بھارت میں کالا ہرن نایاب ہے، اس لیے اس کی زندگی کی اہمیت ہے۔ ہمارے ملک سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں بے شمار جانور ایسے ہیں جن کی نسلیں نایاب ہیں اور نایاب نسلوں کا تحفظ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی لبرل پالیسی کی داد دینی چاہیے کہ یہاں نایاب نسلوں کے جانوروں کا شکار نہ صرف پاکستانی اشرافیہ کرتی ہے بلکہ عرب شیوخ کو بھی تیتر بٹیر کے شکارکی کھلی چھٹی دیتی ہے۔

نایاب نسل کی حفاظت ضروری ہے لیکن اس کام میں اتنی دور تک نکل جانا کہ معروف شخصیات کی آزادی کو 5 سال کے لیے چھین لینا جہل کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے، اس جہل اور ظلم کے خلاف بھارت کی فلم انڈسٹری سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔

یاد رکھیں قانون کا احترام صرف اس وقت تک جائز ہے جب تک وہ تہذیب اور انسانیت کے دائرے میں رہتا ہے، ایسے قانون کو جو جہل آمادہ ہو جلا دینا چاہیے کیونکہ قانون معاشرے کے مہذب لوگوں کا ’’باڈی گارڈ‘‘ ہوتا ہے نہ کہ ہتھیار۔گائے ایک دیگر جانوروں کی طرح ایک جانور ہے جو انسان کی غذا کا ایک حصہ ہے، ہر دور میں جہاں اہل علم اور اہل دانش رہے ہیں وہیں جاہل اور وحشی بھی رہے ہیں، گائے کو ماتا کا نام دے کر اسے مقدس بنانا اور اس کی تکریم بھگوان کی طرح کروانا اہل علم اور مہذب انسانوں کا کام نہیں بلکہ جاہل اور وحشی لوگوں کا کام ہے۔ پچھلے عرصے گاؤ ماتا کے نام پر سیکڑوں انسانوں کا انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ مسلمانوں کے فریجوں کی تلاشیاں لی گئیں اور شک کی بنیاد پر بے گناہ انسانوں کو قتل کردیا گیا کیا اس سے بڑی جہالت اور کوئی ہوسکتی ہے؟

بھارت کا شمار آبادی کے حوالے سے دنیا کے دوسرے بڑے ممالک میں ہوتا ہے اور بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ گائے دوسرے جانوروں کی طرح ایک جانور ہے۔ اس میں کوئی انفرادیت نہیں، ساری دنیا میں گائے کا گوشت کھایا جاتا ہے ،کسی ملک میں گائے کا گوشت کھانا ممنوع نہیں ہے نہ قانوناً جرم ہے لیکن یہ کس قدر شرم اور افسوس کی بات ہے کہ بھارت جیسے لبرل ملک میں گاؤکشی قانوناً جرم ہے اور اس جرم کی سزا کا اختیار وحشی ہندوؤں کو دے دیا گیا ہے۔ کیا بھارت اس حوالے سے اپنے آپ کو مہذب ملکوں میں شمار کرسکتا ہے؟

ہم مسلمان ہیں اور دنیا میں مسلم ملکوں کی تعداد 57 ہے لیکن اس شرمناک حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں دہشت گردی کی جو وبا ہمارے ملکوں سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئی ہے اس کی ذمے داری مسلمانوں پر ڈالی جا رہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کا یہ کلچر مسلم ملکوں ہی میں پروان چڑھا ہے اور مسلم ملک ہی اس حوالے سے سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے کے نام پر دہشت گردی کی جو وحشیانہ کارروائیاں شروع کی گئی تھیں، ان کی بے لگامی کا عالم یہ ہے کہ اس بلا سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں ہی کا ہو رہا ہے۔

مذہبی انتہا پسندی ایک ایسی جہالت ہے جو انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا کر حیوانیت سے بد تر درجے پر لاکھڑا کردیتی ہے۔ دہشت گردی مذہبی انتہا پسندی سے زیادہ ایک نفسیاتی بیماری بھی ہے جس کا علاج ہتھیاروں سے نہیں بلکہ علم کے پھیلاؤ، نفسیاتی علاج سے کیا جانا چاہیے۔

دوسری قومیں دہشت گردی کے حوالے سے مسلمانوں پر جہل کا الزام لگا سکتی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلمانوں کی 95 فیصد اکثریت مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہی نہیں بلکہ اس سے نفرت کرتی ہے۔ اس کے برعکس ہندو دھرم میں گاؤ ماتا کو ایک بھگوان کا درجہ دینے والوں میں ہندو اکثریت شامل ہے یہی وہ فرق ہے جو مہذب اور جہلا میں پایا جاتا ہے۔

سلمان خان کی سزا میں ہوسکتا ہے مذہبی جذبات کا دخل نہ ہو لیکن سلمان خان کو جس قانون کے حوالے سے 5 سال کی سزا دی گئی ہے وہ ایک ایسی تہذیب یافتہ جہالت ہے جو فطری جہل سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سلمان خان کی سزا کے خلاف فلم انڈسٹری میں احتجاج کیا گیا ہے لیکن یہ جرم جس قدر بڑا ہے اس کے تناظر میں اس سزا کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہونا چاہیے تھا۔

سلمان خان کو اس جرم میں پانچ سال کی سزا دی گئی ہے کہ اس نے نایاب نسل کے دو کالے ہرنوں کا شکار کیا۔ اس حوالے سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ گائے کی رکھشا کے نام پر اب تک جتنے مسلمانوں کو قتل کیا گیا ان میں سے کتنے مجرموں کو سزا دی گئی؟

ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں جہاں سائنس، ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے انقلاب نے انسانی زندگی کی قدروں، رواجوں اور عقائد و نظریات کو سر سے پیر تک بدل کر رکھ دیا ہے، انسان چاند پر ہو آیا ہے، مریخ پر جانے کی تیاری کر رہا ہے اب آسمان وہ روایتی آسمان نہیں رہا جو ہزاروں سال سے رہا تھا اب آسمان ایک حد نگاہ ہے اس بدلی ہوئی دنیا کے تناظر میں گاؤ رکھشا، دہشت گردی، جہل کی ایسی بدتر مثالیں ہیں جو آج کی جدید دنیا اور آج کے ترقی یافتہ انسان کی پیشانی پر جہل کا کوڑھ ہیں اور سلمان خان کی سزا اسی کوڑھ کا حصہ ہے۔ سلمان خان کی ضمانت ہوگئی ہے لیکن قانون کی اندھی لاٹھی برقرار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔