ملکی سیاست کا چلن اور حالات کا تقاضا

ایڈیٹوریل  بدھ 18 اپريل 2018
سیاسی جماعت کا کام عوام کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے‘ اگر سیاسی جماعتیں سطحی نوعیت کے بیانات دیں گے۔فوٹو: فائل

سیاسی جماعت کا کام عوام کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے‘ اگر سیاسی جماعتیں سطحی نوعیت کے بیانات دیں گے۔فوٹو: فائل

صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں کام کرے تو کسی کو شکایت نہیں ہوگی، سیاسی جماعتوں کوخود مل کر ملک کے مفاد میں کام کرنا چاہیے، عام انتخابات وقت پر ہوں گے، وہ پیر کو پاسپورٹ آفس پر صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔

صدر مملکت نے اداروں میں خوش گمانی ، ہم آہنگی، تعلقات کار اور خیرسگالی کے حوالے سے جن نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے، بدقسمتی سے ملکی سیاست ایک عجیب خلفشار سے دوچار ہوگئی ہے مگر دلچسپ و حیرت انگیزبات یہ ہے کہ پیدا شدہ گمبھیر صورتحال اس سے پہلے کبھی ایسی نہیں دیکھی گئی ، یعنی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایسا تو وطن عزیز میں ہوتا رہا ہے، گھبرانے کی بات نہیں، جی نہیں۔ یہ deja vu ہرگز نہیں ہے، ایسی کشمکش آزاد و دباؤ سے یکسر بے نیازعدلیہ ، میڈیا اور سیاست وحکومت کے سیاق وسباق میں کسی محب وطن پاکستانی نے نہیں دیکھی، قوم قطعی نئے اور تلخ و تحیر خیز حقائق و تجربات کا منظر نامہ دیکھ رہی ہے، جس میں عدلیہ سینٹر سٹیج پر موجود ہے، بظاہر سیاسی و جمہوری عمل جاری ہے، سیاسی جماعتوں میں نئے اتحاد، ٹوٹ پھوٹ اور سیاسی قائدین کا ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ بدستور پارٹ آف دی گیم ہے مگر اسی میں ملکی سیاست کی استقامت بھی پوشیدہ ہے، میڈیا صورتحال کی عکاسی کررہا ہے، ملک انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، بشریکہ کوئی انہونی نہ ہو۔

سینیٹ کے انتخابات کے بعد اب 2018 کے انتخابات کے انعقاد پر قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم شروع کرچکی ہیں، شہر شہر جلسے ہورہے ہیں۔ ن لیگ اگرچہ چراغ ِتہ داماں کی کیفیت سے دوچار ہے،اسے بقا کی جنگ کا سامنا ہے لیکن وفاقی و پنجاب حکومت دیگر اکائیوں کی طرح جمہوری عمل سے جڑی ہوئی ہیں ، تاہم بے یقینی کے بادل چھٹنے چاہئیں ۔ گزشتہ روز ریاض میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیزاور ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان کے درمیان الگ الگ ملاقاتیں ہوئی ہیں جس میں دوطرفہ تعلقات،خطے کی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، ذرایع کے مطابق یہ ملاقات فوجی مشق گلف شیلڈ(ون) کی اختتامی تقریب کے موقع پر ہوئی، میڈیا کے مطابق وزیراعظم نے سعودی شاہ سے کہا کہ پاکستانی عوام اور حکومت کے لیے سعودی عرب انتہائی اہمیت کا حامل ہے، سعودی فرمانروا نے بھی پاکستانی عوام اور حکومت کی تعریف کی،بتایا جاتا ہے سعودی فرمانروا سے ملاقات میں آرمی چیف بھی موجود تھے۔

41 ممالک کے اتحاد ’’اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن‘‘ کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف بھی تقریب میں شریک تھے۔بلاشبہ پاکستانی قوم مشرق وسطیٰ کی شعلہ بار صورتحال پر ارباب اختیار کے لائحہ عمل پر نظریں مرکوز کیے ہوئے ہے، ادھر مبصرین نے ن لیگ ، عدلیہ اور میڈیا کے تعلق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے (ن) لیگ کا ماضی اس حوالے سے بہتر نہیں ہے، سیاسی بیانیوں پر بھی اس استدلال کو اجاگر کیا گیا کہ سیاستدانوں کے بیانیے سینہ بسینہ چلتے رہتے ہیں، جب کہ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا کہنا ہے کہ سوائے مسلم لیگ (ن)کے کسی کا احتساب نہیں ہورہا، انھوں نے کہا کہ عمران خان کی غلط فہمی ہے کہ وہ خیبر پختوانخواہ کا بجٹ پیش نہیں کریں گے، اگر وہ بجٹ نہیں دیں گے تو جون اور جولائی کی تنخواہیں کہاں سے ادا کریںگے۔ ایک اطلاع کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس اعجازالاحسن کے گھر پرفائرنگ کے 2واقعات کی تفتیش کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی) نے تحقیقات کا آغازکردیا ہے، ادھر وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اقامہ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں اضافی دستاویزات جمع کرا دیں ۔ کئی ایک سیاسی مقدمات بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی کہ عدالت کا اتنا احترام ضرور کریں جتنا کسی بڑے کا کیا جانا چاہیے ۔ بہرحال ملکی سیاست میں بدشگونی، محاذ آرائی اور کشیدگی کے مسلسل بھنور ڈالنے سے گریز ملکی مفاد میں ہے۔ سیاست دانوں کو سوچ سمجھ کر ملکی سیاست کے جمہوری دھارے کو آگے بڑھانا ہوگا۔ پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں تلخی بڑھ رہی ہے‘ سیاسی پارٹیوں کے درمیان صحت مند جمہوری مقابلے کی فضا نظر نہیں آ رہی‘ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہے‘ جمہوریت کی بقا کے لیے لازم ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے عوام کے مفادات کو مدنظر رکھ کر اپنے منشور کی تیاری پر زور دیں‘ سیاست میں ایک دوسرے پر الزام تراشی تلخیوں کو بڑھائے گی‘ موجودہ حالات میں حکمران جماعت کے لوگوں پر جو مقدمات چل رہے ہیں ان پر بھی ذاتی نوعیت کی رائے زنی سے گریز کیا جائے اور عدالتی فیصلوں کا انتظار بھی کیا جائے۔

سیاسی جماعت کا کام عوام کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے‘ اگر سیاسی جماعتیں سطحی نوعیت کے بیانات دیں گے اور جذباتی نعرے لگائیں گے تو اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا احتمال موجود ہے‘ پاکستان کے ارد گرد کے حالات پر نظر ڈالیں تو صورت حال کچھ زیادہ خوش کن نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کنٹرول لائن پر بھارت جارحیت کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے جب کہ شمال مغربی سرحد پر افغانستان نے بھی یہی وتیرہ اپنا رکھا ہے۔پاکستان کو موجودہ حالات میں اندرونی طور پر استحکام کی اشد ضرورت ہے‘ یہ کام سیاسی جماعتیں اور اہل دانش ہی انجام دے سکتے ہیں۔

اداروں کی حدود و قیود آئین نے طے کر دی ہیں‘ سب کو چاہیے کہ وہ انھی حدود و قیود میں رہیں اور ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت سے گریز کیا جانا چاہیے‘ ملکی امور چلانے کے لیے اداروں کے درمیان توازن کا ہونا لازمی امر ہے‘ انتشار اور بدنظمی ملک کے مسائل میں مزید اضافے کا سبب بنے گی اور جمہوریت کے لیے بھی خطرات بڑھتے چلے جائیں گے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز اندرونی اور بیرونی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے اپنے معاملات کو آئین کے تابع لائیں‘ کیونکہ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہی عوام کے تحفظ اور جمہوریت کے استحکام کی ضمانت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔