زندگی کے ستائے ہوئے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 18 اپريل 2018

1981ء کا واقعہ ہے، ہیرالڈ کشز نے، جو کہ خود کو زندگی کا ستایا ہوا قرار دیتا ہے، ایسے لوگوں کے لیے کتاب لکھی جو کہ زندگی کے ستائے ہوئے ہیں اور کسی بہتر چیز کے حقدار ہیں۔ اس کتا ب کا عنوان When Bad Things Happen to Good People ہے۔ یہ کتاب بیسوی صدی کی نویں دہائی کے دوران چند سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک بن گئی، کیونکہ اس میں ہمارے ایک قدیم ترین اور آفاقی سوال کو موضوع بنایا گیا ہے اور وہ سوال ہے ’’کیوں‘‘ یا اس سے بہتر ’’میں ہی کیوں‘‘۔ بدقسمتی سے زندگی ہمیشہ منصفانہ نہیں ہوتی۔ یہ ہی سب سے زیادہ اذیت ناک وہ سچ ہے جسے ہم نے جاننا ہے اور شاید دنیا بھر میں پوچھے جانے والا سوال بھی یہ ہی ہے اور پاکستان میں تو کروڑوں لوگوں کے منہ پر یہ ہی سوال ہے کہ آخر ’’میں ہی کیوں‘‘۔

ہم سب بدترین صورتحال سے دوچار ہیں، جس سے باہر نکلنے کی دور دور تک کوئی راہ نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ کوئی روز ایسا نہیں ہوتا جو اس بدترین کو اور مزید بدترین نہ کرجاتا ہو۔ فلسفی ہزاروں سال سے اس موضوع پر لکھتے چلے آئے ہیں کہ زندگی جیسی ہوتی ہے وہ ویسی کیوں ہوتی ہے۔ کیونکہ زندگی ہمیشہ ویسی نہیں ہوتی جیسی ہم چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش یہ ہوتی ہے کہ ہماری زندگی آسان ہو، مستقل طور پر منصفانہ ہو، زیادہ سے زیادہ راحت انگیز ہو، اس میں دکھ، تکلیف اور رنج و الم نہ ہوں، ہمیں موت نہ آئے، ہم ہر وقت خوش رہیں۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ ہماری یہ خواہشیں پوری نہیں ہوتیں۔ حقیقت ان کے برعکس ہوتی ہے۔ یہ بھی سچائی ہے کہ دنیا ہمیں خوش کرنے کے لیے خود کو کبھی وقف نہیں کرتی ہے۔

ایک نامور مصنف لکھتا ہے ’’کیا تم نے کبھی کسی کار کے بمپر پر چسپاں وہ اسٹیکر دیکھا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے ’زندگی کٹھن ہے اور پھر تم مر جاتے ہو‘۔ جب میں نے پہلی بار یہ پڑھا تو میں ہنسنے لگا تھا، پھر میں نے سوچا کہ میں کیوں ہنس رہا تھا، مجھے تو اس بات پر حیران ہونا چاہیے تھا کسی کی کار کے پیچھے زندگی کا ایک عظیم سچ میرے سامنے تھا‘‘۔

تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے گوتم بدھ نے ’’چار سچائیاں‘‘ بیان کی تھیں۔ پہلی سچائی یہ تھی کہ ’’زندگی دکھ ہے‘‘۔ نفسیات دان اسکاٹ پیک کی مشہور کتاب The Road Less Travelled کے ابتدائی تین لفظ ہیں ’’زندگی مشکل ہے‘‘۔ پیک اسے ایک عظیم ترین سچائی کہتا ہے، کیونکہ جب ہم اسے جان لیتے ہیں اور اسے قبول کرلیتے ہیں تو ہم زیادہ موثر انداز میں جی سکتے ہیں۔ ہم اپنے مسائل پر گریہ وزاری کرنے کے بجائے ان کے حل تلاش کرسکتے ہیں۔ جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ ناکام ہوتے ہیں، ان میں سب سے بڑا فرق یہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کی مشکلات کے حوالے سے کیسی سوچ رکھتے ہیں۔ ٹم ہینسل نے اپنی حیران کن کتاب You Gootta keep Dancin میں لکھا ہے ’’درد و کرب ناگزیر ہے، لیکن مصیبت زدہ ہونا اختیاری ہے‘‘۔ انگلینڈ میں Cromwellian گرجا گھروں میں پتھریلی دیواروں پر دو لفظ کندہ ہوتے ہیں ’’سوچو اور شکر کرو‘‘۔

آئیں ہم مل کر سوچتے ہیں کہ ہم سب بدترین صورتحال سے ’’کیوں‘‘ دوچار ہیں۔ ہماری زندگی مسائل زدہ کیوں ہوکر رہ گئی ہے۔ جب ہم اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ زندگی کٹھن اور مشکل ہے اور درد و کرب ناگزیر ہیں تو ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا، پہلے سے بنا ہوا نہیں ہوتا، جس میں آپ داخل ہوجائیں۔ اس لیے آپ کو اپنے آج کو روز بنانا پڑتا ہے، آج کو بنانے کا فیصلہ خدا نے اپنے پاس نہیں رکھا، بلکہ اس فیصلے کا اختیار خدا نے ہمیں دے دیا ہے، اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے اپنے لیے خوشگوار اور مسرت زدہ بناتے ہیں یا پھر اسے اپنے لیے اذیت ناک بناتے ہیں۔ یہ لڑائی اور جنگ پہلی سانس سے روز لڑی جاتی ہے اور اگر آپ یہ لڑائی اور جنگ لڑنے اور اسے جیتنے کی پوری تیاری، پلاننگ کرتے ہیں، ہمت، جوش اور حوصلے کی مدد حاصل کرتے رہتے ہیں۔

عقل ودانش اور سوچ بچار کے ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں، تو آپ کی کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔ جب آپ کامیاب ہوجاتے ہیں تو خدا ہنس پڑتا ہے۔ یاد رہے، دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی ہے، کامیابی بھی نہیں۔ دنیا میں مفت میں صرف ناکامی، ذلت، خواری، شرمندگی، مسائل اور مشکلات ملتے ہیں۔ دنیا آپ کو کامیاب بنانے کے لیے خود کو وقف نہیں کرتی ہے۔ مسائل وقت کی طرح ہوتے ہیں جنھیں آپ کی زندگی میں آنا ہی ہے، صرف مردے ہی مسائل سے پاک ہوتے ہیں۔ جس طرح ہم لباس روز پہنتے ہیں، اسی طرح سے ہم عادتیں بھی روز پہنتے ہیں، ہمارے کپڑوں کی طرح ہماری ساری عادتیں بھی حاصل کی ہوئی ہوتی ہیں۔ ہم کسی بھی ایک عادت کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے۔

عظیم شاعر جون ڈرائیڈن نے تین سو سال پہلے کہا تھا ’’پہلے ہم اپنی عادتوں کو بناتے ہیں اور پھر ہماری عادتیں ہمیں بناتی ہیں‘‘۔ اگر ہمارا آج اذیت زدہ ہے تو اس کے ذمے دار ہم خود ہیں، ہم نے بغیر لڑے یہ جنگ ہاری ہے، ہم نے اپنے پہلے ہی روز اپنے آج کو خوشحال اور خوشگوار بنانے کی جنگ ہی لڑنے سے انکار کردیا تھا۔ ہم سے زیادہ بزدل اور ڈرپوک شاید ہی کوئی اور ہو۔ ایک ستم ہم اور ڈھاتے ہیں جب ہم اپنے نصیبوں اور قسمت کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ آئیں خدارا اب تو حق اور سچ کہہ دیں، اپنے آپ کو برا بھلا کہہ دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔