کون سا نشان کیا کہتا ہے

سید محب اﷲ شاہ  اتوار 14 اپريل 2013
انتخابی نشانات کے حوالے سے ایک دل چسپ تحریر۔ فوٹو: فائل

انتخابی نشانات کے حوالے سے ایک دل چسپ تحریر۔ فوٹو: فائل

الیکشن 2013 کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس تاریخی دنگل میں مقابلے کی خواہش مند 148 جماعتوں کو انتخابی نشانات جاری کردیے ہیں۔

انتخابی نشانات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے حاصل شدہ تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے 193انتخابی نشانات کی فہرست جاری کی تھی، جن میں سے 148نشانات الاٹ کردیے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر جانے سے پتا چلا کہ الیکشن 2013میں انتخابی دوڑ میں ایسی ایسی پارٹیاں شامل ہیں کہ جن کا نام اس سے قبل ہماری سماعتوں سے بھی کبھی نہیں ٹکرایا تھا اور ٹکراتا بھی کیسے! کیوںکہ ان پارٹیوں کو مختلف اوقات میں یکسر مختلف مقاصد کے لیے رجسٹر کرایا گیا تھا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ جیسے عجیب و غریب ان پارٹیوں کے نام ہیں ویسے ہی عجیب وغریب نشان ان کا مقدر ٹھہرے۔

الیکشن لڑنے کی خواہش مند ایسی پارٹیوں میں سرفہرست نام ہے ’’آپ جناب سرکار پارٹی‘‘ کا اور مزیدار بات یہ ہے کہ اس پارٹی کا انتخابی نشان ہے ’’سیب‘‘۔۔۔بس تو جب آپ ہی ’’جناب‘‘ ہوں اور آپ ہی ’’سرکار ‘‘ ہوں تو پھر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایسی بنی بنائی سرکار کی مہمانی ’’سیب ‘‘ سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی۔ اور پارٹی نے بھی اس کو غنیمت جانا اور اپنے منشور میں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق روزانہ ایک سیب کھلاکر عوام کے دکھ درد اور بیماریاں مٹانے کا سوچنے لگی، لیکن شاید اس پارٹی کو عوام پر یہ نسخہ آزمانے کا موقع نہیں ملے گا۔ تاہم اگر ایسا ہوجاتا تو ہماری قوم کے ’’ینگ ڈاکٹرز‘‘ کے ساتھ ساتھ عطائیوں کا کاروبار بھی ٹھپ ہوسکتا تھا، کیوںکہ جب ’’سرکار‘‘ اور ’’رعایا‘‘ سب کے سب سیب کھانے میں مشغول ہوجاتے تو ڈاکٹروں کو کسی دوسرے ملک کا رخ کرنا پڑتا۔

ایک اور جماعت ’’پختونخواقومی پارٹی‘‘ کو ’’پشاوری چپل‘‘ کا نشان الاٹ کیا گیا ہے۔ یہ چپل اپنی پائے داری کے لیے مشہور ہے، چناں چہ یہ جماعت کہہ سکتی ہے کہ اقتدار میں آکر ہم ہر شخص کو ایک جوڑی پشاوری چپل دیں گے، کہ مسائل کے لیے اس کی جوتیاں گھس گھس کر بھی پانچ سال پورے کرجائیں۔ اس نشان کی الاٹمنٹ کسی اشتہاری ایجنسی کی چال معلوم ہوتی ہے کہ انتخابی مہم سے دو فائدے حاصل کیے جائیں۔ امیدواروں کی تشہیر کے ساتھ ساتھ ’’پشاوری چپل ‘‘ کی بھی مارکیٹنگ ہوجائے۔ ہمارے ایک دوست نے کیا خوب تبصرہ فرمایا کہ اگر اس پارٹی کا انتخابی نشان ’’جوتا‘‘ ہوتا تو عوام کا بھلا ہوجاتا۔ ہم نے پوچھا ’’بھئی وہ کیسے‘‘ کہنے لگے کہ یار دال کتنی مہنگی ہوگئی ہے، اگر اس جماعت کا انتخابی نشان ’’جوتا‘‘ ہوتا تو اس بہانے کم از کم دال بانٹنے میں آسانی ہوجاتی۔

پاکستان کے سب سے زیادہ پس ماندہ اور مظلوم صوبے بلوچستان کی نمائندگی کرنے والی بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کو ’’اونٹ‘‘کا انتخابی نشان الاٹ کرنے میں بھی ضرور کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کو اس نشان کے ذریعے یہ پیغام دیا جائے کہ مذکورہ جماعت کام یابی کے بعد صوبے کے باسیوں کو کچھ دے یا نہ دے انھیں مصائب پر صبر کرنا ضرور سکھادے گی۔

Election mark1-photo file

فوٹو: فائل

متحدہ مسلم لیگ کا انتخابی نشان ’’ماچس‘‘ دیکھ کر ہمارے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اس نشان کو دیکھ کر ہمارا یہ حال ہے تو اگر یہ جماعت خدا نخواستہ اقتدار میں آگئی تو پورے ملک میں ’’آگ لگادے گی۔‘‘ متحدہ مسلم لیگ کو ’’ماچس ‘‘ کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کے پیچھے اس منصوبہ بندی کا بھی گمان ہوتا ہے کہ مسلم لیگ جس طرح ریزہ ریزہ ہوگئی ہے اور اتنے دھڑے بن گئے ہیں کہABC کے تمام حروف کم پڑگئے ہیں، یعنی Aسے عوامی مسلم لیگ اور Z سے مسلم لیگ (ضیاء الحق گروپ)، اس طرح مسلم لیگ کے کسے نئے گروپ کو بننے سے روکنے کے لیے ’’متحدہ مسلم لیگ‘‘ کو ’’ماچس‘‘ کا نشان دیا گیا ہے، جس انتخابی نشان الاٹ کرنے والوں کی مثبت سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ماچس ‘‘ متحدہ مسلم لیگ کی ترجمانی کرتی ہے جب کہ مسلم لیگ کے دیگر تمام دھڑوں کو ماچس کی ’’تیلیوں‘‘ کی طرح ’’ڈبیا‘‘ کے اندر بند کرنا مقصود ہے۔

پاکستان فریڈم پارٹی کا انتخابی نشان ہے ’’لوٹا۔‘‘ اس سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ شاید پاکستان فریڈم پارٹی کے منتخب نمائندوں کو یہ ’’فریڈم‘‘ حاصل ہوگی کہ وہ عوام کے وسیع تر مفاد میں جب چاہیں پارٹی بدل کر لوٹا بن جائیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دیگر پارٹیوں کے لوٹوں کو بھی اس پارٹی میں آنے کی مکمل آزادی ہوسکتی ہے۔

ایک پارٹی کا نام ہے ’’تحریک تبدیلیٔ نظام پاکستان۔‘‘ پارٹی کا نام تو ہمیں اچھا لگا لیکن سمجھ نہیں آئی کہ انتخابی نشان ’’ہاتھی‘‘ کے پیچھے کیا منطق ہے اور یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ یہ ہاتھی ’’سفید‘‘ ہوگا یا ’’کالا۔‘‘ اگر یہ ہاتھی سفید نکلا تو واپڈا، پی آئی اے اور اسٹیل مل اور ان جیسے دیگر اداروں کی طرح قوم پر بوجھ ہی بنے گا۔ اسی طرح ایک پارٹی ’’محب وطن نوجوان انقلابیوں کی انجمن‘‘ کو ’’ٹوپی‘‘ کا انتخابی نشان دے کر خوب صورت طریقے سے بتایا گیا ہے کہ وہ یہ ٹوپی اپنے ووٹرز کو پہنادے۔

سندھ اربن رورل الائنس نے انتخابی نشان مانگا تو الیکشن کمیشن نے روٹھی ہوئی بیگم کی طرح ’’بیلن‘‘ دے مارا۔ سرائیکی صوبہ موومنٹ پاکستان کے ہاتھ لگ گیا ہے ’’چاقو‘‘، اللہ خیر کرے! تعمیر پاکستان پارٹی کا نشان ہے ’’ہتھوڑا‘‘ جس کے بعد عوام کے لیے ’’سیلف ڈیفنس‘‘ کی تربیت حاصل کرنا لازمی ہوگیا ہے۔ تحریک ِجمہوریت پاکستان کا انتخابی نشان ہے ’’بلب۔‘‘ امید کی جارہی ہے کہ اس پارٹی کے اقتدار میں آنے سے ملک سے بجلی کا بحران ختم ہوجائے گا۔ پاکستان بچائو پارٹی کا انتخابی نشان ہے ’’لالٹین‘‘، گویا اس کے پاس بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مداوا ہے۔ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی پاکستان اپنے انتخابی نشان ’’قینچی‘‘ سے عوام کو مزید ڈرادے گا کہ یہ جماعت اقتدار میں آکر کہیں ان کی جیبیں بھی نہ کاٹ دے۔

تحریک ِ اتحاد ِ آدم اپنے انتخابی نشان ’’انگوٹھی‘‘کے ذریعے منگنی کے رواج کو مزید فروغ دینے کا کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ غریب عوامی پارٹی اپنے انتخابی نشان ’’چراغ ‘‘ کی مدد سے پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لیے اسباب تلاش کر نے کی ناکام کوشش کرسکتی ہے۔ پاکستان نیشنل مسلم لیگ اپنے انتخابی نشان ’’حقہ‘‘ عوام میں پھیلا کر ان کے کہہ سکتی ہے کہ اپنے مسائل پر آواز اٹھانے کے بجائے حقہ گُڑگُڑائیں اور اپنے غم دھوئیں میں اُڑائیں۔ اس طرح مسائل پر احتجاج کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔