الیکشن 2018

شکیل فاروقی  منگل 17 اپريل 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

بالغ حق رائے دہی جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہے۔ یہ حق مذہب و ملت، ذات پات، امیر و غریب اور صنفی تفریق سے بالاتر ہے، لیکن اس حق کے استعمال کے لیے لازمی ہے کہ انتخابی فہرستیں بالکل درست اور ’’ اپ ٹو ڈیٹ‘‘ ہوں۔

وطن عزیز میں الیکشن کمیشن یہ کام انجام دیتا ہے جس کے لیے وہ وقفے وقفے سے قومی شناختی کارڈ کی مدد سے ووٹروں کی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ انتخابی فہرستوں کو آیندہ عام انتخابات کے حوالے سے چیک کرکے 24 اپریل تک درست اور اپ ڈیٹ کیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس مقصد کے لیے ملک بھر میں 14500 مراکز قائم کیے ہیں جہاں پر آویزاں انتخابی فہرستوں کا معائنہ کیا جاسکتا ہے اور شکایات بھی درج کروائی جاسکتی ہیں۔

لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بالغ شہریوں کی خاصی بڑی تعداد ابھی تک قومی شناختی کارڈوں سے محروم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سی این آئی سی کا حصول ہے جو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ نادرا (NADRA) کا ناقص نظام راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نادرا کے دفاتر مطلوبہ تعداد کے مقابلے میں کم ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں صبح ہی سے لگ جاتی ہیں اور عوام کو بری طرح سے خوار ہونا پڑتا ہے اور کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔

سب سے زیادہ پریشانی بزرگ اور بیمار شہریوں کو ہوتی ہے جو گھنٹوں تک قطاروں میں کھڑے رہنے کی تاب نہیں لاسکتے۔ شیرخوار بچوں کی ماؤں کی حالت بھی قابل رحم ہوتی ہے جو اپنے روتے بلبلاتے ہوئے بچوں کو بڑی مشکل سے سنبھال رہی ہوتی ہیں۔ آفس سے بمشکل چھٹی لے کر قطاروں میں کھڑے ہوئے ملازمین بھی بری طرح سے پریشان ہو رہے ہوتے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ عروس البلاد کراچی میں نادرا کے مراکز کی تعداد میں اضافے کے بجائے درجن بھر سے زیادہ سوئیفٹ/ ایگزیکٹیو سینٹرز بند ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہوگئے ہیں اور شہریوں کی دشواریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ ’’کریلا اوپر سے نیم چڑھا‘‘ کے مصداق جب گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنے کے بعد امیدوارکا نمبر آتا ہے تو نادرا کے اسٹاف کا ناروا برتاؤ جلتی پر تیل چھڑکنے کے مصداق ہوتا ہے۔ نادرا کی اس ناقص کارکردگی کے قصے اب عام ہوچکے ہیں۔ بقول ایک فلمی شاعر:

آج کل ترے میرے پیار کے چرچے ہر زبان پر

سب کو معلوم ہے اور سب کو خبر ہوگئی

گزشتہ دنوں اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے نادرا  سربراہ نے دفاتر پر اچانک چھاپے بھی مارے تھے اور سخت ایکشن بھی لیا تھا جو یقینا لائق ستائش اور حوصلہ افزا بھی ہے لیکن برسوں سے بگڑے ہوئے اس محکمے کو درست کرنا، آسان مرحلہ نہیں ہے۔ بہرحال اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے ملک کے تمام بالغ شہریوں کو چاہیے کہ وہ اپنا قومی شناختی کارڈ جلدازجلد ضرور بنوائیں تاکہ آیندہ عام انتخابات میں ووٹ ڈال کر وہ اپنا مقدس قومی فریضہ ادا کرکے جمہوریت کی جڑیں مضبوط اور مستحکم کرسکیں۔

نادرا کے سربراہ سے ہماری گزارش ہے کہ وہ جنگی بنیاد پر اپنے محکمے کی اصلاح کرکے شناختی کارڈ کے حصول کو آسان سے آسان بنائیں اور آیندہ عام انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار کریں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ نادرا کے گشتی مراکز کا اہتمام کیا جائے خواہ اس کے لیے معقول فیس ہی کیوں نہ مقرر کرنی پڑے تاکہ عوام کو بلاوجہ کی خواری اور دھکے کھانے سے بچایا جاسکے۔ ووٹ ڈالنے کے لیے قومی شناختی کارڈ کا موجود ہونا قطعی ناگزیر ہے ورنہ ’’نہ نو من تیل ہوگا ‘ نہ رادھا ناچے گی۔‘‘

جس طرح سینیٹ کے الیکشن سے قبل یہ افواہ اڑائی گئی تھی کہ سینیٹ کے انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا اسی طرح سے الیکشن 2018 کے انعقاد کے بارے میں بھی طرح طرح کی گمراہ کن افواہیں اڑائی گئی تھیں، لیکن رفتہ رفتہ ان افواہوں نے بھی دم توڑ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک کا سیاسی منظر نامہ بھی تبدیل ہونا شروع ہوگیا ہے اور وطن عزیز کی تمام بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں نہ صرف اپنی حکمت عملی ترتیب دے رہی ہیں بلکہ اپنی حریف جماعتوں کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف نظر آرہی ہیں۔

سیاسی جوڑ توڑ کی کوششیں بھی شروع ہوچکی ہیں۔ مرغ باد نما قسم کی شخصیات جو نظریات کی نہیں بلکہ اپنے مفادات کی خاطر ملکی سیاست سے وابستہ ہیں اب ہواؤں کا بدلتا ہو رخ دیکھ کر اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کر رہی ہیں۔ بقول غالب:

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

سیاسی جماعتوں کی اخلاقیات اور نظریاتی پستی کا بھی یہ عالم ہے کہ وہ دوسری سیاسی جماعتوں کے بھگوڑوں کو بڑی خوشی کے ساتھ اپنی صفوں میں شامل کر رہی ہیں اور یہ نہیں سوچ رہیں کہ ’’جو نہ ہوئے باپ کے وہ کیا ہوں گے آپ کے؟‘‘ بدقسمتی سے کسی بھی سیاسی جماعت کو الیکشن میں کھڑے ہونے والے امیدوار کے اچھے اور برے ذاتی کردار سے زیادہ اس کے اثر و رسوخ اور چناؤ جیتنے کی صلاحیت اور امکانات سے غرض اور دلچسپی ہے۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہونے والا امیدوار ایک دم سے ڈرائی کلین ہوکر راتوں رات دوسری پارٹی کا وفادار قرار پاتا ہے اور ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ دوسری جانب سابقہ پارٹی والوں کے نزدیک وہ پارٹی بدلتے ہی پارسا سے شیطان بن جاتا ہے۔ رہی بات اسے منتخب کرنے والے ووٹرز کی تو بھلا ان بے چاروں کی کون پرواہ کرتا ہے۔ بس رات گئی، بات گئی والا معاملہ۔ جمہوریت کے نام نہاد علمبرداروں کے خیال میں یہی جمہوریت کا حسن ہے جس کے چرچے کرتے کرتے نہ ان کی زبان تھکتی ہے اور نہ ان کا حلق خشک ہوتا ہے۔ اس طرح بے چاری جمہوریت کا جوبن چٹکیوں سے لوٹا جا رہا ہے۔

افسوس کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کا ڈھنڈورا تو مدت دراز سے زور و شور کے ساتھ پیٹا جا رہا ہے لیکن اصلی جمہوری روایات کو پروان چڑھنے کا ابھی تک موقع ہی نہیں ملا۔ ہمارے ملک میں الیکشن لڑا تو عوام کی خدمت کے نام پر جاتا ہے لیکن الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیدوار بعد میں سارا وقت اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے صرف کرتے ہیں ۔

وطن عزیز میں اردو میڈم سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا اور طالبات کو تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان کو انگریزی میڈیم والوں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کیا وہ انگلش میڈیم کے مرہون منت ہیں؟

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو ذہنی طور پر انگریزوں کا غلام ہے۔ یہ طبقہ ہرگز نہیں چاہتا کہ ہماری قومی زبان اردو پھلے اور پھولے۔ یہ وہی طبقہ ہے جس کا حکومت پر غلبہ ہے اور جو انگریزی کے فروغ کے لیے اردو کو پس پشت ڈالنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اردو کے خلاف اور انگریزی کے حق میں یہ طبقہ نت نئی تاویلیں تراشتا رہتا ہے۔ یہ اسی طبقے کا پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے کہ ہمارا ملک انگریزی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔

دراصل اس طبقے کا احساس برتری واقعتاً اس کے احساس کمتری کا ثبوت ہے جسے وہ کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ اس بودی دلیل کے جواب میں کہ انگریزی کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا فرانس، چین، روس اور جرمنی، جاپان جیسے دنیا کے عظیم ترقی یافتہ ممالک کی ترقی انگریزی کی بدولت ہوئی ہے؟

اردو کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس میں دیگر زبانوں کو اپنے اندر سمونے اور جذب کرلینے کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک جامع زبان نہیں بلکہ ایک ارتقا پذیر اور وسیع القلب زبان ہے۔ گستاخی معاف! اردو زبان کو مسخ کرنے میں ہماری اشتہاری صنعت کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جس میں اردو کے الفاظ کو رومن رسم الخط میں لکھنے کی بدعت عام ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اردو کے اشتہارات اردو رسم الخط میں ہی پیش کیے جائیں۔ اس سلسلے میں ہماری وزارت اطلاعات و نشریات کو اپنا قومی کردار ادا کرنا چاہیے جوکہ قومی زبان کی ترویج کے حوالے سے اس کا قومی فریضہ ہے۔

برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کے واضح احکامات کے باوجود اردو زبان کے فروغ کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے لاپرواہی اور تساہل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ یہ اردو ہی ہے جو خیبر سے لے کر کیماڑی تک رابطے کی واحد عوامی زبان ہے۔ سچ پوچھیے تو قوم کو متحد رکھنے میں اردو کا کردار کلیدی ہے۔ درحقیقت اردو کسی مخصوص طبقے یا علاقے کی نہیں بلکہ ہم سب کی قومی زبان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔