عقل آتی ہے مگر دیر سے

سردار قریشی  بدھ 18 اپريل 2018

’’پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے‘‘ والی کہاوت تو آپ نے بھی سنی ہوگی، مجھے البتہ اس کا مطلب بہت دیر سے اور کافی نقصان اٹھانے کے بعد سمجھ میں آیا تھا۔ نوکری چھوٹ جانے کے بعد میں فارغ تھا اور کرنے کو کوئی کام نہیں تھا، تنگدستی اور بوریت کے دہرے عذاب نے جینا حرام کر رکھا تھا، چڑچڑے پن کی وجہ سے بچے تک مجھ سے تنگ آچکے تھے۔ ایسے میں میرے دوست یامین مرحوم کے آئیڈیا نے تاریک سرنگ میں چراغ کا کام کیا اور میں نے اس کے مشورے سے لالو کھیت کے علاقے سندھی ہوٹل میں مسجد دارالسلام کی ایک دکان کرایہ پر لے کر اس میں پریس لگا لیا، جس کے لیے پیسے اماں کی سفارش پر بھائی جان نے دیے تھے۔

کام لانے کا ذمہ یامین نے اٹھایا تھا، جسے یقینی بنانے کے لیے میں نے اسے پارٹنر بنا لیا، کام تو وہ لارہا تھا اور ہماری پرانی چینڈرل مشین دن رات چلتی بھی تھی مگر ایک دھیلا نہیں بچتا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہم دونوں سیٹھ بنے کرسی پر بیٹھے رہتے تھے، نہ تو ہمیں کمپوزنگ آتی تھی اور نہ ہی ہم مشین چلانا جانتے تھے، مارکیٹ ریٹ پر سارا مہینہ کام کرکے حساب کرنے بیٹھتے تو کمپوزیٹر اور مشین مین کی تنخواہیں، دکان کا کرایہ اور بجلی کا بل نکال کر پتہ چلتا کہ ہم صرف اپنا وقت ضایع کر رہے ہیں۔ اس قسم کا کام کرکے کماتے وہ ہیں جو کام جانتے ہی نہیں خود کرتے بھی ہیں اور وہی ان کی بچت ہوتی ہے۔

دوسری بات یہ سمجھ میں آئی کہ تھوڑی رقم سے کام شروع کرکے آپ مسابقت کی دوڑ میں حصہ نہیں لے سکتے۔ روز کما کر کھانے کی امید پر کام کرنے والے مارکیٹ کے تقاضے پورے نہیں کر پاتے اور نقصان اٹھاتے ہیں۔ کام جمانے اور مارکیٹ میں جگہ و ساکھ بنانے کے لیے ایک عرصہ چاہیے، جو گزارنے کے لیے آپ کو ہاتھ کھلا رکھنا پڑتا ہے، جس کے لیے وافر سرمایے کا ہونا ضروری ہے۔

میرے مہربان دوست مہتاب بھائی نے، جنھیں میں بڑے بھائی کا درجہ دیتا تھا، عملی طور پر یہ کر دکھایا تھا۔ وہ سندھ ہائی کورٹ کے ججز گیٹ کے عین سامنے اور اولڈ سندھ سیکریٹریٹ بلڈنگ کے عقب میں واقع مشرق پریس میں بحیثیت فورمین کام کرتے تھے، اعلیٰ درجے کے پلیٹ میکر بھی تھے اور ایک زمانے میں کراچی کے اکثر پلیٹ میکر خود کوان کا شاگرد بتا کر کام حاصل کرتے تھے۔ وہ جب لالو کھیت میں اپنا بڑا پرنٹنگ پریس لگا رہے تھے تو سب دوستوں نے مخالفت کی تھی کہ ان دنوں شہر کے حالات بہت خراب جا رہے تھے، ہنگامے اور ہڑتالیں روز کا معمول تھا، لیکن وہ بضد تھے کہ نہ صرف وہاں پریس لگائیں گے بلکہ چلا کر بھی دکھائیں گے۔

میرا زیادہ تر وقت چونکہ ان کے ساتھ گزرتا تھا اس لیے مجھے ان کے طریقہ کار کا بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ پی آر تو اچھی تھی ہی لیکن میں دیکھتا تھا کہ وہ جو کام پکڑتے تھے وہ نہ صرف مارکیٹ کے ریٹ سے سستا بلکہ زیادہ اچھا، معیاری اور وقت سے پہلے کرکے دیتے تھے، بلکہ ایک سے تین مہینے کے کریڈٹ کی سہولت بھی دیتے تھے، کسٹمر کی خاطر تواضع توکرتے ہی تھے، وہ ادائیگی کرنے لگتا تو کہتے اگلی بار ایک ساتھ دے دیجیے گا، یہ ان کا تکیہ کلام تھا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ حسب توقع انھوں نے مختصر مدت میں اپنا پریس جمالیا اور کامیابی سے چلا کر دکھا دیا۔ اب وہ خود تو دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کے بچے باپ کے چھوڑے ہوئے ورثہ کو خوب اچھی طرح سنبھالے ہوئے ہیں۔

مہتاب بھائی کے ایک دوست، جو بابائے اردو مولوی عبدالحق کے زمانے سے گارڈن روڈ والی انجمن ترقی اردو پریس میں بطور منیجر کام کرتے تھے، بھی یہ فن جانتے تھے۔ ہمارے پرانے محلے کے ایک بڑے صاحب اچار کا کاروبار کرتے تھے، ان کے پاس اچار ڈالنے کا کوئی خاندانی فارمولا تھا اور ان کا اچار شہر بھر میں خوب بکتا تھا، 6 عدد سوزوکی پک اپس سپلائی پر مامور تھیں، پھر بھی طلب پوری نہ کرپاتی تھیں۔ بڑے میاں کی وفات کے بعد ان کے دونوں بیٹوں نے طے کیا کہ وہ باپ کا چلتا ہوا کام جاری رکھنے کے بجائے کوئی دوسرا کاروبار کریں گے۔ چالیسویں کے موقع پر میں نے ان کی پریس منیجر سے ہونے والی گفتگو سنی تھی، جنھیں وہ انکل بلاتے تھے اور نئے کاروبار کے حوالے سے ان کا مشورہ اور مدد چاہتے تھے۔

انھوں نے پہلے تو دونوں بھائیوں کو سمجھایا کہ وہ باپ کا جما جمایا اور چلتا ہوا کاروبار جاری رکھیں، جس کے لیے انھیں نئے سرے سے کوئی محنت بھی نہیں کرنی پڑے گی، مگر جب وہ نہ مانے اور اپنی بات پر اڑے رہے تو ان صاحب نے کہا ’میری ساری زندگی پریس لائن میں گزری ہے، کوئی دوسرا کام کیا ہی نہیں، اگر اس طرف آنا چاہو تو میں رہنمائی کرسکتا ہوں۔ وہ مان گئے، اچار بنانے میں استعمال ہونے والے تیل کے ڈرم اور دوسرا سامان ان کے گھر کے نیچے بنی ہوئی جن 6 دکانوں میں رکھا تھا، وہ خالی کرائی گئیں اور ان میں عام سی چھپائی کی مشینیں لگوائی گئیں۔ پھر ایک روز میں نے کاغذ کے ریموں سے لدا ہوا ٹرک وہاں خالی ہوتے دیکھا، مشین مین وہ پہلے ہی بھرتی کر چکے تھے، اکاؤنٹس کے دو رجسٹروں، کیش بک اور لیجر کے فرمے بنواکر لائے گئے اور چھپائی شروع کرادی گئی۔

میں سمجھا انھوں نے کوئی بڑا آرڈر پکڑا ہے، لیکن ایسا کچھ نہیں تھا اور کسی آرڈر کے بغیر رجسٹر چھاپے جارہے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ جب 6 سوزوکیوں کے لوڈ جتنے رجسٹروں کی چھپائی اور بائنڈنگ مکمل ہوئی تو وہ انھیں کانوائے کی صورت میں لے کر یوں روانہ ہوئے کہ سب سے آگے والی سوزوکی میں سیمپل کے طور پر کچھ رجسٹر لیے خود بیٹھے تھے اور باقی گاڑیاں ان کے پیچھے چل رہی تھیں۔ بندر روڈ پر عیدگاہ سے ذرا پہلے انھوں نے ڈرائیور سے گاڑی اردو بازار کی طرف موڑنے کے لیے کہا، اب وہ سیمپل ہاتھ میں لیے کتابوں اور اسٹیشنری کی ایک ایک دکان پر جاکر رجسٹر دکھاتے اور چھوٹتے ہی کہتے 6 مہینے کے کریڈٹ پر آرڈر لکھوا کر مال اتروائیے۔

یقین کیجیے صرف 2 گھنٹوں میں ساری گاڑیاں خالی ہوچکی تھیں۔ واپس آتے وقت ان میں پھر کاغذ کے ریم لدے ہوئے تھے۔ میں جتنا عرصہ پرانے محلے میں رہا کبھی مشینوں کو بند نہیں دیکھا، لیجر اور کیش بک کے رجسٹر چھپتے اور کریڈٹ پر بکتے رہتے تھے۔ پیسہ پہلی دفعہ 6 مہینوں کے لیے بلاک ضرور ہوا لیکن جب رولنگ میں آیا تو اس نے کاروبار کو مستقل اور مضبوط بنیاد فراہم کردی۔ مرحوم بڑے میاں کے وہ لڑکے جو ان کی زندگی میں ہماری آپ کی طرح بسوں میں دھکے کھاتے تھے، اب ایئرکنڈیشنڈ کاروں میں گھومتے نظر آتے تھے۔

ان کے انکل نے ثابت کر دکھایا تھا کہ ’محنت میں عظمت‘ اور ’جتنی محنت اتنی ترقی‘ والی ساری کتابی باتیں محض بکواس ہیں۔ ترقی کرنے اور مال بنانے کے لیے محنت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی، نہ ہی محنت کرکے مال بنایا جا سکتا ہے، مال بنانے کے لیے مال ہی استعمال کرنا پڑتا ہے اور ظاہر ہے مال وہی استعمال کرے گا جس کے پاس مال ہوگا۔ اسی کو دوسرے لفظوں میں ’پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے‘ کہتے ہیں۔ گویا کاروبار کرنے، مال بنانے اور ترقی کرنے کا حق صرف پیسے والوں کو ہے، جن کے پاس ہے عیش کریں اور جن کے پاس نہیں ہے وہ ہوا کھائیں۔ یہی وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے مخلوق کو امیروں اور غریبوں میں کچھ اس طرح تقسیم کر رکھا ہے کہ ایک کھاتا ہے، باقی منہ دیکھتے ہیں۔ ہمیں اس کی سمجھ دیر سے آئی تھی، آپ کو بھی آجائے گی کہ عقل ہمیشہ دیر سے اور بہت کچھ گنوانے کے بعد آتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔