اپنی کہانیوں کو لوگوں تک پہنچانے کیلئے فلم سازی کی جانب آئی، جسی سنگا

ق۔ الف  منگل 17 اپريل 2018
نرسنگ چھوڑکر رائٹنگ اورڈائریکشن کرنے والی جگی سنگا کا ایکسپریس کوانٹرویو ۔ فوٹو : فائل

نرسنگ چھوڑکر رائٹنگ اورڈائریکشن کرنے والی جگی سنگا کا ایکسپریس کوانٹرویو ۔ فوٹو : فائل

بالی وڈ کا شمار دنیا کی چند بہترین فلم انڈسٹریوں میں ہوتا ہے۔

اس فلم نگری میں ہر روز کوئی نہ کوئی نیا چہرہ اپنی قسمت آزمائی کیلئے ممبئی پہنچتا ہے۔ کوئی اسکرین کے سامنے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے بڑے پردے پرراج کرنا چاہتا ہے توکوئی رقص کے بل پرسب کونچانے کے خواب لئے آتا ہے۔

بس یوں کہئے کہ فلمی دنیا کی چکا چوند نے سب کواپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔ اکثریت توکیمرے کے سامنے دکھنے کی خواہش رکھتی ہے لیکن جولوگ کیمرے کے پیچھے رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی کمال دکھاتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے اوراس وقت بالی وڈ میں نام اورشہرت کمانے والے ہدایتکاروں اوررائٹروں کی کامیابی کے پیچھے چھپی جدوجہد پرنظرڈالیں تووہ نوجوانوں کیلئے ایک طرح کی مثال بھی بن جاتی ہے۔ ان دنوں بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان فلم ڈائریکٹراوررائٹر جسی سنگا بھی پاکستان کے دورے پرہیں۔ کہنے کوتووہ ایک پروفیشنل نرس ہیں، لیکن علم و ادب اورفنون لطیفہ سے لگاؤ نے انہیں بالی وڈ تک پہنچا ہی دیا۔

اس دوران انہیں خاصی مشکلات کا سامنا رہا لیکن ان کی محنت، لگن اورہمت نے انہیں بہت جلد معروف ہدایتکاروںکی اسسٹنٹ کے طور پرکام کا موقع دیا اوراب وہ بطور ڈائریکٹرورائٹراپنی فلم پرکام کررہی ہیں۔ لاہورقیام کے دوران انہوں نے ’’ایکسپریس‘‘ کوخصوصی انٹرویودیا، جو قارئین کی نذرہے۔

جسی سنگا نے بتایا کہ بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہرایک شخص کی بہت سی خواہشات میں سے ایک خواہش یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان ضرور جائے۔ اسی طرح میری بھی یہ بچپن سے ہی خواہش تھی کہ میں پاکستان جاؤں، جوکہ میری ایک بہترین دوست زارا کی شادی میں شرکت کی وجہ سے پوری ہو گئی۔ میں ایک ماہ کے ویزہ پرلاہورمیں ہوں اور یہاں قیام کے دوران ایک لمحہ بھی مجھے یہ محسوس نہیں ہوا کہ میں کسی دوسرے ملک میں ہوں۔

البتہ جوکچھ میں نے سن رکھا تھا لاہوراوراس کے رہنے والوں کے بارے میں ، اس سے بڑھ کرانہیں پایا۔ اس قدر چاہت، مہمان نوازی کا سلسلہ یہاں جاری ہے کہ اس کولفظوں میں بیان نہیں کرسکتی۔ اکثریت سے پہلے کبھی نہیں ملی لیکن جوبھی ملتا ہے ، اس سے مل کریوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے برسوں کی ملاقات ہے۔ میں حیران ہوں اوریہاں سے ملنے والے پیارکوکبھی نہیں بھلا سکوں گی۔ یہاں آنے سے پہلے سب ڈرا رہے تھے لیکن میری سیروتفریح دیکھ کراب سب پچھتا رہے ہیں۔

لاہورمیں تاریخی شاہی قلعہ، گردوارہ اوردیگرمقامات کی سیر کی، اس کے علاوہ شاپنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جہاںتک یہاں کے کھانے کا تعلق ہے تووہ انتہائی لذیزہے، مگرمیری بدقسمتی کہہ لیں کہ میں زیادہ خوش خوراک نہیں ہوں۔

انہوں نے کہا کہ لاہورقیام کے دوران ورسٹائل اداکار نیئر اعجاز، راشد محمود، افضل ساحر، شاعر بابا نجمی اور ڈی جی پلاک ڈاکٹرصغری صدف سمیت بہت سی اہم شخصیات سے ملاقات ہوئی۔ پنجابی زبان اورادب کیلئے یہاں ہونے والے کام نے مجھے بہت متاثر کیا۔

اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مجھے خود ادب سے بہت لگاؤ ہے اوریہی وہ وجہ ہے جس کی بدولت آج میں بھارتی فلم انڈسٹری میں کام کررہی ہوں۔ وگرنہ میں تو بطور پروفیشنل نرس کام کررہی تھی لیکن اس کام کوکرتے ہوئے مجھے اکثریہ محسوس ہوتا تھا کہ میں اس شعبے میں کام کرنے کیلئے نہیں بنی۔

میری تخلیقی صلاحیتیں وہاں متاثر ہورہی تھیں، جس کی وجہ سے میں نے اس پیشے کوخیربادکہا اورپھرعلم وادب کی جانب اپنا رجحان بڑھایا۔ مجھے بچپن سے ہی کتابوں کے مطالعہ کا شوق تھا اوروہ آج بھی قائم ہے۔ بہت سے معروف لکھاریوں کی کتابیں پڑھیں اوران کے مطالعہ سے میری تخلیقی حس بیدارہوئی۔

میں نے اپنے احساسات اورجذبات کو دوسروں تک پہنچانے کیلئے بھارتی سینما کوسب سے بہترین ذریعہ سمجھا اورپھراس مشن پرچل نکلی۔ یہ خاصا مشکل کام تھا کیونکہ بنا کسی سفارش کے اس شعبے میں آنا ممکن ہی نہیں بلکہ بہت مشکل تھا۔ لیکن میں اپنے گھرسے بہت دورممبئی پہنچی، جہاں بہت سے ہدایت کاروں کی ٹیم کا حصہ بن کرکام شروع کیا اور پھر بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کام کرنے لگی۔ اس کے ساتھ ساتھ کہانی لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

بطوراسٹنٹ اورسکرپٹ سپروائزرکے گریش ملک، پلکت، اوتار، مکیش گوتم کے ساتھ کام کیا۔ میں نے بطور رائٹر و ڈائریکٹر کچھ شارٹ اورڈاکومینٹری فلمیں بنائی ہیں لیکن اس وقت بطور رائٹر و ڈائریکٹر ایک پنجابی فیچرفلم پرکام کررہی ہوں۔ فی الوقت فلم کی کہانی لکھی جا رہی ہے اوراس کے مکمل ہوتے ہی کاسٹ اورلوکیشنز کوفائنل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ فلمسازی کے شعبے میں آنے کا مقصد ایک ہی ہے کہ جوکہانیاں میرے پاس ہیں، ان کولوگوں تک پہنچاسکوں کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ جولوگ لکھنے اورپڑھنے سے دور ہوتے ہیں، وہ اچھی فلم دیکھ کربہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، اگر اس کی کہانی میں کوئی مضبوط پیغام ہے تو۔ اس لئے میرے نزدیک فلم کا شعبہ سب سے اہم ہے اورمیں اس پروفیشن میں تمام عمر کام کرنا چاہتی ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔