الیکشن ہی ہر مسئلے کا ہر حل

عبدالقادر حسن  بدھ 18 اپريل 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

آیندہ عام انتخابات میں اب کچھ زیادہ وقت نہیں رہ گیا موجودہ حکومت کم و بیش چند ہفتوں کی مہمان ہے اور اس حکومت کی ذمے داری ہے کہ آیندہ انتخابات کے لیے آئین کی رو سے اپوزیشن سے مشاورت کر کے عبوری وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ منتخب کرے تا کہ ان کی نگرانی میں خوبصورتی سے انتخابی عمل پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔ مگر وقت کم ہونے کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کی کیفیت ہنوز روز اول والی ہے۔ حکومت کو ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اگلے سال کے بجٹ کا اعلان موجودہ حکومت کرے یا اسے عبوری حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ بجٹ کو اگلی حکومت تک موخر کر دیا جائے اور عبوری حکومت ہی عبوری بجٹ کا اعلان کرے تا کہ نئی منتخب ہونے والی حکومت اپنی بجٹ ترجیحات کے مطابق ملک کا نظم و نسق چلا سکے اور اس کویہ بہانہ بھی نہ مل سکے کہ بجٹ اس کی مر ضی اور منشا کے مطابق نہیں تھا وہ کیا کرتی۔ عبوری حکومتوں کا قیام ہمیشہ سے پاکستان جیسے ممالک میں ایک چیلنج رہا ہے عموماً اپوزیشن کو اس بات پر اعتراض ہوتا ہے کہ عبوری حکومت میں اس کی مرضی کے مطابق تقرریاں نہیں کی گئیں اس لیے الیکشن میں دھاندلی ہو گی اور ہم نے یہ الزام بار بار لگتے دیکھا ہے اور گزشتہ الیکشن میں جناب عمران خان تو یہ کہتے رہے کہ ان کو الیکشن میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی وجہ سے پینتیس سیٹوں سے محروم ہونا پڑا ہے لیکن اس الزام کو وہ ثابت کرنے میںجزوی طور پر ناکام رہے۔

دوسری طرف جناب آصف زرداری نے اسے ریٹرنگ افسروں کا الیکشن قرار دیا تھا وہ الیکشن کمیشن پر ہی الزامات لگاتے رہے حالانکہ جس طرح کی حکمرانی کر کے وہ گئے تھے ان کا اپوزیشن میں آنا بھی ایک معجزہ تھا جو کہ انھوں نے غریب سندھیوں کے سہارے سر کر لیا اور اب ایک مرتبہ پھر شکار کی تلاش میں ہیں کہ کسی طرح قومی اسمبلی میں معقول تعداد میں سیٹیںحاصل کر کے اپنی حیثیت منوا سکیں اور آیندہ حکومت میں ان کی پارٹی کا حصہ ہو۔ جناب زرداری نے اپنی سیاست اور فراست سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ سیاست کے میدان کے ایک بڑے کھلاڑی ہیں۔ سینیٹ الیکشن میں اس کی ایک جھلکی دکھا کر انھوں نے اپنے آیندہ کے سیاسی ارادوں کا عندیہ دیا ہے۔

جناب عمران خان جو کہ اپنی صاف ستھری سیاست کے ساتھ میدان میں ہیں وہ اس بات پر مصر ہیں کہ آیندہ انتخابات میں کسی ایسے شخص کو نگران وزیر اعظم کا عہدہ دیا جائے جو اپنے اس عہدے کے ساتھ انصاف کر سکے اور ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرائے جا سکیں۔

جب کہ حکومت کی جانب سے بار بار اس بات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ نگران دور کے لیے سیٹ اپ بنانے کے لیے وہ صرف اپوزیشن لیڈر سے ہی مشاورت کرے گی جو کہ آئینی اور قانونی طریقہ ہے۔ مگر ملک میں اپوزیشن کی باقی جماعتیں بھی موجود ہیں جن میں بڑی جماعت تحریک انصاف اور اس کے بعد مذہبی جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد متحدہ مجلس عمل کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔ ایم کیو ایم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ان کو سر دست اس سے کوئی سرو کار نہیں وہ پہلے اپنی صفوں کو درست کرے مگر جن کی صفیں درست ہیں ان سے نگران حکومتوں کے لیے مشاورت از حد ضروری ہے کیونکہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں سے مشاورت کے بعد ہی نگران حکومتوں کو سب کے لے قابل قبول بنایا جا سکتا ہے۔

آیندہ انتخابات ملک میں سیاست کی نئی راہیں متعین کرنے جا رہے ہیں۔ پاکستان پچھلے دس برسوں سے کسی فوجی حکوت کے سائے سے بھی دور رہا ہے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم جمہوری بلوغت کے دور سے کامیابی کے ساتھ نکل چکے ہیں اب ہم جمہوریت کی اصل روح کے مطابق حکومت بنانے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں جمہوری پلوںکے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے دونوں بڑی پارٹیوں نے اپنی اپنی حکمرانی کی باریاں مکمل کر لی ہیں۔ پاکستانی عوام اپنے حق کو جان چکے ہیںوہ نئے شعور اورجذبے کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینے جا رہے ہیں۔

آیندہ الیکشن میں جو بھی حکومت بنے مجھے امید واثق ہے کہ معروف جمہوری کلچر کے اکثر وبیشتر تقاضے ہمارے نئے ارکان پارلیمان اور ان کے قائدین پورے کر سکیں گے۔ ہم نے غیر جمہوری طاقتوں کے ہاتھوں بہت مار کھائی ہے جمہوریت سے کہیںزیادہ آمریت کا مزہ چکھتے رہے ہیں اب اگر اللہ اللہ کر کے جمہوری عمل کا تسلسل چل رہا ہے تو یہ ہمارے سیاستدانوں کی دانشمندی ہے کہ انھوں نے غیر جمہوری قوتوں کو اپنی صفوں میں جگہ نہیں بنانے دی اس لیے جیسی بھی ہے جمہوریت چل رہی ہے اور الیکشن اس جمہوریت کا بہترین علاج اور غذا ہیں۔ اگر اسی طرح تسلسل کے ساتھ الیکشن ہوتے رہے تو جمہور کی طاقت مزید بڑھے گی مگر ہوتا یہ آیا ہے کہ ہمارے کچھ سیاستدان جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو وہ دوبارہ سے اقتدار میں آنے کے لیے غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں جو کہ ان کو اقتدار تک تو لے آتی ہیں لیکن ملک کو کئی سال پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔

ہمیں الیکشن کے ذریعے ہی اپنے مسائل حل کرنا ہوں گے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن منصفانہ ہوں تا کہ سب کے لیے قابل قبول ہوں۔ منصفانہ الیکشن کی بنیاد منصفانہ نگران حکمرانوں سے شروع ہوتی ہے اس لیے اگر متفقہ طور پر نگرانوں کا انتخاب ہو گا تو بعد میں الیکشن پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا اور سب الیکشن کے نتائج کو قبول کریں گے۔ یہ بھاری ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام پارٹیوں سے مشاورت کو ترجیح دیتی ہے یا اس میں اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے صرف اپوزیشن لیڈر تک محدود رہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔