حکومت کو ججز سے سرکاری رہائش گاہیں واپس لینے سے روک دیا گیا

ویب ڈیسک  منگل 17 اپريل 2018
وزارت ہاؤسنگ کا ججز کی رہائش گاہیں واپس لینے کا نوٹیفکیشن بدنیتی پر مبنی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ فوٹو:فائل

وزارت ہاؤسنگ کا ججز کی رہائش گاہیں واپس لینے کا نوٹیفکیشن بدنیتی پر مبنی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ فوٹو:فائل

 اسلام آباد: ہائیکورٹ نے حکومت کو ججز سے سرکاری رہائش گاہیں واپس لینے سے روک دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ماتحت عدلیہ کے ججز کی رہائش گاہیں واپس لینے کے کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 33 ججز کی درخواست کی سماعت کی۔ عدالت عالیہ نے وزارت ہاؤسنگ کا 28 مارچ کا نوٹیفیکیشن معطل کرتے ہوئے حکم دیا کہ آئندہ سماعت تک رہائش گاہیں واپس نہیں لی جاسکتیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ وفاقی وزیر اور سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے، وزارت ہاؤسنگ کا ججز کی رہائش گاہیں واپس لینے کا نوٹیفکیشن بدنیتی پر مبنی ہے، اسلام آباد ضلعی کچہری کے ججز کمرشل ایریا میں عدالتیں لگائے ہوئے ہیں۔ عدالت نے وزیر ہاوٴسنگ، سیکریٹری ہاوٴسنگ اور اسٹیٹ افسر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ججز قانون کے تحت سرکاری رہائشیں رکھنے کے اہل ہیں۔
کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججوں سے سرکاری رہائش گاہیں خالی کرانے کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔ ان میں نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کرنے والے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر اور انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند بھیک شامل ہیں۔ 2008 میں وزارت ہاوٴسنگ نے اسلام آباد ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز کو سرکاری رہائش گاہیں الاٹ کی تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔